عالم اسلام میں غم کی لہر ،ملک بھرسے تعزیتی پیغامات کاسلسلہ ،انتقال امت کیلئے ایک عظیم خسارہ
مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی وفات پوری امت اسلامیہ اور مسلمانان ہند کے لیے ناقابل تلافی نقصان: مسلم پرسنل لا بورڈ
لازوال ڈیسک
لکھنؤ/نئی دہلی/ممبئی؍معروف عالم دین، درالعلوم ندوۃ العلماء کے ناظم و آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی کا آج لمبی علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ مولانا 94برس کے تھے۔خاندانی ذرائع کے مطابق مولانا لمبے سے علیل چل رہے تھے۔آج ندوہ میں بعد نماز ظہر مولانا نے آخری سانس لی۔مولانا کی تدفین ان کے آبائی وطن رائے بریلی میں کل صبح 8بجے ہوگی جبکہ علمی کے گہوارے ندوۃ العلماء میں آ ج رات 10بجے نماز جنارہ ادا کی جائے گی۔اس کے بعد میت کا آبائی وطن لے جایا جائے گا۔مولانا کے انتقال سے عالم اسلام میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے اور پورا ماحول سوگوا ر ہے۔مولانا گذشتہ 21سالوں سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر تھے۔علاوہ ازیں مولانا اپنی چیدہ صلاحیتوں کی وجہ سے وہ بیک وقت ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء ، نائب صدر عالمی رابطہ ادب اسلامی،صدر مجلس تحقیقات و نشریات لکھنؤ ، رکن تاسیسی رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ، آکسفورڈ سینٹر فار اسلامی اسٹڈیز برطانیہ کے ٹرسٹی صدر دینی تعلیمی کونسل اترپردیش اور دارالمصنّفین اعظم گڑھ کے رکن تھے۔مولانا محمد رابع حسنی ندوی کی ولادت اترپردیش کے ضلع رائے بریلی کے تکیہ کلاں کے ایک مشہور علمی، دینی اور دعوتی خانوادہ میں یکم اکتوبر 1929ء کو ہوئی تھی۔ آپ کے والد کا نام سید رشید احمد حسنی تھا، ابتدائی تعلیم اپنے خاندانی مکتب رائے بریلی میں ہی مکمل کی، اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے جہاں سے 1948ء میں فضیلت کی سند حاصل کی۔مولانا نے فقہ، تفسیر، حدیث اور بعض فنون کی کتابوں پر دسترس کے لئے دارالعلوم دیوبند میں بھی ایک سال گزارا۔ 1949ء سے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں بحیثیت معاون مدرس کے ملازمت اختیار کرلی۔۔ 1950ء سے 1951ء کے درمیان حصولِ تعلیم کے سلسلے میں حجاز میں بھی قیام کیا۔مولانا کو عربی و اردو زبان میں عبور حاصل تھا۔ مرحوم نے دونوں زبانوں میں درجنوں کتابیں لکھیں جن میں مدارس میں شامل نصاف معلم الانشاء ، دو مہینے امریکہ میں، جزیرۃ العرب، رہبر انسانیت، الادب العربی بین عرض و نقد وغیرہ قابل ذکر ہیں۔مولانا مرحوم کی سب سے بڑا کارنامہ آپ کی تدریسی خدمات ہیں، جو تقریباً 51سالوں کے طویل عرصے پر محیط ہیں اور آپ کے ہزاروں شاگرد دنیا کے کونے کونے میں خدمات انجام دے کر مولانا کے لئے صدقہ جاریہ ہیں۔مولانا مرحوم کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں آپ کو صوبائی وقومی اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔ اور حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی وفات کے بعد 2000ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ناظم (ڈائریکٹر) منتخب کئے گئے۔سال 2002ء میں جب مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کا انتقال ہوگیا تو متفقہ طور پر آپ کو بورڈ کے صدر کی بھی ذمہ داری سونپ دی گئی۔مولانا نے ندوۃ کے کلیۃ اللغۃ کے ڈائرکٹر نائب مہتمم کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض انجام دئیے۔مولانا کے انتقال کے بعد ملی گہرواروں میں سوگواری کا عالم، تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔ جماعت اسلامی ہند یوپی مشرق کے امیر حلقہ ڈاکٹر ملک محمد فیصل فلاحی نے مولانا کے انتقال پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا شفقت و محبت، عاجزی و انکساری، اتحاد و اتفاق اور بردباری و تحمل کا عملی نمونہ تھے۔لواحقین کے سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے امیر حلقہ نے کہا کہ جماعت اسلامی غم کی اس گھڑی میں مغموم اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ اللہ رب العالمین سے دعا گو ہوں کہ اللہ اہل خانہ کو صبر جمیل عطا کرے۔ملک فیصل فلاحی نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ مولانا رابع حسنی ندوی کے رخصت ہونے سے جو خلا پیدا ہوئی ہے اس کا نعم البدل انتہائی مشکل ہے۔انہوں نے کہا کہ آپ کی سربراہی میں مسلم پرسنل لاز کے تحفظ کے لیے جو کام ہو رہے تھے، وہ انتہائی اہم تھے۔ ملک کی موجودہ صورتحال میں مولانا کا ہم سے رخصت ہوجانا ایک عظیم خسارہ ہے۔اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے، ملت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔آمین۔وہیں مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے مولانا کے انتقال پر اپنے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا مرحوم کی قیادت میں ہی پورے ملک میں پرسنل لاء کے تحفظ کی مہم جاری تھی۔آپ کے انتقال سے پورے عالم اسلام میں غم کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔اللہ رب العالمین مولانا کو کروٹ کروٹ جنت نصیب عطا کرے۔اِدھرجموں وکشمیرمیں بھی بڑے پیمانے پرتعزیتی پیغامات کاسلسلہ جاری ہے۔مختلف مذہبی وسماجی تنظیموں ومعززدینی شخصیات نے مولاناکے انتقال پرگہرے رنج والم کااظہارکیاہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ و ناظم ندوۃ العلماء لکھنو کی وفات پر گہرے رنج وغم کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پوری امت کے لئے نقطہ اتفاق تھے۔انہوں نے آج یہاں جاری ایک تعزیتی بیان میں کہا کہ ہرحلقہ میں ان کو محبت وعظمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، وہ اس وقت مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا مرجع تھے، ان کو عالم اسلام خاص کر عرب دنیا میں بھی بہت قدرواحترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، ان کے عہد صدارت میں پرسنل لا بورڈ نے بہت حکمت کے ساتھ اہم اور مشکل مسائل کا سامنا کیا،وہ بلند پایہ مصنف، ماہر تعلیم، عربی کے مایہ ناز ادیب، بافیض استاذ ومربی تھے، پوری ملت اسلامیہ اس وقت تعزیت کی مستحق ہے، بورڈ تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ حضرت والا کیلئے دعا کا اہتمام کریں اور اتحاد واتفاق کو قائم رکھیں۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی کا آج لکھنؤ میں 94 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا، وہ طویل عرصے سے ان کی طبیعت ناساز تھی اسے علاج کے لیے رائے بریلی سے لکھنؤ لایا گیا، جہاں اس کی موت ڈالی گنج کے ندوہ مدرسہ میں ہوئی۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر کیعلاوہ مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنؤ، دینی تعلیمی کونسل، اترپردیش اور دار عرفات، رائے بریلی کے صدر نیز دار المصنفین، اعظم گڑھ کے رکن، آکسفرڈ یونیورسٹی کے آکسفرڈ سینٹر برائے اسلامک اسٹڈیز کے ٹرسٹی، تحریک پیام انسانیت اور اسلامی فقہ اکیڈمی، انڈیا کے سرپرستوں میں شامل رہے۔ممبئی اور مہاراشٹر سے ان کی وفات پر تعزیتی پیغام موصول ہورہے ہیں۔مسلم پرسنل لاء بورڈ ے تاسیسی رکن اور معروف عالم دین مولانا محمود دریا بادی نے کہاکہ ملت کا نقصان ہے اور اللّٰہ تعالیٰ مولانا کا متبادل عطا فرمائے۔جنہوں نے ایک عرصے تک تمام فرقوں اور مسالک کے لوگوں کو متحد رکھنے میں کامیابی رکھی۔مرحوم ایک عالم دین ،دانشور اور عربی زبان پر اپنے ماموں حضرت علی میاں کی طرح عبور کرتے تھے ایک متعدل اور مخلص انسان بھی تھے۔انجمن اسلام کے صدر اور مسلم۔پرسنل لاء کے رکن ڈاکٹر ظہیر قاضی نے اسے بہت بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے کہاکہ ان سے ملنے پر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ متاثر کن شخصیت کے مالک ہیں اوران کے چہرے سے روحانیت کے مسلک تھے،ہر ایک منصوبے کو بڑ حکمت عملی سے نافذ کراتے اور ایک خوبی سب کو ساتھ لیکر چلنے کی رہی تھی اور تین عشرے سے کامیاب بھی رہے۔سابق ریاستی وزیر اور کانگریس کے سنئیر لیڈر نسیم عارف خان نے مدینہ منورہ سے اپنے تعزیتی پیغام میں کہاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈملت کی ایک ایسی باڈی ہے ،جہاں ہر فرقہ اور مسلک کی نمائندگی ہوتی ہے اور حضرت رابع نے بڑے اچھے انداز میں سبھی ایک ہار کی طرح جوڑ کر رکھا تھا۔ انہوں نے ہندوستان میں شریعت کی بقاء اور استحکام کے لیے ہر قدم کو پھونک پھونک کر رکھا ہے۔مولانا برہان الدین قاسمی نے کہاکہ اللّٰہ تعالیٰ مرحوم حضرت رابع حسنی ندوی کا متبادل عطا فرمائے ،انہوں نے ہمیشہ قوم۔ملت کے لیے اہم فیصلہ لیے اور بحرانی دور میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو ثابت قدم رکھنے میں کامیاب رہے۔جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے مرشد ملت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ و ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء کے انتقال ِپر ملال پر گہرے رنج و الم کا اظہار کیا ہے۔مولانا مدنی نے آج یہاں جاری تعزیتی بیان میں کہا کہ آپ کی ذات فکر و نظر ، عمل و عمل ، دیانت ، تفقہ ، تدبیر وتدبر ، ایثار ، خلو ص و للہیت کی مجموعہ تھی۔ آپ ایک بہترین استاذ، مخلص داعی اور ڑرف نگاہ مفکر تھے جن سے علمی ، دینی ، ادبی و سیاسی دنیا میں رہ نمائی حاصل کی جاتی تھی۔آپ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی وراثتوں کے امین اور ان کی طرح جامعیت و بلندیہ فکر و خیال کی سچی تصویر تھے۔ آپ نے حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا محمد احمد پرتاب گڑھی جیسے بزرگوں سے بھی کسب فیض کیا جس سے فکر و عمل میں آفاقیت پیدا ہوئی۔مولانا مدنی نے کہا کہ مبدآ فیض نے حضرت والا کو گوناگوں خصوصیات سے نواز ا تھا ، آپ کی عربی واردو تصانیف کی مجموعی تعداد پچاس تک پہنچتی ہے ، بالخصوص آپ کی کتاب’ رہبر انسانیت ‘اور’ نقوش سیرت‘ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کی بہت ہی دل نشیں تشریح کی ہے جو ہندستان کے تناظر میں اہم ہے۔آپ ندوۃ العلماء لکھنو کے مہتمم اور ناظم بھی منتخب ہوئے۔ جب ۰۰۰۲ ء میں ندوۃ العلماء کی ذمہ داری دی گئی تو آپ نے فکر و فن اور عمل و جہد کے نئے چراغ روشن کیے، آپ خیر خلف لخیرِ سلف ثابت ہوئے۔ اسی طرح ۳۰۰۲ء میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر عالی وقار منتخب ہوئے تو آپ نے اپنی اعلی ٰ فکری و انتظامی صلاحیتوں سے ایک وسیع دنیا اورمختلف خیالات کے مرکز کو مستحکم کیا اور مشکل سے مشکل حالات میں سنجیدگی اور عالی ہمتی کانمونہ پیش کیا۔آپ علوم ظاہری میں درک و ادراک اور جامعیت وکمال کے ساتھ علوم باطنیہ سے بھی بہرہ وافر رکھتے تھے اور ہزاروں تشنگان حق کے لیے چشمہ فیض تھے۔