ڈاکٹر شریف احمد قریشی
شعریات و جمالیات کے صاف ستھرے ذوق سے آراستہ ڈاکٹر شاکر حسین اصلاحی ایک عرصہ سے صدرِ شعبہء اُردو کی حیثیت سے مرادآباد مسلم ڈگری کالج، مراد آباد میں درس و تدریس کے فرائض بہ حسن و خوبی انجام دے رہے ہیں ۔ وہ حد درجہ حلیم الطبع، خوش گفتار، خوش کردار حساس اور نفاست پسند انسان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کا بیشتر کلام شریف النفسی ، خوش اخلاقی، خوش مذاقی اور انسانی اقدار کا آئینہ دار ہے ۔ان کے یہاں تندی اور تیزی کے بجائے شایستگی شگفتگی اور جدت طرازی کی جلوہ نمائی جابجا نظر آتی ہے۔ ان کے چند منتخب غزلیہ اشعار کے مطالعہ سے واضح ہے کہ وہ غزل کے میدان کارزار میں روایت کا احترام کرتے ہوئے جدید شعری آہنگ اور منفرد لب و لہجے کی سمت بڑی تیزی سے گامزن ہیں۔ اُن کے اسلوب و انداز اور تیور کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ غزل کو روایتی پیرا ہن سےاور نئے ملبوسات سے سجانے اور سنوارنے کا کام نہایت انہماک و اہتمام سے کر رہے ہیں ۔ ان کے یہاں جدید شعری افکار اور نئے رجحانات کے ساتھ روایت کی دل کش اور حسن آفریں جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے کہ اُن کے درج ذیل اشعار روایت کے اثباتی آثار اور جدیدیت کے خوش گوارا امتزاج کا عمدہ نمونہ قرار دیے جاسکتے ہیں۔
کچھ نئے غم ہیں غم شناس نہیں
دکھ تو یہ ہے کہ تو بھی پاس نہیں
کیسی ہلچل مچی ہے دریا میں
دل کی حسرت نکال آیا ہوں
نام لکھ کر تمہارا پانی پر
ایک کنکر اُچھال آیا ہوں
قفل ِغیرت پڑا تھا ہونٹوں پر
ہم کسی سے سوال کیا کرتے
تمہاری یاد کو ہم نے بسا لیا دل میں
پھر اس کے بعد کبھی ہچکیاں نہیں آئیں
یزید ِوقت سے بیعت کبھی نہ کی ہم نے
ہمیشہ دیتے رہے ہم سروں کے نذرانے
جب بھی نکلا تلاش میں تیری
تو نے خود میری رہنمائی کی
جان کر عالی جاہ خود کو ہم
کر رہے ہیں تباہ خود کو ہم
اپنی پہچان بھی نہیں اب یاد
ایسے بھولے ہیں آہ ! خود کو ہم
ہر ایک شخص سے ہم حالِ دل نہیں کہتے
بس آپ ہی سے غمِ دل سنائے جاتے ہیں
عجیب بھول بھلیاں سی تیری یادیں ہیں
طواف ان کا میں کرتا ہوں لوٹ آتا ہوں
ہنسی آتی نہیں ہر بات پر اب
مرے اندر کا بچہ مر گیا ہے
ڈاکٹر شاکر حسین اصلاحی ایک باشعور ذہین اور حساس شاعر ہیں۔ وہ اپنے اردگرد کے حالات و مسائل اور زندگی کے ہر رنگ کا نہایت گہرائی سے مشاہدہ بھی کرتے ہیں اور ان سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے تجربات و احساسات اور مشاہدات کو راست بیانی سے نظم کرنے کے قائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عصبیت و کشیدگی محرومی و نامرادی، بے مروتی و کج روی ظلم و تشدد، بربریت و تیزابیت بغض وحسد، دہرے کردار اور زمانے کی نیرنگی کی واضع تصاویر نہایت چابک دستی سے پیش کی ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔ ایسا لگتا ہے یہاں کوئی نہیں ہے ملاحظہ فرمائیے
وہ ایک لمحہ جو عرفانِ ذات ٹھہرا ہے
ہم اس سے عشق کا دامن سجائے جاتے ہیں
ایسا لگتا ہے یہاں کوئی نہیں ہے محفوظ
حاکم ِوقت نے انداز ستم بدلا ہے
ورنہ کھیلتے ہوئے گلابوں پر
کون تیزاب ڈال سکتا ہے
اک طرف موت ہے مقدر میں
اک طرف زندگی نمایاں ہے
اک طرف بے کسوں کی چھٹیں ہیں
اک طرف جشن ہے چراغاں ہے
کسے پکاروں میں اس شہر بے مروت میں
تمہارے بعد کوئی دوسرانہیں ملتا
کوئی سایہ ہے جو مرے ہمراہ
لاش اپنی اٹھائے پھرتا ہے
ساحل پر تیرتا ہوا جس کا لہو ملا
وہ چیخ تھی جو گیر سمندر نگل گیا
کسی کی آنکھیں ابھی منتظر ہیں خوابوں کی
کسی کی آنکھوں میں موتی سجائے جاتے ہیں
وہ سامنے تھا تو ہر سانس اپنی روشن تھی
پھر اس کے بعد چراغوں نے خودکشی کر لی
ڈاکٹر شاکر حسین اصلاحی کی شعری کائنات کا خمیر جن شعری استعاروں حسی پیکروں اور مخصوص لفظیات سے اٹھا ہے ان میں سورج، شام، چراغ رات ، شب، شعلہ ، کرن ، ظلمت، اجالا، روشنی، تاریکی ، خون ،لہو، شیشہ ، پتھر صبح ، ستاره، دھوپ، چنگاری وغیرہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے کلام میں مذکورہ لفظیات یوں ہی نہیں در آئی ہیں بلکہ گہری معنویت کے ساتھ ان کے دردوکرب، تلخ حقائق ،جگر خراش تجربات اور نظریات و افکار کی بھی غمازی و عکاس ہیں۔ برائے ملاحظہ پیش نظر میں چند اشعار
یہ چیر ڈالے گی سینے کو ظلمت شب کے
نئی نئی سی کرن صبح کے اجالے کی
ایسی لیے تو حقارت سے دیکھتا ہے ہمیں
ہر ایک پل جو تجھے دستیاب رہتے ہیں
اندھیری شب میں ستاروں کو راہ دکھلائیں
ہم اپنے جسم کو شعلوں کی نذر کر آئیں
تھک کے ہارے ہوئے اجالوں کو
ہم کہاں روشنی سمجھتے ہیں
بجھ رہے ہیں چراغ جذبوں کے
اس کا لہجہ بدل گیا شاید
رات کالی ہے ڈر نہ جائے وہ
آؤ سورج اٹھا کے لا ئیں ہم
ایسا لگتا ہے اب کے شیشے کی
ضرب کاری لگی ہے گھر پر
دھوپ میں ایسی چنگاریاں آگئیں
آج سورج کا جیسے بدن جل گیا
جنہیں تراش کے سورج بنا سکو شاگر
جو کر سکو تو وہ تاریکیاں تلاش کرو
ڈاکٹر شاکر حسین اصلاحی کے یہاں لفظ پسندی ولفظ آرائی کا رجحان واضح طور پر نظر آتا ہے۔ انہوں نے نئی تراکیب و نئ علامتیں بھی وضع کی ہیں اور روایتی یا فرسودہ لفظیات سے بڑی حد تک اجتناب بھی برتا ہے۔ انہوں نے اپنے کلام کو جدیدیت و انفرادیت سے ہم کنارکرنے کے لیے چراغوں کے جنازے، ادھ جلے خواب ، رزق دیدار ، رشتوں کی زنجیر، آنکھوں کے قمقمے منتوں کا سکوت ، روشنی کا حصار شکستہ وجود، گیلے سوال اور حصارِ جسم جیسےالفاظ مرکبات و علائم کا استعمال نہایت خوبی بر جستگی اور صفائی سے کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ۔
شام ڈھلتی ہے اسے کیجئے رخصت شاکر
رات آئے گی چراغوں کے جنازے لے کر
ہے اچٹتی ہوئی سی نیند تو پھر
ادھ جلے خواب ہی عطا کر دے
فاقہ کش کب سے ہیں مری آنکھیں
رزق دیداران کو آ کر دے
ہے جو رشتہ کچے دھاگوں سے کلائی پر بندھا
یہ سبھی رشتوں کی ہر زنجیر سے مضبوط ہے
اپنی آنکھوں کے قمقمے کوئی
ایک پتھر پہ پھوڑ آیا ہے
مدتوں کا سکوت ٹوٹ گیا
آج پھوٹیں صدائیں پتھر سے
بات سننا ہے ہے گر اند ھیروں کی
روشنی کے حصار سے نکلو
اکتا گیا جب اپنے شکستہ وجود سے
پھر میں حصار جسم سے باہر نکل گیا
ایک بیوہ کی آنکھ کا آنسو
کتنے گیلے سوال چھوڑ گیا
ڈوبنے والا اب بھی شاید زندہ ہو
اس امید پہ شور مچایا جا سکتا ہے
جذ بہ ء عشق کو اعلیٰ وارفع تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کائنات کا وجودی محبت کی کارفرمائی کے سبب ہوا ہے۔ جس طرح کی حدود کا تعین نہیں کیا جا سکتا اسی طرح عشق کی وسعتیں بھی بے حد بے حساب ہیں ۔ میر تقی میر نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ۔
عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق
یہی وجہ ہے کہ روایتی موضوع ہونے کے باجود اُردو غزل کا شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہوگا جس نے عشق و محبت کے موضوع پر چند اشعار موزوں نہ کیے ہوں۔ ڈاکٹر شاکر حسین اصلاحی نے روایتی اظہاریہ سے اجتناب برتتے ہوئے عشق کی کارفرمائیوں حسن کی جلوہ سامانیوں اور واردات قلب کو انسانی نارسائی اور عذابِ آگہی سے آمیز کرکے وسعت عطا کرنے کی قابل قدر سعی کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ان کے درج ذیل اشعار ایک ذی ہوش و با شعور انسان کو فریب ِآگہی کی حسین وادی سے نکال کر عذابِ آگہی کے کھنڈر میں محصور سا کر دیتے ہیں
شیشۂ دل پہ آج پھر اس نے
اپنی آنکھوں سے سنگ باری کی
اس ادا پر بھی ہم نثار ہوئے
اس ادا سے بھی ہم نے یاری کی
کوئی آیا تو ہے خیالوں میں
خشک آنکھوں سے خون ٹپکتا ہے
اب بھی لوبان سا سلگتا ہے
تیری یادوں کا اس مکان میں کچھ
ہجر میں یوں ہوا کہ دونوں کے
سگریٹوں کی طرح بدن سلگے
یہ بھی شاکر جنوں کی ہے معراج
ول کی چیخیں سنائی دیتی ہیں
مل رہی ہے ندی سمندر سے
دونوں لگتا ہے رونے والے ہیں
ایسا بدلا مزاج موسم کا
پھول پتھر کے ہونے والے ہیں
یہ کہا اس نے سسکیاں لے کر
اب ملاقات ہو نہیں سکتی
میرا نمبر ڈیلیٹ کر دینا
پھر کبھی بات ہو نہیں سکتی
گہری نیندیں ہیں روٹھی روٹھی سی
پھانس کیوں مجھے رہی ہے سانسوں میں
کوئی جگنو تمہاری یادوں کا
کیوں بھٹکتا ہے میری راتوں میں
ڈاکٹر شاکر حسین اصلاحی دقیق الفاظ پیچید و استعارات ، گنجلک علائم اور دوراز کار تشبیہات سے شعوری طور پر اجتناب برتے ہیں۔ وہ اگر چہ دنیائے شاعری کی اولین منزلوں میں گامزن ہیں مگر نہایت غور و فکر کے بعد اپنے خیالات و مقلب جذبات ، موجودہ حالات و رجحانات اور عصری حسیت کو اس قدر چابک دستی سے اشعار کے پیکر میں ڈھالتے ہیں کہ کہیں بھی نو مشقی یا مبدیت اور سطحیت کا شائبہ نہیں ہوتا ہے اگر وہ کسی طرح خون جگر صرف کر کے مشق سخن کرتے رہتے ہیں تو دنیائے شعر و سخن میں بہت جلدی اپنی شناخت کو مستحکم کر لیں گے
ڈاکٹر شاکر حسین اصلاحی کے یہ اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
فریب جس نے دیا ہے اسی سے ہم شاکر
گلے لگا کے محبت سے بات کرتے ہیں
وقت پر کام نہ آئے تو رفاقت کیسی
وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے
تمہاری طرزِ جفا پر میں خود ہی نادم ہوں
خدا کرے کہ ملاقات اب نہ ہو تم سے
خدارا اپنی جلوہ ریزیوں سے
مرے سارے اندھیرے جگمگا دو
بدن کی قید سے اکتا گیا ہے دل اس کا
ہمیں بھی جسم میں اپنے گھٹن سی ہوتی ہے
کچھ آنسوؤں کوکوزہءدل میں سمیٹ کر
رکھاّ ہے میں نے دیدہء نمناک سے الگ
ترے خیال کی دہلیز پر کہیں رکھ کر
میں اپنے آپ کو ہر روز بھول جاتا ہوں
دل کا شیشہ ٹوٹ کے بکھرا ہے شاید
تب ہی بے ترتیب اجالا لگتا ہے
زندگی ِاس کو سمجھ لے جو ملا ہے اک پل
جان جاں پھر میں میسر نہیں ہونے والا
9027257007