پروفیسر ارجمند بانو افشاں:ؔ ایک مثالی استاد

0
0

ڈاکٹر شکیل خان

انسان کی شخصیت کی تکمیل میں بہت سے عوامل کام کرتے ہیں جیسے پانی کی تیز روانی کو ندی بننے ، پھر دریا ہونے اور دریا کو سمندر سے ملنے تک جس صورتِ حال سے دو چار ہونا پڑتا ہے اگر اس کو نظر انداز کر دیا جائے تو دریا کی عظمت پر گفتگو کرنا ممکن نہیں ۔
اسی طرح بچہ جو ایک کونپل کی طرح ہوتا ہے اس کو بڑھنے اور برگ و بار لانے کے لئے والدین ، بہن بھائی ، رشتہ دار اور اساتذہ کی نگاہ ملتفت کی ضرورت ہوتی ہے۔ والدین تو قدرتی طور پر اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں ان کی تربیت اور نگہداشت کے لئے وقت دیتے ہیں یہ ان کا مذہبی فریضہ ہے اور سماجی اور اخلاقی ذمہ داری بھی لیکن استاد جو انسان کی شخصیت کا اصل معمار ہوتا ہے اس کی اہمیت یہ ہے کہ وہ ننھے اور معصوم پودے کو تراش خراش کر اسے تناور درخت بننے میں مدد کرتا ہے لیکن سارے استاد ایسے نہیں ہوتے ۔اچھے استاد انگلیوں پر شمار کئے جانے کے برابر ہیں ۔ ویسے تو میری تعلیم کا آغاز سلیمانیہ اسکول سے ہوا ۔ چوتھے درجے تک تو سب ٹھیک ٹھاک تھا کیونکہ اس وقت ہماری پرنسپل قمر آپا ہوا کرتی تھیں جو انتہائی کم سخن اور سنجیدہ خاتون تھیں ۔ لیکن سال ۱۹۷۹ء اور ۸۰ ء کے آتے آتے قمر آپا کا تبادلہ ہو گیا اور ان کی جگہ بطورپرنسپل تشریف لائیں معروف شاعرہ اور کئی ادبی انجمنوں کی سرپرست محترمہ رباب فاطمہ صاحبہ جن کے سخت نظم و ضبط نے سارے اسکول کا ماحول زیر و زبر کر دیا انہوں نے سب سے پہلا جو کام کیا وہ یہ تھا کہ بچوں کے لئے یونی فارم لازمی قرار دے دیا یہ سوچے بنا کہ اسکول میں زیر تعلیم بچے زیادہ تر غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کو نئے جوتے اور کپڑے محض عید پر ہی میسر ہوتے تھے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کئی والدین نے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا بند کر دیا اور جو آسودہ حال تھے انہوں نے نئے یونی فارم سلوا لئے مگر ایسے بچوں کی تعدا د بھی خاصی تھی جو نہ تو نئے یونی فارم سلوا سکتے تھے اور نہ ہی پڑھائی سے رخ موڑ سکتے تھے۔ اور ایسے بچے روزانہ سزا کے مستحق قرار دیے جاتے یہ سلسلہ عرصۂ دراز تک چلتا رہا۔ اپنے استاد کے لئے میرے معصوم ذہن میں جو منفی سوچ قائم ہوئی تھی وہ تا دیر قائم رہی اور جب میں حمیدیہ کالج پہنچا اور میری ملاقات ارجمند بانو افشاںؔ صاحبہ سے ہوئی تو مجھے احساس ہوا کہ استاد ایسے بھی ہوتے ہیں ۔
میری خوش قسمتی سے میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جہاں والدین کی بے پناہ محبت اور بہن بھائیوں کی الفت تو مجھ کو حاصل رہی لیکن استاد خوبی ٔ قسمت سے ایسی ملیں کہ جنہوں نے حقیقت میں مجھے قلم پکڑ کر لکھنا سکھایا اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ پروفیسر ارجمند بانو افشاں ؔ صاحبہ ہیں ۔
ارجمند بانو افشاں ؔ جو میری استاد رہیں اور خاتون بھی ہیں اس لئے طلبہ کے ساتھ ان کے برتائو میں ایک مادرانہ شفقت ، بہن کی محبت اور سخت گیر معلمہ کی آمیزش ہے ۔ وہ خود ایک ادیبہ ، شاعرہ اور ناقد ہیں ۔
ان کی شخصیت پانی سے بھرے بادلوں کی طرح ہے جو برستا ہے تو بنا کسی تفریق کے جنگل ، پہاڑ ، بنجر زمین ، صحرا، کھیت کھلیان سب کو سر سبز و شاداب کر دیتا ہے اسی طرح ارجمند بانو بھی اپنے طلبہ کے لئے دامے ،درمے ،قدمے ،سخنے ہر طرح کی مدد کے لئے تیار رہتی ہیں اور یہ تمام اوصاف ان کو اپنے استاد محترم پروفیسر عبدالقوی دسنوی صاحب سے وراثت میں ملے ہیں ۔ا رجمند بانو کی شخصیت پر اپنے استاد کا گہرا اثر ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنا تحقیقی مقالہ ’’ریاست بھوپال اور مشاہیر ِ اردو‘‘ (سنِ اشاعت ۲۰۱۲ء) اپنے استاد محترم کے نام منسوب کی ہے ۔یہ ہماری کم نصیبی ہے کہ آج ابو محمد سحر ؔ، عبدالقوی دسنوی ، پروفیسر آفاق احمد اور ڈاکٹر شفیقہ فرحت جیسے اساتذہ موجود نہیں ہیں ۔ تو وہیں ڈاکٹر خالد محمود ، ڈاکٹر محمد نعمان خاں ، اقبال مسعود ا ور ڈاکٹر ارجمند بانو افشاں ؔ جیسے لائق اور فائق شاگرد بھی نہیں ہیں جو اپنے استاد کے ہر لفظ کو حرفِ معتبر سمجھیں ۔ مگر ہماری خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر ارجمند بانو افشاںؔ جیسے استاد اب بھی موجود ہیں جو اپنے استاد کی روایت کو قائم کئے ہوئے ہیں۔جہاں طلبہ کو نہ صرف تعلیم کی دولت سے آراستہ کیا جاتا ہے بلکہ ان کی ذہنی تربیت اس انداز سے کی جاتی ہے کہ وہ آگے چل کر اچھے انسان بنیں اور ایک اچھا سماج قائم ہو سکے ۔ ارجمند بانو کی ابتدائی تعلیم سیہور میں ہوئی وہیں سے گریجویشن کیا اور پوسٹ گریجویشن کے لئے بھوپال تشریف لائیں اور سیفیہ کالج میں داخلہ لے کر قوی دسنوی صاحب کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے ۔حالانکہ یہ وہ دور تھا جب ڈاکٹر خالد محمود ڈاکٹر محمد نعمان خاں اور اقبال مسعود تعلیم مکمل کر کے اپنی منزلوں کی جانب کوچ کر چکے تھے لیکن ان کے قدموں کے نشان کالج کی در و دیوار پر چاند ستاروں کی مانند روشن تھے ارجمند بانو نے ان سے استفادہ کیا اور انہیں کے نقشِ قدم پر چل کر ایم اے اوّل درجے میں پاس ہو کر گولڈ میڈل کی حقدار بنیں ۔ بعد ازاں عبدالقوی د سنوی صاحب کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان’’ ریاست بھوپال اور مشاہیر اردو ‘‘ تحریر کیا ۔
موضوع بہت مشکل اور طویل تھا جس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ’’ ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے‘‘ ۔ لیکن ارجمند بانو نے اپنی محنت اور لگن سے نہ صرف اس آگ کے دریا کو بحسن و خوبی عبور کیا بلکہ اپنے استاد محترم کا سر بھی فخر سے اونچا کر دیا ۔ برکت اللہ یونیورسٹی نے ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس مقالے پر ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری سے سرفراز کیا اور وقت نے ان کی علمی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے میں وقت ضائع نہیں کیا۔ اور ان کا تقرر بطور اسسٹنٹ پروفیسر ہوا برسوں پہلے شروع ہوا درس و تدریس کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔
ارجمند بانو کا تعلق اعلیٰ نسب پٹھان گھرانے سے ہے اور پٹھانوں والا اکھڑ پن ان میں بھی خوب ہے۔ اسی اکھڑ پن کا شکار اکثر ان کے شاگرد اور قریبی دوست احباب ہوتے رہتے ہیں دوران طالب علمی وہ میری کسی نالائقی یا نا فرمانی پر ناراض ہو جاتیں تو ان کی پٹھانیت جاگ جاتی اور نہ صرف پی ایچ ڈی کا سارا مسودہ اٹھا کر پھینک دیتیں بلکہ مجھے اپنے گھر سے بھی بے دخل کر دیتیں۔ اور میرا نام فرماں برداروں کی فہرست سے ہٹا کر نافرمانوں میں شامل کر دیتیں۔ میں بھی موقع کی نزاکت کو بھانپ کر بنا کوئی صفائی پیش کئے مسودہ بغل میں دبائے وہاں سے فرار ہونے میں ہی عافیت جانتا۔ کچھ دنوں کی خاموشی کے بعد میں پھر ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ۔ وہ پچھلی تمام باتیں اس طرح بھول جاتیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہواور اپنا دست شفقت میرے سر پر رکھ دیتیں اور تعلیم کا سلسلہ جہاں سے منقطع ہوا تھا پھر سے وہی سرا تھام کر آگے کے سفر پر نکل جاتا۔
میں ان معنوں میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ارجمند بانو کی زیر نگرانی سب سے پہلا تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی معروف افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اقبال مجید : حیات اور ادبی خدمات ‘‘ تحریر کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے اقبال مجید اردو کے منفردانداز فکشن نگار تھے ۔ آل انڈیا ریڈیو آکاش وانی بھوپال میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے غریقِ رحمت کرے اور ان کی قبر کو خوشبوئوں سے معطر کر دے اردو اور افسانہ نگاری کے بارے میں بہت حساس تھے کسی کمزور ادیب اور شاعر کو تو وہ ایسے نظر انداز کر تے جیسے ا س کا کوئی وجود ہی نہ ہو انہوں نے فدوی کے ساتھ شیر کی نگاہ اور محبت کرنے والے بزرگ کا برتائو کیا۔ ایک طرف اقبال مجید صاحب جیسے نازک مزاج اور دوسری طرف پروفیسر ارجمند بانو افشاں ؔ جیسی پٹھان جو شعلہ بھی ہیں اور شبنم بھی انہوں نے ایک ایک صفحہ بار بار لکھوایا اور کبھی مطمئن نہیں ہوتیں ، میں نے بھی ان کے حکم کی تعمیل میں کبھی کوتاہی نہیں کی نتیجہ استاد کی محنت اور ہماری سعادت مندی نے آخر کار ہم کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دلوا ہی دی اللہ تعالیٰ پروفیسر ارجمند بانو افشاں صاحبہ کو سلامت رکھے اور انہیں کسی بھی مرحلہ پر ہماری رقم خرچ نہیں ہونے دی جو پروفیسر باہر سے وائیوہ لینے آئے ان کے طعام اور قیام کی ذمہ داری اور خرچ خود اٹھایا اور شاندار دعوت کا اہتمام کیا جس میں طلبہ کے علاوہ کئی معززین ِ شہر بھی شامل تھے۔ ایسے استاد قسمت سے ہی ملتے ہیں۔ اب تک ارجمند بانو کے زیر نگرانی ۱۹ ؍طلبہ پی ایچ ڈی کی ڈگری سے سرفراز ہو چکے ہیں جبکہ ۸؍طلبہ ان کے اپنے تحقیقی مقالے لکھنے میں مصروف ہیں ۔
ارجمند بانو کا دسترخوان بے حد وسیع ہے اور یہ صفت ان کو اپنے والدین سے وراثت میں ملی ہے۔ ان کے والد محترم افتخار احمد اپنے حلقہ ٔ احباب میں چندا ماموں کے نام سے مشہور تھے ۔ معروف افسانہ نگار نعیم کوثر صاحب چندا ماموں کو اس طرح یاد کرتے تھے :
’’ہم چار پانچ دوست جن میں مرتضیٰ علی شادؔ، انیس نقوی، عبدالحکیم ، سرور علی خاں جو عزیز قریشی کے ماموں تھے شام کے وقت کسی ایک جگہ رمی کھیلنے کے لئے جمع ہوتے۔ رمی کھیل کر دیر رات اپنے اپنے گھروں کے لئے روانہ ہو جاتے یہ ہمارا روز کا معمول تھا لیکن جب کبھی رات میں ہم لوگوں کو بھوک لگتی یا کچھ کھانے کو دل چاہتا تو ہمیں چندا ماموں کی یاد آتی کیونکہ وہ ہی ایک گھرانہ تھا جہاں رات کے کسی بھی پہر ہمیں کچھ کھانے کو مل سکتا تھا بس پھر کیا تھا سارے دوست سرور علی کی جیپ میں سوار ہوتے اور پہنچ جاتے سیہور چندا ماموں کے گھر اس وقت اکثر رات کے ڈیڑھ دو بج رہے ہوتے چندا ماموں کو گہری نیند سے جگاتے اور چندا ماموں ہمارا بڑی خوش اسلوبی سے استقبال کرتے اور ارجمند بانو کی والدہ سے یوں مختاطب ہوتے بیگم اٹھیں یہ بھوپال سے کچھ فقیر تشریف لائے ہیں ان کے کھانے پینے کا کچھ انتظام کیجئے ۔ او ربھابھی کو اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ہمارے لئے اتنی ہی رات کو گرم گرم کھانا پکاتیں۔ جلد بازی میں پکائی ہوئی ان کے ہاتھ کی وہ موٹی موٹی اور جلی ہوئی روٹیوں کا ذائقہ آج بھی ہونٹوں کے آس پاس ہی محسوس ہوتا ہے یہ چندا ماموں اور بھابھی کا ہی خلوص تھا کہ ہم لوگ دو چار مہینوں میں یہ عمل اکثر دوہرا لیا کرتے تھے ۔ ‘‘ ارجمند بانو کو شاعری کا شوق دوران طالب علمی سے ہی رہا ہے ۔ افشاں ؔ تخلص رکھا ۔ حالانکہ ابھی تک کوئی مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا ۔ لیکن اپنے عہد کی شاعرات میں ایک مفرد مقام قائم کرنے میں کامیاب ہیں ۔محض ۱۸ سال کی عمر میں آل انڈیا ریڈیو بھوپال میں منعقد مشاعرے میں پہلی دفعہ شرکت کی اس کے بعد عرصۂ درازتک ان کی نظمیں اور غزلیں نثر ہو کر داد و تحسین حاصل کرتی رہی ہیں ۔ ہندوستان کی مختلف درس گاہوں اور ادبی تنظیموں میں منعقد ہونے والی ادبی نشستوں میں بڑے احترام سے مدعو کی جاتی ہیں ۔ اب تک مختلف موضوعات پر ۵۰ سے زیادہ مقالے تحریر کر چکی ہیں جو مختلف جرائد میں شائع بھی ہوئے ہیں ۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’’ہر کامیاب مرد کے پیچھے کے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ‘‘ ۔ لیکن جب کبھی ارجمند بانو کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا تذکرہ قلمبند کیا جائے گا تو ان کے شوہر محترم اظہار رسول صاحب کا ذکر کئے بنا وہ تذکرہ مکمل نہیں ہو سکے گا کیونکہ ارجمند بانو کو اس مقام تک پہنچانے میں اظہار رسول صاحب نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔دونوں میں خوب قربت اور آپسی ہم آہنگی ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ دونوں کا ساتھ ہمیشہ قائم رکھے اور ہماری استاد محترمہ ارجمند بانو صاحبہ کی عمر دراز فرمائے اور ان کا سایہ تا دیر ہمارے سروں پر قائم رکھے ۔ آمین ۔ میری یہ دیرینہ خواہش تھی کہ میں اپنی استاد محترمہ ارجمند بانو افشاں ؔ صاحبہ پر ایک تفصیلی مضمون قلمبند کروں شاید اسی طرح کچھ حقِ شاگردی ادا ہو سکے مگر جس طرح انسان اپنے والدین کا حق ادا نہیں کر سکتا اسی طرح استاد کا بھی حق ادا نہیں ہو سکتا۔
’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘
+919827229383

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا