آخروالدین سرکاری اسکولوں کی بجائے نجی اسکولوں کو ترجیح کیوں دیتے ہیں؟

0
0
سیدہ رخسار کاظمی
پونچھ، جموں
تعلیم ہر فرد کا بنیادی حق ہے۔ یہ انسان کی زیست کی وہ واحد کنجی ہے جس کے ذریعے وہ اپنا بہتر سے بہترین مستقبل ڈھونڈنے میں کامیاب رہتا ہے۔علم حاصل کرنا ہر مرد و زن کا بنیادی حق ہے۔ جس ملک کا ہر فرد تعلیم یافتہ ہو اس ملک کو حقیقی ترقی حاصل کرنے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی ہے۔اسی فارمولے کو اپناتے ہوئے حکومت ہند نے ملک بھر میں سرکاری اسکول قائم کیے ہیں جو ہندوستان کے ہر ضلع اور گاؤں میں مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں۔جن کا اہم مقصد یہ ہے کہ ان بچوں کو بھی تعلیم حاصل کروائی جائے جن کے والدین مالی طور پر کمزور ہیں۔ گویا کوئی بھی بچہ تعلیم حاصل کرنے سے پیچھے نہ رہ جائے۔ ہندوستان میں کل 14,89,115 اسکول ہیں جن میں نجی اور سرکاری اسکول شامل ہیں۔بات اگر ریاستِ جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ کی کی جائے تو یہاں پر تقریباً 1682 اسکول ہیں، جن میں 1476 سرکاری اور 206 نجی اسکول ہیں۔اتنی تعداد میں سرکاری اسکول ہونے کے باوجود والدین اپنے بچوں کا داخلہ نجی اسکولوں میں کروا رہے ہیں۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں کے بجائے پرائیویٹ ا سکولوں میں پڑھانے کو ترجیح دیتے ہیں؟اگر رسمی طور پر سرکاری اور نجی سکولوں کا مقابلہ کیا جائے تو بعض نجی اسکولوں کا تعلیمی معیار عموماً بہتر نکلتا ہے۔ یہ اسکول عموماً زیادہ مکمل اور جدیدتعلیمی سہولیات فراہم کرتے ہیں جو طلبہ کے لیے بہتر طریقے سے علم حاصل کرنے میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ نجی سکولوں میں انگریزی زبان کی تعلیم پر توجہ زیادہ دی جاتی ہے جبکہ سرکاری اسکولوں میں عموماً مادری زبان یا مقامی زبانوں پر توجہ رہتی ہے۔
ایسے میں والدین انگریزی زبان کو عملی زندگی میں فائدہ دیکھتے ہوئے اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں داخل کروانے کی ترجیح دیتے ہیں۔ان سکولوں میں عموماً معلمان کا انتخاب اور تعلیمی تربیت پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ یہ سکول معلمان کو بہتریں تربیت دینے اور تجربہ کاری کا موقع فراہم کرتے ہیں،نجی اداروں میں کم طالبات ہوتے ہیں جسکی کی وجہ سے استاد اُنھیں بہت اچھے سے سمجھا سکتا ہے اور ایک ایک بچے پر تدبر کر سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کم بچے ہونے پر کلاس وقت پر آسانی سے مکمل ہو جاتی ہے۔دوسری طرف حکومتی اداروں کو دیکھا جائے تو وہاں ایسی سہولیات نہیں پائی جاتی ہے۔یہی سب سے بڑای وجہ ہے کہ حکومتی اداروں کے طلبہ کسی حد تک پرائیویٹ اسکول کے بچوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔اکثر سرکاری اسکولوں کے طلبہ کی شکایت رہتی ہے کہ انہیں اسکول میں مکمل سہولیات مہیا نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی وقت پر کلاسز ہو پاتی ہیں جبکہ بہت بار اساتذہ بھی غیر حاضر رہتے ہیں۔ اسی ضمن ایک طالب علم اظہر کا کہنا ہے کہ وہ گورمنٹ ہائی اسکول بانڈی چچیاں میں نوی جماعت کا طالب علم ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کے والد نے اسے آٹھویں تک کی تعلیم پرائیویٹ اسکول سے کرائی تھی۔مالی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے آگے کی تعلیم کے لیے سرکاری اسکول میں داخلہ کروادیا ہے۔لیکن اظہر کا کہنا ہے کہ اسکے اسکول میں پوری کلاسز نہیں لگتی اور نووی جماعت کا نصاب بھی بہت مشکل ہے۔ایسے میں اسے بہت پریشانیوں سے گزرنا پڑ رہا ہے۔اظہر کا کہنا ہے کہ جس پرائیویٹ اسکول میں وہ تعلیم حاصل کر رہا تھا وہ بھی بانڈی چیچیاں میں ہی موجود ہے اور اسکا بنیادی ڈھانچہ بہت کمزور ہے۔وہاں ہم زمین پر بیٹھتے تھے لیکن استاد مکمل کلاسز لیتے تھے۔دوسری جانب اس سرکاری اسکول میں ڈیسک تو ہیں مگر کلاسز مکمل نہیں ہوتی ہیں۔ ایسے میں اسے خود سے پڑھائی کرنی پڑتی ہے جو اسکے لئے مشکل ثابت ہو رہا ہے۔
اسی حوالے سے ایک طالبہ گلنازکہتی ہے کہ میں دسویں جماعت کی طالب علم ہوں، چونکہ میرے گھر والے مالی طور پر کمزور ہیں اسی باعث میں بچپن سے ہی سرکاری ا سکول میں پڑھ رہی ہوں۔ اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے وہ بتاتی ہے کہ انکے اسکول میں پوری کلاسز نہیں لگتی اوراگر کوئی لگتی بھی ہیں تو ہمیں گائیڈ سے ہی جوابات یاد کرنے کو کہا جاتا ہے۔ جسکا ہمیں مطلب بھی نہیں معلوم ہوتا ہے۔کوئی کوئی استاد اچھے سے پڑھاتے ہیں۔ گلناز یہ بھی کہتی ہیں کہ وہ دسویں جماعت میں پہونچ چکی ہے اور ابھی بھی اسے انگریزی بولنی نہیں آتی اور نہ انگریزی میں جوابات خود سے بنانے آتے ہیں۔ انکے مقابلے پرائیویٹ اسکول میں پڑھنے والی اسکی پڑوسن سلمہ خود سے انگریزی میں بات کر لیتی ہے اور انگری سمجھ بھی سکتی ہے۔ جسکی وجہ سے گلناز کو بہت شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔وہ کہتی ہے کہ اگر میرے والد مالی طور پر ٹھیک ہوتے تو شاید وہ بھی پرائیویٹ اسکول میں پڑھ سکتی تھی۔اس کا ماننا ہے کہ سرکاری سکولوں میں تعلیم مکمل ہونی چائیے، ہر مضمون کی اچھے سے کلاسز ہونی چائیے، ہر مضمون کو تفصیل سے پڑھانا چائیے اوربچوں کو انگریزی بولنے بھی سکھائی جانی چاہئے۔ ایسی ہی کئی کہانیاں سرکاری اسکولوں میں ہیں جہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو نہ ہی اُنھیں اچھے سے پڑھایا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں انگریزی سکھائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ انہیں کمپیوٹر کی تعلیم تک نہیں دی جاتی ہے جوکہ موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ نجی اسکولوں کے بچے سرکاری اسکولوں کے بچوں کے مقابلے بہت آگے نظر آتے ہیں۔ اسی حوالے سے ایک اورطالب علم شہزادکا کہنا تھا کہ سرکاری سکولوں میں بچوں کو تعلیم اچھے سے نہیں دی جاتی اور نہ ہی انہیں امتحان کی اچھے سے تیاری کروائی جا تی ہے۔جس کی وجہ سے سرکاری سکولوں میں بچے اپنے امتحان کے دوران نقل کا سہارا لیتے ہیں، اور اسکی بدولت اپنی جماعت پاس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہیں اپنے مضمون کا کوئی علم نہیں ہوتا اور وہ پڑھ کر بھی نوکری حاصل نہیں کر سکتے۔شہزاد نے کہا کہ اُنہوں نے اپنی دسویں سرکاری اسکول سے کی ہے اور اُنہو نے بہت سے بچوں کو نقل کا سہارا لیتے دیکھا ہے۔ شہزاد اسکے لیے بھی اسکول کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ کالج جانے کے بعد انہیں بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، جب وہ پہلے ہی سمسٹر میں ناکام ہوگئے کیوں کے اُنھیں انگریزی میں خود سے لکھنا نہیں آتا تھا۔ کالج کی کتابیں بہت مشکل تھی جس وجہ سے اچھے سے پڑھ نہیں پاتے تھے اور اسکا یہی کارن ہے کہ سکولی تعلیم مکمل طور پر پوری نہیں ہوئی تھی۔
سرکاری اسکولوں میں اچھی تعلیمی سہولیات موجود ہونی چاہیے۔جو مکمل نصاب کی پیشکش کرتی ہوں۔ اسکولوں میں خوبصورت کلاس رومز، لیبوریٹریز، کمپیوٹر لیب، اور دیگر ضروری آلات ہونے چاہیے۔اسکے ساتھ ماہر اور تجربہ کار اساتذہ ہونے چائیے۔جو بچوں کو درست ہدایت، دلچسپی پیدا کرنے، تشویق کرنے اور اخلاقیات کے منصوبے تیار کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔سرکاری اسکولوں میں مکمل صحتی، کھیل، اور فنون کے پروگرامز شامل ہونے چاہیے تاکہ بچوں کو اپنی ترقی کے مختلف پہلوؤں پر محنت کرنے کا موقع ملے اور سب سے ضروری بات سرکاری اسکول بھی انگریزی میڈیم میں پڑھائی ہونی چائیے۔ اگر یہ سب مکمل طور سے سرکاری اسکول میں موجود ہو تو ہندوستان کا ہر بچہ اپنے مستقبل میں ڈاکٹر، انجینئر، سائنٹست اور جو چاہے بن سکتا ہے۔(چرخہ فیچرس)

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا