شہادتِ مولود کعبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ !

0
0

ریاض فردوسی

رمضان المبارک کا مہینہ ہے،ایک بزرگ شخص فجر کی نماز پڑھا رہے ہیں،اس بزرگ کی نماز اتنی اچھی اور پیاری تھی،وہ اس قدر اپنے رب سے بات کرنے میں گم ہو جاتے تھے کہ لوگ ان کے پہلو سے تیر بھی نکال لیتے تھے تو انہیں کوئی احساس نہیں ہوتا تھا،آج یہ مکرم ہستی 19 ویں رمضان المبارک کو بڑے سہانے انداز میں محو تلاوت ہے،اور کیوں نہ ہو انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے والی ہیں،دنیا وآخرت کے سردار ﷺ نے جو کامیابی اور کامرانی کی خوشخبری سنائی ہے،وہ وقت آپہنچا ہے۔بڑی خواہش تھی کہ اپنے دوست سے روزے کے حالت میں ملاقات کروں۔یہ مظلوم شخص سیدناابو طالبؓ کے لائق فرزند جناب علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم 17رمضان المبارک سن 40 ہجری کو جب بیدار ہوتے ہیں تو اپنے بڑے بیٹے حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کو اپنا خواب سناتے ہیں۔ آج رات سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے عرض کیا ہے کہ لوگوں کے نامناسب رویے سے سخت نزع کی صورت پیدا ہو چکی ہے۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علی رضی اللہ عنہ تم اللہ عزوجل سے دعا کرو، لہٰذا میں نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا مانگی۔ اے اللہ! مجھے ان سے بہتر لوگوں میں پہنچا دے۔دعاقبول ہوچکی ہے،علم کے دروازے کوتوڑنے کے لئے،بزدلوں کی طرح وارہوا،مولیٰ علی کرم اللہ وجہ حالت نماز میں پہلے سجدے سے ابھی سر اٹھا ہی رہے تھے کہ شبث بن بجرہ نے شمشیر سے حملہ کیا مگر وہ محراب کے طاق کو جا لگی اوراسکے بعد عبد الرحمن بن ملجم مرادی نے نعرہ دیا:
”للہ الحکم یاعلی،لا لک و لا لاصحابک” اور اپنی شمشیر سے حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک پر حملہ کیاصرف اللہ کے آگے ہی جھکنے والے سر میں سجدے کی جگہ(ماتھے) تک شگاف ہوا۔
حضرت علی علیہ السلام محراب میں گر پڑے اسی حالت میں فرمایا:بسم اللہ و باللہ و علی ملّۃ رسول اللہ،فزت و ربّ الکعبہ،رب کعبہ کی قسم،میں کامیاب ہو گیا۔(ابن اثیر،اسد الغابہ،1409ق،ج۔3،ص۔618۔ابن قتیبہ، الإمامۃ و السیاسیۃ،1410ق، ج۔1،ص۔180۔ابن عبد البر، الاستیعاب،1412،ج۔1،ص۔337۔بلاذری، أنساب الأشراف، 1417ق، ج۔2، ص۔ 488)
حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک سے خون جاری تھا فرمایا: ھذا وعدنا اللہ و رسولہ؛یہ وہی وعدہ ہے جو اللہ اور اسکے رسول نے میرے ساتھ کیاتھا۔
مولی علی علیہ السلام چونکہ اس حالت میں نماز پڑھانے کی قوت نہیں رکھتے تھے اس لئے اپنے فرزند امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ سے نماز جماعت کو جاری رکھنے کو کہا اور خود بیٹھ کر نماز ادا کی۔
حضرت علی بن ابی طالب پر خارجی ابن ملجم نے 26 جنوری 661ء بمطابق 19 رمضان،40ھ کو کوفہ کی مسجد میں زہر آلود خنجر کے ذریعہ نماز کے دوران قاتلانہ حملہ کیا،علی ؓبن ابی طالب زخمی ہوئے،اگلے دو دن تک آپ زندہ رہے لیکن زخم گہرا تھا، چنانچہ ٹھیک نہ ہو سکا اور 21 رمضان 40ھ کو لوگوں کی دغابازیوں کو برداشت کرتے ہوئے،اپنو کی جدائی کا غم دل میں سمیٹے ہوئے رب کعبہ سے جاملے۔
علامہ جلال الدین سیوطی،مسند امام احمد اور حاکم سے اس صحیح سند کے ساتھ حضرت سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، علی (کرم اللہ وجہہ الکریم) دو قسم کے لوگ انتہائی بدبخت ہیں، ایک توآل ثمود ہیں جنہوں نے اللہ کے پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں، دوسرے وہ جو تمہاری سر پر تلوار مار کو تمہاری داڑھی کو خون آلود کر دے گا۔آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بحکم خداوندی مولی علی کرم اللہ وجہہ کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ تمہارے سر پر تلوار ماری جائیگی اور تمہاری داڑھی خون سے رنگین ہو جائیگی۔
مولیٰ علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں!ترجمہ: خدا کی قسم! یہ موت کا ناگہانی حادثہ ایسا نہیں ہے کہ میں اسے ناپسند جانتاہوں اور نہ یہ ایسا سانحہ ہے اسے براجانتا ہوں میری مثال بس اس شخص کی سی ہے جو رات بھر پانی کی تلاش میں چلے اور صبح ہوئے چشمے پر پہنچ جائے اور اس ڈھونڈنے والے کی مانند ہوں جو مقصد کو پالے اور جو اللہ کے یہاں ہے وہی نیکوں کاروں کے لئے بہتر ہے۔ ایک دو سری جگہ پر مولی علی کرم اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ۔ و ا لابن ابی طالب انس بالموت من الطفل بثدی۔نہج البلاغہ خطبہ ۔5)خدا کی قسم بچہ ماں کے پستانوں سے جس قدر الفت رکھتا ہے ابو طالب کابیٹا اس سے زیادہ موت کو عزیز سمجھتا ہے۔جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مولیٰ علی کرم اللہ وجہ کی شہادت کی خبر ملی تو آپ کی زبان سے بے ساختہ یہ فقرہ نکل پڑا۔
ذھب الفقہ و العلم بموت ابن ابی طالب۔(استیعاب ص۔145۔جلد۔3)ترجمہ: علی کی موت سے علم وفقہ کاخاتمہ ہوگیا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ ’’اے محبوب! فرما دیجئے کہ میں تم سے صرف اپنی قرابت کے ساتھ محبت کا سوال کرتا ہوں‘‘ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کی قرابت والے کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ، اور ان کے دونوں بیٹے(حسن اور حسین)علیہ الصلاۃ والسلام۔ اس حدیث کو طبرانی نے’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘(الحدیث رقم 21: أخرجہ الطبرانی فی المعجم الکبیر، 3 / 47، الحدیث رقم: 2641، والہیثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 168)
امیر المؤمنین مولا علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ 13 رَجَبُ الْمُرَجَّب کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے آپ کی والدہ نے آپ کا نام حیدر اور والِدِ صاحب نے علی رکھا۔ حُضُورِ اکرم صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے آپ کو اَسَدُ اللہ کے لقب سے نوازا اس کے عِلاوہ مُرتضیٰ (یعنی چُنَا ہوا)کَرَّار(یعنی پلٹ پلٹ کر حملہ کرنے والا) شیرِ خُدا اور ابو تراب اور خود کو اخی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہلوانا پسند فرماتے تھے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ ’’آپ فرما دیں آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ‘‘ نازل ہوئی تو نبی اکرمﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا: یا اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔(الحدیث رقم 16:أخرجہ مسلم فی الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب: من فضائل علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ، 4 / 1871، الحدیث رقم: 2404، والترمذی فی الجامع الصحیح، کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب: و من سورۃ آل عمران، 5 / 225، الحدیث رقم: 2999، وفی کتاب المناقب عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب: (21)، 5 / 638، الحدیث رقم: 3724، و أحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 185، الحدیث رقم: 1608، والبیہقی فی السنن الکبری، 7 / 63، الحدیث رقم: (13169 – 13170)، والنسائی فی السنن الکبری، 5 / 107، الحدیث رقم: 8399، و الحاکم فی المستدرک، 3 / 163، الحدیث رقم: 4719)
پروردہء نبی حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں یہ آیت مبارکہ۔ اے اہلِ بیت! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے۔نازل ہوئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم کو بلایا اور ایک چادر میں ڈھانپ لیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا: اِلٰہی! یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے ہر آلودگی کو دور کردے اور انہیں خوب پاک و صاف فرما دے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔(الحدیث رقم 19: أخرجہ الترمذی فی الجامع الصحیح، کتاب التفسیر، باب و من سورۃ الأحزاب، 5 / 351، الحدیث رقم: 3205، و فی کتاب المناقب، باب مناقب أہل بیت النبی، 5 / 663، الحدیث رقم: 3787، وأحمد بن حنبل فی المسند، 6 / 292، و الحاکم فی المستدرک علی الصحیحین، 2 / 451، الحدیث رقم: 3558، و فیہ أیضاً، 3 / 158، الحدیث رقم: 4705، و الطبرانی فی المعجم الکبیر، 3 / 54، الحدیث رقم: 2668، و أحمد بن حنبل أیضاً فی فضائل الصحابۃ، 2 / 587، الحدیث رقم: 994)
جتنے مناقب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میںاحادیث نبوی ﷺمیں موجود ہیں اور کسی بھی صحابی ؓرسولﷺ کے بارے میں نہیں ملتے ہیں۔
آخر میں!
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے بعد چند اصحاب کے بہت اصرار کی وجہ سے آپ کرم اللہ وجہ نے حکومت کا عہدہ سنبھالا۔اپنی مختصر حکومت کے عرصے میں تین داخلی جنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔
بنی امیہ کے دور میں منبروں سے آپ پر لعن طعن کی گئی اور آپ کے مداحوں کو نہ صرف ڈرایا دھمکایا گیا بلکہ انہیں یا تو جیل خانوں میں بند کیا جاتاتھا یا انہیں قتل کیا جاتا تھا، یہاں تک کہ لوگوں کو بچوں کا نام ” علی ” رکھنے سے بھی منع کیا گیا،بلکہ اس سے بالا تر یہ کہ جس بچے کا نام ”علی” رکھا جاتا تھا،اسکو فوری طور پر شہید کر دیا جاتا تھا۔یہ سلسلہ سیدنا عمر ابن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بند کروایا۔
خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دور 25 سال تک جاری رہا، تاہم مولی علی کرم اللہ وجہہ نے اسلامی معاشرے کے دیگر معاملات سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی، بلکہ آپ نے اس دور میں بھی علمی اور سماجی خدمات سر انجام دیں،جن میں درج ذیل امور خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
قرآن کی جمع آوری، میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،کسی نے سیدناعبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: آپ کے چچا زاد بھائی علی ابن ابی طالب کے علم سے آپ کے علم کی نسبت کیا ہے؟ تو انھوں نے کہا:
وہی نسبت جو بارش کے ایک قطرے کو بحر بے کراں سے ہے۔(ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1۔ص ۔19)
دینی امور میں تینوں خلفاء کے دور میں سپریم جج کے پوسٹ پر رہے،حتی کہ سیدنا فاروق اعظم عمرابن خطاب رضی اللہ عنہ نے بہت سے مشکل مسائل میں مولی علی سے رجوع کیا ہے اور کئی مرتبہ اقرار کیا کہ:
لولا علی لہلک عمر،اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا،اور یہ بھی فرمایا کہ:اللہ نہ کرے کہ مجھے کوئی مشکل پیش آئے اور ابو الحسن (علیؑ) میرے ساتھ نہ ہوں،جب تک علیؑ مسجد میں حاضر ہوں کسی کو فتوی دینے کا حق نہیں ہے۔ فتوحات اور انتظامات حکومت میں تینوں خلفاء کو مشورے دیا،غربا،ایتام اور مساکین کو خیرات دینا اور امداد فراہم کرنا،غلام آزاد کرنا،حتی کہ روایات میں ہے کہ آپ نے ایک ہزار غلام خرید کر آزاد کیے،زراعت، شجرکاری، کاریزوں کی کھدائی اور انہیں وقف کرنا،مساجد کی تعمیر، منجملہ مدینہ میں مسجد فتح، حمزہ سید الشہدا ؓکے مزار کے ساتھ ایک مسجد، میقات میں ایک مسجد، کوفہ میں ایک مسجد اور بصرہ میں ایک مسجد،مختلف مقامات اور املاک وقف کرنا، جن کی مجموعی آمدنی چالیس ہزار دینار تک بتائی گئی ہے۔سیدنا عبداللہؓ ابن عباسؓ اور مجاہدؒ جیسے بڑے مفسر قرآن،مولی علی کرم اللہ وجہہ کے مکتب کے ہی پروردہ تھے۔خطیب بغدادی نے اسماعیل ابن جعفر سے اور ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ 300 آیات قرآنی حضرت علی ؓکے متعلق نازل ہوئی ہیں۔(تاریخ بغداد، ج ۔6، ص۔ 221)
ابن حجر ہیتمی اور شبلنجی نے ابن عساکر اور ابن عباس ؓسے 300 آیات کی حضرت علیؓ کے بارے میں نازل ہونے کی تائید کی ہے۔(صواعق المحرقہ، ص۔ 761۔نور الابصار، ص۔ 73)
محمد ابن اسحاق فرماتے ہیں! اکثر علماء کے نزدیک علم نحو، ابو الاسود دو ئلی نے وضع کیا اور ابو الاسود دوئلی نے اس علم کو مولی علی کرم اللہ وجہہ سے حاصل کیا۔(ابن ندیم، الفہرست، ص۔62)
نبی کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا!اے علی! کوئی مومن تم سے دشمنی نہ رکھے گا اور کوئی منافق تم سے محبت نہ کرے گا۔جنگ ِ بدر‘ جنگ ِ احد‘ جنگ ِ خندق اور جنگ ِ خیبر میں پیش پیش مولی علی کرم اللہ وجہ کی ذات اقدس تھی۔بعض حضرات کہتے ہیں کہ مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت ناکام رہی،تاریخ گواہ ہے کہ فتوحات اور بحران، سلطنتوں کی تاریخ کا ہمیشہ سے حصہ رہی ہیں۔ حضرت سیدناابوبکرؓ و عمرؓ کے ادوار اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے ابتدائی سالوں میں امن و امان تھا،مسلمانوں کا اتحاد مضبوط تھا،اس وقت جومسلمان تھے، وہ تقریباً تربیت یافتہ سرکاردوعالم ﷺ تھے،ان کو عسکری قو ت حاصل تھی، جس کے نتیجہ میں فتوحات حاصل ہوئیں اور اسلامی حکومت کے حدود وسیع ہوئے۔لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں بحران کی کیفیت تھی اورچہار جانب سے فتنے سر ابھار رہے تھے۔ایسے مخالف حالات میں نظام حکومت سنبھالنا ہی مولیٰ علی کرم اللہ وجہ کی بہت بڑی کامیابی ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا