‘افسپا پر کانگریس کی زبان ٹکڑے ٹکڑے گینگ کی ’

0
0

یہ واضح نہیں کہ پاکستان میں معاملات کون سنبھالتا ہے :مودی
یواین آئی

نئی دہلی وزیر اعظم نریندر مودی نے کانگریس کے مرکز میں اقتدار میں آنے پر جموں و کشمیر میں سیکورٹی فورسز کے خصوصی اختیارت قانون (افسپا ) کی نظر ثانی پر تنقید کرتے ہوئے اسے ٹکڑے ٹکڑے گینگ کی زبان قرار دیا ہے ۔ مسٹر مودی نے ایک ٹیلی ویژن چینل اے بی پی نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کانگریس کے افسپا قانون کا جائزہ لینے کے سوال کے جواب میں کہا“آپ افسپا قانون ہٹانا چاہتے ہیں، آپ کو کبھی باقاعدہ طور پر جائزہ لینا چاہئے تھا ، صورتحال دیکھنی چاہئے ، لیکن آنکھیں بند رکھنے سے کام نہیں چلے گا ۔ ہاں دنیا میں کوئی یہ نہیں چاہے گا کہ ملک جیل خانہ بنے ، لیکن آپ کوحالات بہتر بنانے چاہئے تھے ، جیسا ہم نے اروناچل پردیش میں کیا، جہاں حالا ت میں بہتری آئی ہے ، جہاں ہم نے اروناچل کو ان حالات سے باہر نکالا، لیکن قانون ختم کر دینا، قانون کو بدل دینا، یہ جو آپ ‘ٹکڑے ٹکڑے گینگ’ کی زبان بول رہے ہو، تو یہ ملک کیسے چلے گا۔ مسٹر مودی نے علیحدگی پسند وں کی زبان کو پاکستان حمایت یافتہ زبان قرار دیتے ہوئے کہا کہ “سوال یہ ہے کہ ہم ایسا ہندوستان چاہتے ہیں ، جس میں افسپا ہو ہی نہیں لیکن پہلے وہ حالا ت تو بہتر بنائیں ، اس صورتحال پر آج پاکستان جس طرح سے واقعات انجام دے رہا ہے ، جو علیحدگی پسند لوگ زبان استعمال کرتے ہیں ، علیحدگی پسند لوگ جو ہماری فوج کے لئے زبان استعمال کرتے ہیں ، جو پاکستان حمایت یافتہ زبان ہے ،اس زبان کی منشور میں بو آتی ہے ، وہ ملک کے سکیورٹی فورسز کے جوانوں کی آپ کتنی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں ، آپ ملک کا کتنا نقصان کر رہے ہیں ۔ مسٹر مودی نے افسپا سے متعلق الترامات میں ترمیم کرنے کی ضرورت پر سنجیدہ غور و خوض کے درمیان کہا کہ وہ ایک ایسا ملک چاہتے ہیں جہاں افسپا کی کوئی ضرورت نہ ہو لیکن اس کے لئے مثالی حالات کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہاکہ “ہم ایسا ہندوستان چاہتے ہیں جس میں افسپا ھون¸ ہی نہیں چاہئے ”۔ وزیر اعظم نے کہاکہ “قانون کے ساتھ کھلواڑ یا قانون میں تبدیلی کرنے کی کانگریس کی کوشش قابل قبول نہیں ہے ۔ انہوں نے اس ضمن میں کہا کہ کانگریس کا منشور اصل میں پاکستان اسپانسر طاقتوں کی ‘زبان’ بولتا ہے جو باعث تشویش بات ہے ۔ مسٹر مودی نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ اتحاد کے فیصلے کو مناسب قرار دیتے ہوئے کہاکہ “یہ سچ ہے کہ یہ دو مخالف پارٹیوں کا ایک ساتھ آنے کا معاملہ تھا … لیکن یہ ضروری تھا کیونکہ ریاست میں حکومت بنانے کا کوئی اور راستہ نہیں تھا”۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد مفتی محمد سعید کے دور میں کیا تھا جو ایک ‘پختہ’ لیڈر تھے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد اس وقت ناکام ہوا جب بی جے پی نے سخت رخ اختیارکیا کہ ریاست میں مقامی بلدیاتی انتخابات ہونے چاہیے ، جس کا اس وقت کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے مخالفت کی تھی۔مودی نے جمعہ کے روز اس بات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ ہندوستان کے لئے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور ان سے پہلے کے وزیراعظم نواز شریف میں سے کون بہتر اور سہل ہے ۔ مسٹر مودی نے کہا کہ یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ پاکستان میں حقیقت میں معاملات کون سنبھالتا ہے ، ایک منتخب حکومت یا کوئی اور۔ انہوں نے ٹی وی نیوز چینل اے بی پی نیوز کے ساتھ انٹرویو کے دوران پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیراعظم نواز شریف سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ اس کا فیصلہ پاکستان کے لوگوں کو کرنے دیں۔ میرا کام ہندوستان کے مفادات پر توجہ مرکوز کرنا ہے ۔ پاکستان کی انتظامیہ کو چلانے میں میری کوئی ذمہ داری نہیں ہے ”۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا کرکٹر سے لیڈر بنے مسٹر خان، نواز شریف سے زیادہ ہوشیار ہیں، وزیر اعظم نے کہا کہ “وہ (عمران خان) کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں کرتے ، ان سب باتوں کو پاکستان کے لوگوں پر چھوڑ دیں”۔ مسٹر مودی نے کہاکہ “میں نے دنیا کے کئی لیڈروں سے بات کی ہے اور انہوں نے کیا کہا اور مجھے کیا محسوس ہوا، دنیا کے لئے یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ پاکستان کے معاملات کو کون سنبھالتا ہے ۔ پاکستان کی منتخب حکومت یا فوج یا آئی ایس آئی یا پھر پاکستان سے بھاگ کر مغربی ممالک میں آباد ہونے والے کچھ لوگ”۔ یہ پوچھے جانے پر کہ پاکستان کے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کیا کرنا چاہئے ، انہوں نے کہاکہ “یہ بہت آسان ہے اور بہت سہل ہے ، پاکستان کو سب سے پہلے دہشت گردی کی برآمد بند کر دینی چاہئے ”۔ مسٹر مودی نے چین کے ساتھ تعلقات سے متعلق کہا کہ “اس بات میں سچائی ہے کہ کچھ مسائل پر چین اور ہندوستان کے درمیان ‘اختلافات’ ہیں لیکن ہم نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ ہم اختلافات کو تکرار میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ”۔ وزیر اعظم نے 26 فروری کی ہندوستانی فضائیہ کی کارروائی کے سلسلے میں ہندوستان کی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مانگے ثبوت سے متعلق کہا کہ “سب سے بڑا ثبوت پاکستان کی جانب سے ہی آیا۔ ہم نے کچھ بھی دعوی نہیں کیا تھا۔ ہم نے اپنا کام کیا اور خاموش رہے لیکن پاکستان نے ہی سب سے پہلے سامنے آکر کہا کہ ایسا ہوا ہے ”۔ انہوں نے کہاکہ “وہ لوگ جو مسلسل اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ کارروائی میں کتنے (دہشت گرد) مرے یا نہیں مرے ، انہیں ایسا کرنے دیں۔ اگر ہم نے وہاں شہریوں پر حملہ کیا ہوتا تو پاکستان نے شور مچایا ہوتا اوروہ ہندوستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا۔ یہ ہماری حکمت عملی تھی کہ شہریوں کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچے ۔ فضائیہ نے اپنا کام کیا ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے لئے ہندوستان کی اس کارروائی ہضم کرنا مشکل ہو رہا تھا کیونکہ ایسا کرنے پر اسے یہ بھی تسلیم کرنا ہوتا کہ ان مقامابت پر ‘دہشت گردی سے متعلق’ سرگرمیاں جاری تھیں۔ انہوں نے کہاکہ “ ہندوستان میں کچھ لوگ ایسی زبان میں بات کر رہے ہیں جو پاکستان کو خوش کر سکتی ہے ۔ یہ واقعی تشویش کی بات ہے ”۔ مسٹر مودی نے کانگریس صدر راہل گاندھی کے دو پارلیمانی حلقوں سے انتخاب لڑنے کے بارے میں کہاکہ “یہ ان کی پارٹی کا فیصلہ ہے … لیکن یہاں پر توجہ دینے والی اہم بات یہ ہے کہ امیٹھی سے امیدوار ہونے کے باوجود انہیں وایناڈ جانا پڑا”۔ انہوں نے کہاکہ “ہم نے اس پر بحث شروع نہیں کی ہے ، یہ میڈیا نے شروع کی ہے ۔ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ امیٹھی میں انہیں سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑے لہذا انہیں وہاں جانا پڑا”۔ وزیر اعظم نے مسٹر گاندھی کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی دو سیٹوں سے لڑنے کے حق پر سوال نہیں اٹھا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ “ بحث کا اصل موضوع یہ ہے کہ امیٹھی سے ان کو بھاگنا کیوں پڑا، سیاسی نقطہ نظر سے اس بات پر بحث کرنا بی جے پی کے دائرہ اختیار میں ہے ”۔مودی نے ‘کانگریس صدر راہل گاندھی اور ان کی بہن پرینکا گاندھی واڈرا میں کون بہتر’ کے سوال کو کانگریس کا داخلہ معاملہ بتاتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ کرنے کا ان کا حق نہیں ہے ۔ ٹیلی ویژن چینل اے بی پی نیوز پر جمعہ کو مسٹر مودی کے نشر ہوئے انٹرویو میں ‘گاندھی بھائی بہنوں میں سے بہتر لیڈر کون ہے ’ سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہاکہ “کون اچھا یا کون برا، میں ذاتی طور پر کسی سے واقف نہیں ہوں، نہ کبھی بیٹھ کر کسی موضوع پر ہمیں بحث کا موقع ملا ہے اور اس لئے اس کا فیصلہ کرنے کا میرا حق نہیں بنتا ۔ یہ کانگریس پارٹی کا داخلی معاملہ ، اسے جو اچھا لگے اسے لیڈر بنائے ”۔ محترمہ واڈرا کے وارانسی سے مسٹر مودی کے خلاف الیکشن لڑنے کے سوال پر وزیر اعظم نے کہاکہ “مودی الیکشن جیتے یا ہارے ، یہ فیصلہ عوام کا ہے ۔ مودی پہلی بار بنارس سے پرچہ نامزدگی داخل گیا تھا اور بعد میں جس دن انتخابی تشہیر مکمل ہوئی ، اس دن میں نے جلسہ عام کی اجازت مانگی تھی، لیکن وہاں کی حکومت ایسی تھی، وہاں کا ریاستی الیکشن کمیشن ایسا تھا کہ میرے جلسے کرنے پر پابندی لگا دی تھی”۔ گجرات سے باہر بنارس سے الیکشن لڑنے کے لئے منتخب ہونے کے سوال پر مسٹر مودی نے کہا “تنظیم جو طے کرے وہ میں کرتا ہوں، تو اس وقت تنظیم کے لوگوں کو محسوس ہوا کہ مجھے بنارس سے الیکشن لڑنا چاہئے ۔ ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی جی نے وہاں کافی اچھا کام کیا ہے ، جوشی جی کا آشیرواد تھا اور قدرتی بات ہے کہ پارٹی نے طے کیا تھا، سو میں چلا گیا تھا”۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا