تاریخ فراموش کرنا سنگین جرم ہی تو ہے

0
0

محمد اعظم شاہد

تعلیم کواپنے رنگ میں رنگنے کے لیے آرایس ایس منصوبہ بند کوشش کرتی آئی ہے۔ جب جب بی جے پی مرکز یا پھر ریاستوں میں برسراقتدار آئی تب تب تعلیمی نصابی کتابوں میں ترمیمات اور چند حصے حذف کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں۔ این سی ای آر ٹی NCERT کی نصابی کتابیںجوCBSE نصاب تعلیم میں پہلی تا بارہویں جماعت تک پڑھائی جاتی ہیں۔ ان نصابی کتابوں میں ہندو تو انظریات کی شمولیت کے لیے بی جے پی حکومتوں کی ایما پر ترمیمات اور کچھ حصے حذف کرنے کا چلن عملی طور پر ہوتارہا ہے۔ 2017 اور 2019 میں تاریخ کی نصابی کتابوں میں اُلٹ پلٹ ہوتی رہی ہے۔ کتابوں کی ضخامت کم کرنے اور طلبہ کو علوم کے سیکھنے میں آسانی Student’s Friendly نصاب کے نام پر گزشتہ سال سماجیات اور تاریخ کی نصابی کتابوں سے کچھ حصوں کے حذف Deletion کئے جانے کا اعلان ہوا تھا۔ جواز یہ بتایا گیا تھا کہ منطقی طور پر Logically نصاب کو عصری تقاضوں کے تحت از سرنو تر تیب دیا جائے۔ ابھی چند دن قبل این سی آر ٹی ای نے بارہویں جماعت کی تاریخ کی کتاب کے نصاب سے ہندوستان کی تاریخ وسطیٰMedieval History کے باب میں مغلیہ دور حکومت کی تاریخ کو نصاب سے حذف کر دیا ہے۔ مغل شہنشاہ مسلمان تھے اور ان کے کارناموں، فتوحات، اصلاحات، رواداری، ترقی وتعمیرات کے حقائق سے نئی نسل کو گمراہ کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ اس اقدام کی مذمت میں ملک کے نامور مورخین بشمول رومیلا تھا پر اور پروفیسر عرفان حبیب نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اس کو تاریخ کے ساتھ سیاسی کھلواڑ قراردیا ہے اور اپنی فکر جتاتے ہوئے کہا ہے کر نئی نسل کو نصاب میں چھیڑ چھاڑ کرنے گمراہ کیا جارہا ہے۔ طلبہ کو اپنے ملک کی تاریخی وراثت کو اور اس کے ارتقائی سفر سے لاعلم کیا جا رہا ہے جو مجرمانہ اقدام ہے۔ نیتا جی سبھاش چندر بوس آزاد ہند فوج کے اعلیٰ کمانڈر کی حیثیت سے 26 /ستمبر 1943 کو رنگون (بر ما اب موجودہ میانمار کا شہر یانگان) پہنچے اور وہاں انہوں نے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے مزار پر حاضری دی۔ اور اپنا خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ بہادر شاہ ظفر نہ صرف آزادی کی پہلے جنگ کے ہیرو تھے بلکہ عظیم مغل خاندان کے آخری حکمران تھے جس نے ہندوستانی تاریخ میں ایک شاندار اور قابل فخر باب کا اضافہ کیا تھا۔نیتا جی کے ایسا کہنے کے پیچھے مغل سلطنت کے دور میں ہندوستان میں سیاسی، اقتصادی، حکمت عملی اور فنی میدانوں میں ترقی کے علاوہ آپسی میل ملاپ کی تہذیب کی جو ترقی تھی ان پہلووں کی جانب توجہ مبذول کرانا تھا۔ آر ایس ایس جو مغلوں سے متعلق نصابی کتابوں سے اسباق ہٹائے جانے کی ذمہ دار ہے۔ وہ نیتا جی کے آدرش اور بصیرت کا دم بھرتی ہے مگر ان کے علمی نظریات سے دوری اختیار کرتے ہوئے اپنے ایجنڈے کے تحت تعلیم کے شعبہ کی زعفرانیت پر اپنی توانائیاں صرف کر رہی ہے۔ تجزیہ نگار پنکج سریواستو نے اس ضمن میں مرہٹہ حکمران شیواجی مہاراج کا اور نگ زیب کے نام لکھے ایک خط کا تذکرہ کیا ہے، جس میں شیواجی نے اکبر اعظم کو جگت گرو قرار دیتے ہوئے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک بتایا ہے۔ شیواجی نے لکھا تھا کہ اکبر نے اس عظیم ریاست پر 52 سال تک اتنی احتیاط اور عمدگی سے حکومت کی کہ تمام فرقوں کے لوگوں کو خوشی اور مسرت ملی۔ ملک کی تمام آبادی پر ان کی نظر ایک جیسی تھی۔ اس صلح کل کے رویے کی وجہ سے سب نے انہیں جگت گرو کا خطاب دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ (اکبر) جدھر بھی دیکھتے فتح ا ن کا استقبال کرتی تھی۔ قرآن اللہ کا کلام ہے۔ اس میں اللہ کومسلمانوں کا نہیں پوری کائنات کا خدا کہا گیا ہے۔ ہندو مسلم ایک ہیں۔
واضح رہے کہ اگر طلبہ ان واقعات کو پڑھیں گے تو ملک میں مذہبی منافرت کے ماحول پر سوال اُٹھا ئیں گے، مگر آرایس ایس سوال کرنے کے رجحان سے خوف زدہ ہے۔ وہ (آرایس ایس) و چارک (علم سے آراستہ ہنرمند) نہیں چاہتی بلکہ اسے پر چارک (اپنے نظریات عام کرنے والے) چاہئے۔ یعنی آرایس ایس اپنے سنائے ہوئے قصے کہانیوں کو بھلے اس کے تاریخی شواہد یا ثبوت نہ بھی ہوں تو ا س کوتاریخ سمجھیں اور یہی کچھ سیکھیں جو سکھایا جائے۔ اس طرح وہ (آرایس ایس) نو جوانوں کو حکم کی تعمیل کرنے والے بنانا چاہتی ہے نہ کہ حقائق منطقی اصولوں اور تنقید کی سوچ کے امکانات سے اُبھرنے والے سوالات اُٹھانے والے۔
تاریخ کے ساتھ اپنی مرضی کے مطابق اپنے بنیاد پرست ہندو تو ایجنڈے کو عام کرنے این سی آرٹی ای کی بارہویں جماعت کی تاریخ کے نصاب میں جمہوریت کی افادیت اور عظمت اور عوامی تحریکات سے متعلق اسباق بھی مٹائے جارہے ہیں۔ مہاتما گاندھی کے ہندو مسلم رواداری نظریات، مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کے سنگھ سے تعلقات اور اس پر سردار پٹیل کی جانب سے لگائی گئی پابندی، تحریک آزادی میں آرایس ایس کی عدم شمولیت اور برطانوی سامراج کی طرفداری جیسے تاریخی موضوعات بھی ہٹائے جا رہے ہیں۔ مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے پچاس سالہ دور حکومت میں اس کے درباری راجہ مان سنگھ، تو ڈرمل، بیر بل جیسے نورتن کا تذکرہ آئے گا۔ اس کے حریف رانا پرتاپ سنگھ کا ساتھ حکیم خان سور دکھائی دیں گے۔ اور نگ زیب کے دربار میں راجہ جئے سنگھ اور جسونت سنگھ ملیں گے اور اور نگ زیب سے ٹکر لینے والے شیواجی کی فوج میں توپ خانے (اسلحہ) کے سربراہ ابراہیم خان، بحری فوج کے سر براہ دولت خان اور سفیر کے طور پر قاضی حیدر کے نام ملیں گے۔ اب بھلا آر ایس ایس اور اس کی پیداوار بی جے پی کو ملک کی اس عظیم گنگا جمنی تہذیب کی روایت بھلا کیسے راس آئے گی۔ وہ (آرایس ایس) تو انگریزوں کی تقلید میں مذہب کے نام پر ملک میں نفرت کو بڑھاوا دے کر جارحانہ قوم پرستی کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نصابی کتابوں میں اپنے ایک طرفہ فیصلوں سے ملک وقوم کے مفاد میں جوترمیمات اور تاریخی حقائق کو حذف کرنے کے اقدام کر رہی ہے وہ ملک کی بنیادی مشترکہ تہذیب و ثقافت کے برعکس ہے۔
9986831777

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا