باجی برواہی صاحب کا انتقال قلب خاکی میں زخم سبور

0
0

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
ایڈوکیٹ تعظیم ڈار
راجوری۔موبائل نمبر:9419182313
قارئین زندگی خوشی اور غم کا مجموعہ ہے اور اس کے اتنے رنگ ہیں کہ انسان کی ساری کاوشیں کسی ایک رنگ کو سمجھنے سے ابھی تک قاصر ہیں۔ جہاں یہ خوشی بن کر اپنا رنگ دکھاتی ہے وہاں اسے سمجھنا ایسے ہی مشکل ہے جیسے سیاہ گھٹاؤں کے بعد صاف وشفاف آسمان کی رنگت کو اور جہاں غم بن کر چھا جاتی ہے وہاں محرومی ومایوسی کی علامت بن کر ابھرتی ہے۔ان سب کے باوجود انسان پھر بھی کسی نہ کسی سہارے کے سائے تلے جیتا ہے اور یہ سہارا اس کے دل میں بسے اس عقیدے کی قندیل کی روشنی میں امیدوں کے چراغ روشن رکھتا ہے اور آگے بڑھتا رہتا ہے۔ ابتداء آفرینش سے انسان زندگی کے انہیں متنوع اور متغیر رنگوں اور جذبات کے ساتھ جی رہا ہے۔اس کرہ ارض میں جہاں کہیں اس قدرت برحق نے حیات و ممات کے سلسلے کو قائم کیا ہے وہاں محرومی ومایوسی کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی اصلاح ساز ضرور بھیجا گیا جس نے زندگی کی تلخیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے دلوں میں امیدوں کے چراغ روشن کیے اور نئی راہوں کی جستجو کا جذبہ پیدا کر کے اس دنیا کے ادھورے رنگوں میں رنگ آمیزی کے لیے انسان کو تیار کیا۔کہیں انبیاء علیہم السلام بھیجے کہیں صوفیاء کرام اور کہیں اولیاء اللہ۔ صرف اور صرف اس لیے کہ انسان کہیں اس زندگی کی حقیقت سے آشنائی کے بعد موت کو گلے نہ لگا لے۔ آگر قدرت برحق نے یہ سلسلہ شروع نہ کیا ہوتا ہے تو شاید انسان ان سب سے اغماض کر لیتا اور تن تنہا من وعن اس دارفانی سے عالم جاودانی کے سفر کو سفر نہیں بلکہ ایک عایلی قانون سمجھ لیتا جو قدرت برحق سے منسوب ہو جاتا۔لیکن اللہ تعالیٰ کے نیک اور برگزیدہ بندوں نے انسان کی نگاہوں کی لذت کے لیے نظاروں کو اتنا حسین بنا دیا کہ یہ دارفانی عالم جاودانی کی منزل کا پیش خیمہ ٹھرا۔اس پورے سلسلہ کا آغاز اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم الرضوان کے ظہور سے شروع کیا اور آخری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک ختم ہوا۔پھر یہ سلسلہ انہیں کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے والوں کے سپرد کیا اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں نے اس پیغام آفاقی کو عالم انسانی کی بقا کے لئے مختص کر دیا۔عرب سے اس سلسلے کا آغاز ہوا اور عجم کی پر پیچ و ناہموار فطری اذہان تک منتقل ہونا شروع ہوا اور انسان انسان کی اہمیت وافادیت کے احساس سے مالامال ہوا۔اس سلسلہ کو ہم نے علماء وصوفیا ، مشائخ اولیا سے جانا اور ان سے ہم تک دین برحق پہنچا۔اس سلسلہ نے برصغیر کو ماضی سے حال تک اپنے رشد و ہدایت کا مرکز بنا لیا جو آج بھی جاری وساری ہے اور لوگوں کو حق کی تلقین کرتا رہے گا۔اسی سلسلہ کی ایک کڑی جنہیں ہم روحانی معلم بھی کہہ سکتے ہیں میری مراد باجی مظفر حسین شاہ رحمتہ اللہ سے ہے جو صوبہ جموں کے ضلع راجوری کے علاقے برواہی میں مقیم تھے اور چند دل قبل اس دارفانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کر گئے۔ باجی صاحب کا حلقہ مریدین بے حد وسیع اور ہمہ جہت تھا انہوں نے اپنے رشد و ہدایت سے خط پیر پنچال کی عوام کی مایوسیوں اور محرومیوں کو خوشیوں میں بدلنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ہر دن ہزاروں کی تعداد میں لوگ مذہب و قوم سے اوپر اٹھ کر مستفید ہوتے رہے۔ کئی گھروں کی خوشیاں ان سے منسوب تھیں اور کئی مردہ دلوں کے چراغ انہیں سے روشن ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ کے قانون کو کون بدل سکتا ہے اور موت جیسی حقیقت کو کون ٹال سکتا ہے یہ انسان کے بس میں نہیں۔ جو اس دارفانی میں اسے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرنا ہے کوئی پہلے چلا جاتا ہے اور کوئی اس دنیا کی تلخیوں کو دیکھ کر جاتا ہے لیکن جانا ضرور ہے یہی معاملہ باجی صاحب کے ساتھ بھی ہوا۔ ان کی موت کی خبر نے ان کے چاہنے والوں کے دلوں پر تاریکی کے سیاہ بادل لاکھڑے کر دیے اور وہ مغموم و معتوب قدرت کے اس فیصلے کو قبول کرنے پر مجبور ہو گے۔اس میں شک نہیں اس کی تلافی مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے لیکن پھر بھی ہم قدرت برحق کے فیصلے کو سرخم تسلیم کرتے ہیں اور اس ذات باری تعالٰی کے سامنے سجدہ عقیدت سے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس نے جو کیا وہ ہمارے قبضہ اختیار میں نہیں کہ ہم اسے بدل سکیں۔ باجی صاحب کی موت کا صدمہ ایسا زخم ہے جس کی برپائی مشکل ہے لیکن ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ صبر و شکر کی نعمتوں سے نوازے اور ہماری شکیبائی کا ازالہ کرے۔باجی صاحب نے جس طریقے سے اصلاح کا سلسلہ شروع کیا یقیناَ آنے والی نسلوں کے لئے چراغِ راہ ثابت ہو گا۔ان سے پہلے اکثر اہل اللہ کا معاملہ تھوڑا جدا رہا انہوں نے ثابت کیا کہ قوم کو سیاسی سطح پر باشعور بنانا اور ایک اچھے رہنما کا انتخاب بھی کسی عبادت سے کم نہیں۔ قوم کو جس چیز کی ضرورت رہی انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے کمالات سے مالامال بھی کیا۔ غرباء و مساکین کی اعانت میں انہوں نے ہمیشہ پہل کی اور صاحب علم وفضل کو تلقین بھی کی۔ جو علاقہ ایک عرصے دراز سے کئی چیزوں سے محروم تھا ان کے کوششوں سے ترقی کا حامل ٹھرا۔ گھروں میں پیدا ہونے والے نزاعات کو ختم کر کے خاندان کو متحد کر دیا اور ایک بہترین اور خوشحال سماج کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح اگر ہم ان کے فیوض و برکات کی بات کریں تو ماضی کی بازیافت کی علامت بن کر ابھرے اور اسی سلسلے کو تاحیات جاری وساری رکھا۔ہمیں ان کی موت کا بہت صدمہ ہوا ہے اور ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی ان تمام کوششوں کو ان کی نجات کا ذریعہ بنا دے اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے اپنے نیک بندوں کے قلوب و جذبہ پیدا کرے۔آمین۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا