عیادت کو روکا موبائل نے یارو

0
176

٭ آزاد عباس چوگلے
مخلوق کو خالق تک پہنچنے کے لیے حقوق العباد ایک بہترین ذریعہ ہے ۔ اس طرح کے وسائل ہر خاص و عام بخوبی انجام دے سکتا ہے۔ اسی فہرست میں ’عیادت‘ بھی ہے جو ایک عظیم اخلاقی فریضہ ہے ۔ جس کا سیدھا سیدھا تعلق ہمدردی سے ہے ۔ یہ جذبہ ہر کسی میں ہے اگر وہ مریض کے لیے کارآمد نہ ہوتو اللہ کے سبھی خیر سے محروم ہوسکتا ہے ۔
’عیادت‘ یعنی صرف بیمار کی مزاج پرسی ہی نہیں ہے بلکہ اسکے مکمل مفہوم میں غم خواری ، تیمارداری اور خدمت گزاری بھی ہے چونکہ مریض جسمانی و نفسیاتی طور پر کمزور و ناتواں ہوتا ہے اُس وقت اُسے دلاسہ دینے کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور یہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم مریض کی عیادت کے لیے اُس کے گھر یا ہسپتال جائیں۔ یہ ایک لازمی فعل ہے اس لیے شریعت اسلامیہ نے اسے فرض قرار دیا ہے ۔ ہمارے آقا نے ارشاد فرمایا کہ ”جب کوئی مسلمان صبح کو کسی کی عیادت کرتا ہے تو شام تک فرشتے اس کی مغفرت کی دعا مانگتے ہیں اور جب شام کو عیادت کرتا ہے تو صبح تک اس کی مغفرت کی دعا مانگتے ہیں۔“ اتنی خاص اہمیت ہونے کے باوجود چند لواحقین ہی عیادت کو جاتے ہیں بقیہ رشتے دار و احباب مشغولیت کا بہانا بتا کر ٹال جاتے ہیں ۔ اِن کی مشغولیت کی وجہ موبائل پر چاٹینگ اور اسی طرح کے بہت سارے امور ہوتے ہیں۔
ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بہت سارے عملی و اخلاقی حقوق ہےں جس میں سے خاص ہیں سلام کا جواب دینا ، مریض کی عیادت کرنا اور نماز جنازہ پڑھنا اور اس کے ساتھ چلنا ۔ ان تینوں حقوق کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار فضیلتیں و نعمتیں اور ثواب رکھا ہے ۔ عیادت میں جانے سے مریض کافی خوش ہوتا ہے اور آپ کے لیے رب العزت سے دعائیں مانگتا ہے اور اللہ مریض کی دعائیں قبول کرتا ہے ۔ لہٰذا جتنا ممکن ہوسکے مریض کے ساتھ بیٹھنا چاہئے ، اُس کا حال پوچھتے رہنا چاہئے ، اُسے تسلی دیتے رہنا چاہئے ۔ اُتنی دیر کے لیے مریض اپنے مرض سے بعید ہوجاتا ہے اور شفا محسوس کرتا ہے اور اُس کی دعاو¿ں سے آپ کے گناہ و خطا معاف ہوجاتی ہے ۔ عیادت کو نہ جانے سے ہم ثواب حاصل کرنے سے قاصر بھی رہیں گے اور ہمارے اپنے ہم سے شکوہ بھی کریں گے ۔ یہ قطعاً ضروری نہیں ہے کہ ساتھ میں پھل پھول لے کر جائیں اگر مریض کی اقتصادی حالت معقول نہیں ہے تو اُس کی مدد ضرور کرنی چاہئے۔ کبھی کبھی ہم اپنوں کی عیادت کرنے جاتے ہیں مگر پڑوسی چونکہ غریب و غیر مذہب کا ہے تو ملاقات ٹال جاتے ہیں جو سراسر غلط ہے ۔ ایسا کرنے سے ہم دو فرائض ادا کرنے سے رہ جاتے ہیں ایک پڑوسی کا حق اور دوسرا عیادت کی ذمہ داری….
انسان کو انسان سے محبت ، اخوت وعقیدت سے پیش آنے والے اشخاص کو ہر دین و مذہب میں تحسین و تعظیم کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر مذہب اسلام ایسے تسلسل کو یہی موقوف نہیں دیتا بلکہ ایسے اخلاق کو عبادت کا درجہ دیتا ہے اور ثواب سے نوازتا ہے اور اس کی سبھی مشکلیں آسان کردیتا ہے اور ہدایات دیتا ہے ۔ رشتہ اخوت برقرار رکھو ہر وہ شخص اللہ کو زیادہ عزیز ہے جو خدمت خلق کرتا ہے ، مریضوں کی عیادت کرتا ہے اور ہر کسی کے لیے آسانیاں اور سہولیتں میسر کرتا ہو۔
بے شک ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور کنبہ میں کسی کو تنہا چھوڑنا یا بوقت ضرورت کسی کی مدد نہ کرنا یا تسلی بخش کلمات نہ کہنا کنبے کو تہس نہس کرنے کے مصداق ہے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد کو ادا کرنے کی سخت تاکید کی ہے ۔ مریض کو صحت یاب ہونے کے لیے طبی ضروریات سے زیادہ اُسے تیمار داری اور تسلی کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ یقینا سبھی اہل خاندان اپنا پورا وقت عیادت میں نہیں دے سکتے مگر جتنا ایمانداری سے دے سکتے ہیں اتنا دینا چاہئے ۔ ہر دن بیماریاں بڑھتے جا رہی ہیں کچھ تو ایسی خطرناک بیماریاں ہیں جس کا نام سنتے ہی کپکپی ہونے لگتی ہے ۔ اُس کا علاج ایک عام شخص کے لیے لوہے کے چنے چبانے کے مصداق ہے ایسے عام میں بھی وہ ہسپتال میں داخلہ لے ہی لیتا ہے اور اُمید کرتا ہے کہ کچھ اپنے لوگ عیادت کو آئیں گے تو اُن سے مدد طلب کرے گا مگر ستم ظریفی یہ کہ لوگ عیادت کو نیک کام کے بجائے بوجھ سمجھتے ہیں ۔ ایسا محسوس کرتے ہیں کہ یہ وقت کی بربادی ہے ، دردِ سر سمجھتے ہیں اور اگر عیادت کو گئے بھی تو چند ہی منٹوں میں واپس چلے آتے ہیں ۔ اگر عمل کرنے کی نیت سے اور خلوص سے عیادت کریں تو ایسا محسوس ہوگا کہ عیادت کرنے کی ضرورت مریض سے زیادہ عیادت کرنے والے کو ہے کیونکہ اس سے ہماری نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔ صرف جا کر آنے کو عیادت نہیں کہتے بلکہ مریض کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنا ہوگا ، سچے دل سے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اپنے پن کا اور اپنائیت کا اظہار کرنا ہوگا ۔ مریض کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی کے ساتھ ساتھ خیر خیریت کا دلاسا دینا ہوگا۔ اس بات کا بھی دھیان رکھنا ہوگا کہ جب مریض کا آرام کا وقت ہو تب اُس کے آرام میں خلل نہیں ڈالنا ہوگا ۔ اگر ضعیف العمر یا معذور افراد عیادت کو جا نہیں سکتے تو اُن کے لیے قریبی رشتہ داروں سے خیرخیریت جاننا بھی عیادت ہے ۔
آج کے اس مفاد پرستی اور گہما گہمی کے عالم میں غیر ہی نہیں بلکہ اپنوں کے پاس بھی وقت کی قلت ہے ۔ یہ قلت سچ مچ وقت کا تقاضہ ہے ایسا نہیں ہے بلکہ یہ خود ساختہ قلت ہے ۔ پورا پورا دن موبائل میں مشغول رہنے سے باقی سبھی کام کے لیے وقت کی قلت ہوہی جاتی ہے۔ بے شک موبائل کو صحیح اور جائز طریقے سے استعمال کریں تو اس میں بے شمار فائدے ہیں مگر اس کا اگر ناجائز استعمال لیں تو انفرادی اور اجتماعی نقصان ہی نقصان ہے ۔ اسی موبائل کے غلط استعمال سے اپنے فرائض کو ادا کرنے میں کوتاہی ہوتی ہے ۔ کبھی کبھی تو وقت مقررہ میں پہنچ ہی نہیں پاتے۔ آج کل ہر والدین نے اپنے دس بارہ سال کے بچے کو موبائل دے رکھا ہے اور وہ اس خام خیالی میں مست ہیں کہ بچہ اس موبائل کو برابر استعمال کررہا ہے ۔ کبھی یہ بھی چیک نہیں کرتے کہ بے وجہ اس کے ہاتھ میں موبائل کیوں ہے کہ سچ مچ کسی اچھی چیز کو یا معلومات کو تلاش کررہا ہے یا فحاشی بھری فلمیں دیکھ رہا ہے ۔ اسی موبائل کی وجہ سے کہیں بھی وہ وقت پر نہیں پہنچتا نہ ہی وقت پر کھانا کھاتا ہے ۔ کہیں سے کم قیمت والا پیکج لے کر فون پر فون کرتے رہتا ہے ۔ یہ الزام صرف بچوں کو دینا کافی نہیں ہے بلکہ اس دور رواں کا ہر شخص اسی علالت میں غرق ہے ۔ معاشرے کی خدمات تو دور اپنے گھر کی اور اپنے آپ کے بھی کام کرنے کی فرصت نہیں ملتی ۔
اسی موبائل سے کبھی بھی کہیں بھی ناگہانی یا ہنگامی حالات سے واقفیت ضرور ملتی ہے مگر کسی کی مدد کو جانے سے قبل یہ موبائل ہی اسے روک لیتا ہے یعنی وہ موبائل ہاتھ میں لیتے ہی پہلے اپنے میسج چیک کرتا ہے پھر واٹس اپ اور فیس بک اور اگر نیٹ کھولا تو بھینس گئی پانی میں …. یعنی وقت کدھر گزر جاتا ہے اُس کا پتہ ہی نہیں چلتا اُسی دوران بہت ضروری کام رہ جاتے ہیں جیسے عیادت یا تدفین ۔ پھر مجبوراً کف افسوس رگڑنا پڑتا ہے ۔ کچھ موبائل کے صارفین یہ کہہ کر صفائی دیتے ہیں کہ ”خیر خیریت پوچھتے رہتے ہیں عیادت کو جانے کی کیا ضرورت ہے ؟“ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ اسی موبائل سے رشتوں میں فاصلے ہوگئے ہیں جو شخص قریبی رشتہ دار کو پڑوس میں ملنے نہیں جاسکتا وہ دور مریض کی عیادت کو کیا جائے گا۔ شاید اسی لیے کسی شاعر نے کہا ہے
عیادت کو روکا موبائل نے یارو دلوں پہ یہ قادر رہا سب کے یارو
ہے زمانے کا فتنہ محبت سے حاصل بھروسے میں اول رہا سب کے یارو

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا