منیر سیفی کی غزلیہ اور نظمیہ شاعری میں داخلی احساسات کی ترجمانی

0
0

ڈاکٹر احسان عالم
پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ

منیر سیفی کا آبائی وطن سہسرام ہے۔ لیکن اب وہ سمن پورہ مالک لین، وی بی سی، پٹنہ میں مقیم ہیں۔ ان کی شاعری کی دہائیوں پر محیط ہے۔ ان کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آکر قارئین سے دادوتحسین وصول کر چکے ہیں۔ ’’اجنبی صدا‘‘، ’’دعا کا شجر‘‘ ، ’’پھول خوشبو ہوا‘‘ اور ’’جھیل آکاش پرندہ‘‘ موصوف کے شعری مجموعے ہیں۔ ’’دیدئہ عبرت نگاہ‘‘کے عنوان سے انہوں نے ایک سفر نامہ تخلیق کیا ہے۔ ان کی ایک تنقیدی کتاب ’’گفتگو کتابوں سے‘‘ 2017میں شائع ہوچکی ہے۔ تاریخی قطعات ’’ذائقۃ الموت‘‘ کے عنوان سے اشاعت کے مراحل سے گزر رہی ہے۔
منیر سیفی نے شاعری کی کئی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے لیکن وہ خاص طور پر غزلوں کے شاعر ہیں۔ ان کی غزلوں اور نظموں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے ان کی شاعری ذات اورکائنات کے گرد گھومتی ہے۔ سماجی حالات کی عکاسی وہ بہت عمدہ انداز میں کرتے ہیں۔ کچھ باتیں اردو غزل کے حوالے سے کرنا لازمی سمجھتا ہوں۔
غزل ایسی صنف غزل ہے جس میں عربی اور ایرانی دونوں تہذیبوں کی آمیزش ہے اور اس کی نشو نما میں فارسی نے بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ شاعری میں غزل کو جو مقبولیت اور عروج حاصل ہوا وہ کسی اور صنف کو نصیب نہ ہوسکا ۔ غزل اپنی غنائیت کی وجہ سے شاعری کی دوسری صنفوں میں ہمیشہ ممتاز رہی ۔ دیگر اصناف میں کچھ جذباتی ، معاشی یا تہذیبی خیالات کا اظہار ممکن ہے۔ لیکن غزل میں ایک ہی وقت میں الگ الگ شعر میں ایک ہی سانچے میں تمام متعلقہ انسانی جذبات و احساسات ، تصورات و خیالات ، نظریات و کیفیات کا احاطہ کیا جاسکتا ہے۔ ہر شعر میں نغمگی کے ساتھ ساتھ فن مصوری کا احساس بھی ہوتا ہے۔
زندگی کی قدریں ہمیشہ بدلتی رہی ہیں۔ جس طرح انسانی زندگی میں اس کی تہذیب و تمدن میں تبدیلیاں ہوئی ہیں اسی طرح زندگی کے ساتھ ساتھ چلنے والے ادب میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ جس جس انداز میں انسان مہذب ہوتا گیا اس کی تہذیب و تمدن کا ورثہ بھی لامحدود ہوتا گیا۔ زندگی ایک خوبصورت حقیقت ہے۔ انسان ابتدا سے ہی اس امر سے واقف ہے۔ لفظ شاعری شعور سے وابستگی کی خبر دیتا ہے۔ شاعر کا تصور ایک عام انسان کے مقابلے میں زیادہ لطیف ہوتا ہے۔ معاشرے میں جو تبدیلیاں ہوتی ہیں شاعری اس کا اثر قبول کرتی ہے۔ شاعری ہر انقلاب کی پروردہ ہے اور معاشرے میں تشکیل پانے والے ہر نئے نظریے اور تصور کو خوش آمدید کہتی ہے۔ شاعری کی ممتاز صنف غزل کا دامن تو وادیٔ کہسار کی طرح بہت وسیع ہے جس میں ہر موضوع کو پناہ مل ہی جاتی ہے۔
دنیا میں کیسے کیسے انقلاب آئے۔ زندگی نئی راہوں پر گامزن ہوئی۔ حالات نے بھی کروٹ بدلی لیکن ان سب کے باوجود غزل سے لوگوں کی دلچسپی کم نہ ہوئی۔ اس کی مقبولیت کا چراغ مخالف ہوائوں میں بھی پوری آب و تاب کے ساتھ روشن رہا اور زمانے کو توانائی بخشتا رہا۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ غزل نے ایک لمحہ کو بھی زندگی سے تعلق ختم نہ کیا وہ ہمیشہ ہی زندگی کی ترجمانی بڑی چابکدستی سے کرتی رہی اور زندگی کے ساتھ قدم بہ قدم چلتی رہی۔
منیر سیفی انتہائی معتبر شاعروں میں ایک ہیں۔ ان کا تعلق جدید اورمابعد جدید رویوں سے ہے۔ ان کی شاعری کے امکانات بھی وسیع ہیں۔ یہ ایک طرح سے محسوسات کی شاعر ی کرتے ہیں جس میں ہماری زندگی کے وہ مسائل سامنے ہوتے ہیں جن سے آج ہم نبرد آزما ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے یہاں زندگی کی ایسی صداقتیں جو قدروں کی شکست و ریخت سے ٹکراتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ان کی غزلیہ شاعری کے چند اشعار ملاحظہ کریں اورمحظوظ ہوں:
اک دن ایسا قہر خدا کا ٹوٹے گا
سارا کس بل شاہ جفا کا ٹوٹے گا
منہ کے بل گر جائیں گے خود ہی اصنام
خواب فلک بوی کی انا کا ٹوٹے گا
٭٭
بات جو آئی نہیں میرے لب اظہار تک
کس طرح آخر وہ پہنچی قصر شہر یار تک
٭٭
خموش رہ کے زمانے کی سختیاں دیکھوں
جو لب لکھیں، زباں قینچی کے درمیاں دیکھوں
لہو کے چھینٹے زمیں تا بہ آسماں دیکھوں
تمام جسم پر زخم ستم عیاں دیکھوں
غزل گفتگو کا ایک بلیغ ذریعہ ہے۔ ہر فنکار و شاعر اپنے دور کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ وہ اپنے مشاہدات کو رقم کر کے عوام الناس کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ منیر سیفی کی شاعری سادہ، سلیس ، رواں اور آسان زبان میں ہوتی ہے۔ ان کی شاعری کو عام قاری بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ ان کی غزل گوئی کے تعلق سے ڈاکٹر تاج پیامی لکھتے ہیں:
’’منیر سیفی کا کلام دوسروں سے قطعی مختلف ہے کیونکہ انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو نئے انداز اور نئے اسلوب میں پیش کیا ہے۔ سامنے کی بات کو نئے نئے لہجہ میں پیش کرنا ہی انفرادیت ہے۔ میر تقی میرؔ اور ناصر کاظمی کو پڑھنا چاہتے ہیں تو اس عہد میں منیرؔ سیفی کو پڑھئے۔ وہی دروں بینی اور خارجی حالات کا بیان ملے گا۔ سہل ممتنع کی مگر معنی کی گہرائی ، منیر سیفی کی غزلوں کے سارے اشعار منتخب ہوتے ہیں۔ ہر شعر معنی کے لحاظ سے مکمل اور بامعنی ہوتاہے۔‘‘(جھیل ، آکاش ، پرندہ، ص: 12)
منیرؔ سیفی کی غزلوں میں خود اعتمادی کا سبق ملتا ہے۔ موصوف اپنے معاشرے پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں سماج میں موجود ظلم، زیادتی، غربت، استحصال کی سچی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کی شاعری فنی اور فکری دونوں اعتبار سے قابل قدر ہے۔ ان کی یہی خصوصیت انہیں اپنے ہم عصر شعراء میں منفرد و ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔ چند اشعارملاحظہ کریں:
لوٹ، غارت، گری ، دھوکا ہے کیا
یہ ترے شہر میں ہوتا ہے کیا
غم کے ماروں کو جو دیکھا تو لگا
سب سے میرا ہی غم چھوٹا ہے کیا
٭٭
مکان زندگی کی ہر طرف اڑتی ہے چنگاری
بھری برسات میں دیوار و بام و در سلگتے ہیں
٭٭
سنتا رہے گا سارا زمانہ تمام عمر
جو ختم نہ کبھی ہومیں وہ داستاں ہوا
کرنے لگی زمیں بھی ساز نئی نئی
دشمن منیرؔ جب سے مرا آسماں ہوا
منیر سیفی کے غزلیہ اشعار پڑھ کر دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگتی ہیں ۔ ان کی شخصیت اور شاعری میں ایک خاص قسم کی کشش ہے۔ ان کی شاعری اور شخصیت کا مطالعہ کرنے سے یہ انداز ہوتا ہے کہ وہ اپنی شاعری کے ذریعہ عوام کو کوئی نہ کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے زندگی کے معنی اور اس کی گہرائی کو بہت سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ مختلف استعارات اور علامات کے ذریعہ اپنے دلی احساسات وکیفیات کو نہایت کامیابی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ اس نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
