والا جاہ حضرت سید شاہ خسرو حسینی قبلہ کے نائب صدر، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ منتخب ہونے کے پر مسرت موقع پر ایک ناتمام تحریر

0
0


حضرت ڈاکٹر سید شاہ گیسودراز خسرو حسینی
ادا دلفریب، نگہ دلنواز
ڈاکٹر انیس صدیقی

گلبرگہ کو جہاں ایک صدی تک علم پرور سلاطین بہمنیہ کے دارالسلطنت ہونے کا افتخار حاصل ہے، وہیں حضرت سیدخواجہ بندہ نوازؒ کی آخری آرام گا ہ نے اسے متبرک، مقدس اورمحترم بستی کا شرف بھی بخشا ہے۔
حضرت ڈاکٹر سید شاہ گیسودراز خسرو حسینی قبلہ سجادہ نشین بارگاہِ حضرت بندہ نواز ؒ، تصوف کی اس مہتمم بالشان روایت کے امانت دار ہیں، جس کے فیوض و برکات نہ صرف برصغیرکی تہذیبی و روحانی تاریخ کا حصہ ہیں، بلکہ جس کے نورِ ہدایت سے کروڑوں دل باطنی سکون کی دولت سے مالا مال ہیں۔
حضرت قبلہ کے والد بزرگوار حضرت سید شاہ محمد محمد الحسینی،نیک،خدا ترس، حسن ِعمل، حسن اخلاق، محبت،ہمدردی و غم گساری، صلح جوئی اور انکسار جیسی درویشانہ صفات کے حامل، ایسے مرشد کامل تھے، جن کے اوصاف و محامد کی داستان طول طویل ہے۔ انھوں نے اپنی بارآور زندگی میں حیات ہائے انسانی کے مختلف دائروں میں جو مثبت، رخشندہ و پائندہ کارنامے انجام دیے ہیں، ان کی تفصیل دفتروں کی متقاضی ہے۔
اسی مذہبی و علمی ماحول میں حضرت سید شاہ گیسودراز خسرو حسینی صاحب قبلہ کی ولادت با سعادت 10/ستمبر1945کو حیدرآباد میں ہوئی۔اپنے والد محترم کی سرپرستی میں گرایجویشن تک کی تعلیم حیدرآباد کے مختلف تعلیمی اداروں میں حاصل کی، پھر میک گل یونیورسٹی سے اسلامی مطالعات اور تصوف کے اختصاص کے ساتھ ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ تصوف کے باب میں ان کی گراں بہا تحقیقی کاوشوں کے اعتراف میں امریکہ کی بیل فورڈ یونیورسٹی نے اولاًپی ایچ ڈی اور ثانیاً ڈی لٹ کی اعلیٰ ترین ڈگریوں سے انھیں سرفراز کیا۔ 30/مارچ2007کو حضرت سید شاہ محمد محمد الحسینی قبلہ کے وصال باکمال کے بعد حضرت گیسودراز خسرو حسینی کو خلف اکبر کی حیثیت سے اپنے والد کے جانشین ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
علم و فضل، عجز و انکساری، نیک نفسی و بردباری جیسی اعلیٰ انسانی صفات سے متصف حضرت خسرو حسینی صاحب قبلہ کو وسیع المشربی، انسان دوستی اور رواداری کے جوہر ورثہ میں ملے ہی ہیں، ساتھ ہی ساتھ، سجادگی کے اعلیٰ منصب نے ان میں خدا ترسی، احساس ذمہ داری اور بے لوث جذبہ خدمت ِخلق پیدا کیا۔اس کا ثبوت حضرت ممدوح کے موج در موج اور میدان در میدان وہ کارنامے ہیں، جن کا تعلق خواہ کسی بھی سمت، موضوع اور زاویہ سے کیوں نہ ہو اولیت و اہمیت کے حامل قرار دیے جاسکتے ہیں۔
ممتاز مفکر افلاطون نے ایک جگہ انسانی شخصیت کی توضیح کرتے ہوئے اس میں تین عناصر کی نشاندہی کی ہے۔خواہش، جذبہ اور علم۔افلاطون نے خواہش کے مفہوم کو جبلت سے تعبیر کیا ہے اور اس کا مسکن انسانی دل بتایا ہے۔ جبکہ علم،خواہش کی آنکھ اور روح کا ناخدا ہے۔ اس کا مسکن دماغ ہے۔ ایسے لوگ جن کے ہاں جبلت غالب ہوتی ہے، وہ مادی فائدے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیتے ہیں۔ایسے لوگ جن کے ہاں جذبہ حاوی ہوتا ہے، وہ قوت کے شیدائی ہوتے ہیں۔ ان کی تگ و دو دولت کے حصول کے لیے نہیں ہوتی بلکہ فتح مندی کی کیفیت سے سرشاری کے لیے ہوتی ہے۔ ان کے مقابلے میں بعض شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں، جن کا مقصد ِحیات ‘سچائی’ کی تلاش ہوتا ہے۔یہ لوگ علم کے پھل کی لذتوں سے نہ صرف آشنا ہوتے ہیں، بلکہ خلق خدا کو بھی اس کی مسرتوں اور کیفیتوں میں حصہ در بننے کی ترغیب دیتے ہیں۔ مکمل شخصیت وہ ہے، جس پر ان میں سے کسی ایک کا غلبہ نہ ہو، بلکہ جو خواہش اور جذبے کی حدت سے آشنا تو ہو مگر سدا علم کو اپنا رہبر بنائے رکھے۔
حضرت ممدوح ایسی ہی ایک مکمل شخصیت کے مالک ہیں، جن کی ذات بابرکات میں خواہش،جذبہ اور علم کا نہایت معتدل اور متوازن امتزاج ملتا ہے۔
حضرت ممدوح کی شخصیت کی تشکیل اور ان کے مزاج کی ترتیب و ترکیب میں جہاں خاندان کے نہایت علمی مذہبی اور متصوفیانہ ماحول نے اپنا کردار خاموشی سے ادا کیا ہے، وہیں جدید اقدارِ حیات اور نئے زمانے کے علم و ادب کی تحصیل نے ان کے ذہن کے دریچوں کو ہمہ وقت کھلا رکھنے میں معاونت کی ہے۔ اسی باعث وہ مشرق و مغرب کے تضادات کی بحث میں کبھی اُلجھے اور نہ ہی اپنے ذہنی اور جذباتی رابطوں کو محدود کیا۔مغربی علوم و افکار سے مسلسل استفادہ کرتے رہنے کے باوصف حضرت ممدوح کا مشرقیت کا تصور کبھی منتشر نہیں ہوا۔ نتیجتاً ان کی زندگی، وضع قطع اور اندازِ گفتگو میں مشرقی تہذیب کی وحدت ایک خاص انداز میں نظر آتی ہے۔
سرخ و سپید رنگت، کتابی متبسم چہرہ، سلیقے سے تراشی ہوئی ہلکی ہلکی موئے ریش،ستواں ناک اور اس پر لگی عینک کے شیشوں کے پیچھے سے دانشوارانہ چمک لیے جھانکتی آنکھیں،سر پر ہمیشہ کبھی کالی کبھی سفید ٹوپی، سفیدکرتا پاجامہ،کبھی ہلکے رنگ کی شیروانی زیب تن اور خاص موقعوں پر لباس خواجگی میں حضرت ممدوح مشرقی تہذیب اور شائستگی کا سانس لیتا پیکر نظر آتے ہیں۔
عجز و انکسار حضرت قبلہ کی شخصیت کا جوہر خاص اور نیک نفسی ان کی پہچان ہے۔ ان کی شخصیت کا ایک خاص وصف لہجے کی انتہائی نرمی اور دھیما پن ہے۔جس سے وہ بات کرتے ہیں، ہمہ تن متوجہ ہو کر بات کرتے ہیں۔اور جو کوئی ان سے بات کرتا ہے، اس کی بات کمال یکسوئی سے سنتے ہیں۔ عموماً کم سخن ہیں، لیکن جب کبھی ایک آدھ فقرہ اپنی زبان سے دوران گفتگو ادا کرتے ہیں، تو وہ دوسروں کی طویل تقریروں پر بھاری ہوتا ہے۔ان کی گفتگو اور تقاریر میں جو شئے مابہ الامتیاز ہوتی ہے وہ تدبر،بھاری بھر کم، رعب دار انداز اور نرم گفتاری ہے۔ حضرت ممدوح کی ذات غیر معمولی علمیت اور حیرت افزا ذہانت کی حامل ہے۔ ذہن مدلل، با ضابطہ اور سلجھا ہوا ہے۔شخصیت کا ایک بہت دلکش پہلو بذلہ سنجی اور تہذیب یافتہ لطیف حسِ مزاج بھی ہے۔ نجی محفلوں اور کبھی کبھار تقاریر میں موقع و ماحول کی اعتبار سے نہایت معصومیت اور برجستگی سے ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ سننے والوں میں فرحت و انبساط کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔ اس کی مثال خواجہ ایجوکیشن سوسائٹی کی گولڈن جوبلی تقاریب کے سلسلے میں منعقدہ کل ہند مشاعرے کا افتتاح فرماتے ہوئے ان کا وہ خطاب ہے، جس میں انھوں نے فن شعر اور مشاعروں کی اہمیت و افادیت پر پُر مغز اظہار خیال کرتے ہوئے آخر میں جب یہ شعر پڑھا تو محفل زعفران زار بن گئی تھی۔
مدت سے میرا چاند دکھائی نہیں دیا
اے رویت ہلال کمیٹی کہاں ہے تو
حضرت ممدوح کی شوخی طبع کا ثبوت یہ بھی ہے کہ دورانِ طالب علمی جب شاعری سے دل چسپی پیدا ہوئی تو انھوں نے پچکڑ حیدرآبادی تخلص اختیار کیا اور مزاحیہ شعر لکھے۔دکنی لب و لہجے میں آپ کا کہا ایک شعر بہ طور مثال پیش ہے؛
میں بھُکا تو جاروں انو جو بلائے
مگر ڈر ہے کہ ڈنر ہے کی نئیں کی
شعر گوئی کی صلاحیتیں حضرت ممدوح کو ان کے دادا حضرت خیر بندہ نوازی ؒ سے وراثت میں ملی ہیں۔چنانچہ انھوں نے مشق سخن کے سلسلے کو جاری رکھا۔ ابتداًغزل میں طبع آزمائی کی، لیکن ایک آدھ غزل ہی مکمل ہوپائی۔چونکہ ان کا طبعی میلان نعت گوئی سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔اس لیے نعت گوئی سے انھیں یک گونہ تسکین حاصل ہوتی ہے۔ان کی نعتوں کا نہ صرف ایک مجموعہ ‘رفعنا لک ذکرک’ شائع ہوا ہے، بلکہ کچھ قوالوں کی گائی ہوئی ان کی نعتوں کے کیسٹس اور سی ڈیز بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ شاعری کے علاوہ دیگر فنون لطیفہ میں صوفیانہ موسیقی کے ساتھ ساتھ اسلامی فن تعمیر اور اس سے متعلق مصوری اور فوٹو گرافی سے بھی انھیں خاص شغف ہے۔
حضرت قبلہ کی شخصیت اس قدر پہلودار، دل کش، دلنواز، گہری اور شفاف ہے اور ان کے علمی، ادبی،مذہبی،تعلیمی اور سماجی کارنامے اتنے ہمہ گیر،متنوع اور شاندار ہیں کہ ان پر اظہار خیال کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔لیکن یہاں اس بات کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ حضرت قبلہ کی مختلف النوع کاوشوں میں گہرے تسلسل کے نقوش نمایاں نظر آتے ہیں۔
حضرت ممدوح نے اپنے والد بزرگوار کے وصال کے بعد جنوبی ہندوستان کی نمائندہ اور باوقار تعلیمی سوسائٹی خواجہ ایجوکیشن سوسائٹی کے صدر نشین کی حیثیت سے سوسائٹی ہذا کے زیر اہتمام چلائے جانے والے تمام تعلیمی اداروں کے نظم و نسق کو چست و درست بنانے کی جی جان سیکوششیں کیں۔فروغ علم کے باب میں حضرت قبلہ کا عظیم الشان کارنامہ خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی کا قیام ہے۔
علاوہ ازیں ریاستی وقف بورڈ، انتظامی کمیٹی جامعہ نظامیہ حیدرآباد، نصرایجوکیشن سوسائٹی حیدرآباد، انڈیا انٹرنیشنل سنٹر دہلی، جمعیۃ العلما دکن، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نئی دہلی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی،انٹرنیشل اسلامک ریلیف آرگنائزیشن جدہ کے علاوہ آل انڈیا صوفی کانفرنس حیدرآباد جیسے اہم تعلیمی،مذہبی،تہذیبی اور رفاہی اداروں میں مختلف مناصب پر فائز رہ کرقوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے مثبت اور ہمیشہ یاد رکھے جانے والے متعدد کارنامے انجام دیے ہیں۔
عہد حاضر میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت و افادیت کے معترف حضرت خسرو حسینی قبلہ کی اردو صحافت سے وابستگی دیرینہ ہے۔اسلامی تعلیمات کے ترجمان حیدرآباد کے تحقیقی مجلہ ‘اسلامک کلچر’ کے ڈائریکٹر اور رکن مجلس ادارت کی حیثیت سے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ درگاہ حضرت بندہ نواز ؒ کے زیر اہتمام 1965 میں جاری علمی و مذہبی رسالہ ‘شہباز’ آپ کی ادارت میں شائع ہو رہا ہے۔ صحافت سے ان کے غیر معمولی لگاو کا مظہراعلیٰ صحافتی اقدار کا پاس دار روز نامہ کے بی این ٹائمز’ ہے، جو کم و بیش ایک دہے سے ان کی سر پرستی میں جاری ہے۔
علاوہ ازیں مقبول عام ٹی وی چینل’ زی سلام’ پر’بزم صوفیا’ کے زیر عنوان تصوف کی توضیح و تشریح، اس کے مختلف پہلو، اس کے مسائل اور ممتاز صوفیا کرام کی حیات و تعلیمات پر مبنی پروگرام بھی پیش کیے ہیں۔ صوفی ازم کے ماہر حضرت قبلہ تصوف کو ایک ایسی ہمہ گیر فکر سے تعبیر کرتے ہیں، جو خدا کو وسیع تر معنی کی آغوش میں دیکھ کر، اس حسن اور ہم آہنگی کی متلاشی رہتی ہے، جس میں صرف جذبہ خیر ہی سے حقیقت کل کی تمجید ہو سکتی ہے۔
حضرت خواجہ دکن سیدنا بندہ نواز گیسو دراز کے 23 ویں سجادہ نشین، حضرت ڈاکٹر سید شاہ گیسو دراز خسرو حسینی قبلہ نے حقیقتاً بندہ نوازی مشن کا احیا، ان معنوں میں کیا ہے کہ روایتاً 105 کتابوں کے مصنف و مولف حضرت بندہ نواز ؒکے بعد حضرت قبلہ ہی نے تصنیف وتالیف کے سلسلے کو جاری رکھا ہے۔ سلسلہ بندہ نواز میں حضرت بندہ نواز کے بعد اور حضرت خسرو حسینی سے قبل تصنیف و تالیف کی روایت کے شواہد عدم دستیاب ہیں۔ حیات و تعلیمات بندہ نوازؒپر حضرت قبلہ کی دو گراں ما یہ کتابیں منظر عام پر آکر دادِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ ان کے علاوہ انھوں نے صوفی ازم، تفسیرقران، تاریخ اسلام، اسلامی فن تعمیر جیسے ادق موضوعات پر نہایت عرق ریزی کے ساتھ پچاس سے زائد تحقیقی مقالات بھی قلم بند کیے ہیں،جن کی اشاعت ملک و بیرون ملک کے ممتاز و موقر رسائل و جرائد میں عمل میں آچکی ہے۔
علم، عقل، عشق اورعمل،کامیابی اور فتح مندی کے خاص ہتھیار ہیں، جن کے مثبت استعمال سے محترم بخوبی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر میدان میں انھوں نے فتح مندی کے جھنڈے گاڑے اور ہر مقام پر کامیابیوں نے ان کے قدم چومے ہیں۔متنوع خدمات کے اعتراف میں بیسیوں سرکاری، غیرسرکاری، علمی، تعلیمی، ادبی و تہذیبی اداروں نے حضرت قبلہ کے خدمت میں اعزازات اور ایوارڈس پیش کیے۔ گلبرگہ یونیورسٹی نے انھیں اعزازی ڈاکٹر یٹ عطا کرتے ہوئے ان کی تعلیمی خدمات کا اعتراف کیا۔ لیکن ان اعزازت کی حضرت قبلہ کی ذات والا صفات کے آگے کوئی وقعت نہیں، البتہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ حضرت قبلہ کی خدمت میں پیش ہونے سے ان اعزازات کی تو قیرمیں ضرور اضافہ ہوا ہے۔
آفتاب نصف النہار کی طرح موجود و مشہود حضرت قبلہ کی شخصیت کے چند نمایاں پہلووں کے مختصر تعارف کے بعد آخر میں اتنا کہنا کافی ہو گا کہ علامہ اقبال نے انقلاب آگیں، انقلاب بیز اور انقلاب ریز صوفی کے لیے جن صفات کو ضروری قرار دیا تھا، حضرت قبلہ کی ذات گرامی ان تمام صفات سے آراستہ و پیراستہ ہے؛
خاکی و نوری نہاد بندہ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
اُس کی اُمیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب، اس کی نگہ دلنواز

٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا