آفتاب اجمیریؔ
بدلہ نہیں ذرابھی نظام کہن ابھی رہ کر وطن میں ہم ہیں غریب الوطن ابھی
مانوس کب ہے امن وامنان سے وطن ابھی ملتے ہیں ہر قدم پہ ہمیں راہنرن ابھی
آزادی وطن بھی ہے قید محسن ابھی کھل کھل کے بند رہے ہیں سروں سے کفن ابھی
باقی ہے قاتلوں میں کدورت کا دھن ابھی کیا اور خون لے گی ۔زمین وطن ابھی
ہندوستان کو لگنے لگا ہے ھہن ابھی طوفان وزلزلوں کی ہے زد میں چمن ابھی
شائید پھر انقلاب زمانے میں آئے گا باقی ہت دور نو کی جبیں پرشکن ابھی
مسجد کے نام پر کبھی مندر کے نام پر پڑجاتی ہے جبینوں پہ گہری شکن ابھی
غریت کی مار سہر کے بھٹکتے ہیں دربدر آموئد ہ حیات نہیں ، مردوزن ابھی
فنکاروکھوٹے ، ہزاربار ہر انجمن میں ملتے ہیں ، اہل سخن ابھی
خنجر تعصبات کے ٹوٹے ، ہزار بار دہشت گری کا پھر بھی ، لگا ہے گہن ابھی
اچھے دنوں کی فکر میں ، افسوس رات دن دردر بھٹک رہے ہیں ، یہاں مردوزن ابھی
دھن کالا لانے والے تھے ، وائیٹ چلاگیا یہ بینک کے لیٹرے ہیں ، دونوں مگن ابھی
آئے گا پھر جبینوں پہ انسانیت کا نور پھر سے سجا کے دیکھئے بزم کہن ابھی
سمجھیں تو روح اہل ساست ہے ہروہ دل جس دل میں ہے، محبت خاک وطن ابھی
اے رہنمائے قوم کبھی جاکے دیکھ لو پھر تے ہیں بچے گائوں میں ننگے بدن ابھی
اس معر کے سے ہم تو کبھی کے گزرگئے اپنے لئے ہیں پھر بھی یہ رارورسن ابھی
اے آفتاب اور ابھی مشق چاہئے رخشدئہ صفات نہیں ہے سخن ابھی
اے آفتاب صبر کرو۔ اور چپ رہو ہے زخم تازہ اس میں تو ہوگی جلن ابھی
7738864252