تیرگی خوش حال ہوتی جارہی ہے
روشنی کنگال ہوتی جا رہی ہے
٭٭
بھولا بسرا خواب یاد آتا رہا
دل مجھے، میں دل کو سمجھاتا رہا
٭٭
دل جس طرح بھی چاہے جیو اپنی زندگی
دنیا میں روز آنا اور جانا تو ہے نہیں
٭٭
روشنی تج کے سیاہی کی طرف جاتا ہے
جو بھی رستہ ہے تباہی کی طرف جاتا ہے
٭٭
دیکھا تھا خواب میں جو وہی بات ہوگئی
سورج پہ دن دہاڑے گھنی رات ہوگئی
اب منیر سیفی صاحب کی نظموں کے حوالے سے کچھ تحریر رقم کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ ان کی نظمیہ شاعر ی بھی بہت معیاری ہے۔ اپنی نظموں کے ذریعہ بھی وہ قارئین خاص طور سے نئی نسل کو پیغام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی ایک نظم ’’گھر کی تلاش ‘‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس نظم میں موصوف نے بتانے کی کوشش کی یہ انسان ہر حال میں سرگرداں و پریشاں نظر آتا ہے۔ سکون کی جگہ گھر میں موجود ہونے کے بعد بھی انسان زیادہ سکون کی تلاش میں ہے۔ ان کی ا س نظم سے چند سطریں ملاحظہ کریںـ
روز و شب اپنے ہی گھر میں
ڈھونڈتا رہتا ہوں گھر اپنا
لکھنے کی وہ میز اور کرسی
صوفہ سیٹ اور ڈائننگ ٹیبل
میں نے جہاں ایڈجسٹ کئے تھے
وہاں نہیں میں
وارڈ روب میں میرے
اب کپڑے ہیں کسی کے
میری کتابوں کی الماری
دگر ضرورت کی اشیا سے بھری پڑی ہے۔
COVID-19کے عنوان سے منیر سیفی نے ایک نظم اس وقت کہی جب ساری دنیا اس وبا کی چپیٹ میں تھی۔ لوگ کافی خوف زدہ تھے۔ سارے دھرم کے لوگ ا س بیماری سے نجات کی دعا کر رہے تھے ۔ شاعر کے حساس ذہن نے ان لمحات کو اپنے نظمیہ پیکر میں ڈھالتے ہوئے کہا:
کورونا وائرس
آتنگ کی
سے سے بڑی
کرسی پر قابض ہے
Universeکے
سبھی دھرموں کے گروجن
مل کے
کوئی راستہ ڈھونڈیں
نہیں تو
ایک اک کرکے
وہ سب کو
مار ڈالے گا
2019میں جامعہ اسلامیہ کے کیمپس میں زبردست ہنگامہ ہوا ۔ اس ڈرمائی منظر میں کئی طلبا و طالبات کو شدید چوٹیں آئیں۔ اس حادثہ پر منیر سیفی نے ’’لہو کی داستان‘‘کے عنوان سے ایک نظم تحریر کی۔ اس نظم کی چند سطریں ملاحظہ کریں:
مورخ یہ بھی لکھنا
15.12.2019کو
جامعہ اسلامیہ کے کیمپس میں
بربریت کا ہوا جو ننگا ٹانڈو
نہتے طلبا و طالبات پر عصائے شاہیت سے حملہ کرکے
کتنوں کے سر، ہاتھ ، پائوں توڑ ڈالے
ضرب سے لاٹھی کی اک منہاج طالب علم کی
بینائی رخصت ہوگئی
عائشہ رینا، ایل ایف ثقلین نے
خون کے پیاسے درندوں سے
اک بری طرح سے زخمی چھاتر کی جاں بچائی
ایسے حساس معاملہ میں نجمہ اختر،
جامعہ وی سی کے لکھنے پر بھی اب تک
پانڈوئوں کے تانڈوئوں پر
FIRتک نہ ہوسکا
اس طرح یقینی طور یہ کہاجاسکتا ہے کہ منیر سیفی کی غزلیں اور نظمیں کافی متاثر کرتی ہیں ۔ انہوں نے اپنی غزلیہ اور نظمیہ شاعر میں شاعرانہ معیار کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے اشعار باور کراتے ہیں کہ وہ علم عروض کے ماہر شاعر ہیں۔ منیر سیفی کا کلام دوسروں سے قطعی مختلف ہے کیوں انہوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کو نئے انداز اور نئے اسلوب میں پیش کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔
٭٭٭
Dr. Ahsan Alam
Ahmad Complex, Near Al-Hira Public School
Moh: Raham Khan, Darbhanga – 846004
Mob: 9431414808

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا