’’دور حاضر میں بحیثیت مسلمانوں کے حالات مجمو عی طور پر بہت ابتر ہو چکے ہیں ‘‘

0
0

قیصر محمود عراقی

دنیا میں آنے کے بعد خالقِ کائنات کی مصلحت کو فراموش کر کے انسان آج اس عارضی زندگی اور فانی دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے ۔ اس سوچ اور نظریہ نے ایک طرف تو اسے اسلامی تعلیمات سے دور کر دیا ہے تو دوسری جا نب و ہ باطل قوتوں کے ہاتھ کا کھلونا بلکہ کٹھ پُتلی بن کر رہ گیا ہے ، جس کی وجہ سے آج اسلامی معاشرہ اپنی حقیقی روح سے مطابقت نہیں رکھتا اور اس دور نگی کی وجہ سے دیگر ادیان سے تعلق رکھنے و الے اسلام کی حقیقی شکل بھی سمجھ نہیں پا رہے کیونکہ غیر مسلموں کے نزدیک اسلام وہ نہیں جو قرآن و حدیث کی شکل میں موجود ہے بلکہ وہ تو مسلمانوں کے کر دارِ عمل اور دینی تعلیمات کے خودان پر اطلاق کو ہی اسلام سمجھتے ہیں ۔ قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جا ئے تو بخوبی علم ہو تا ہے کہ ایک مثالی مسلمان کا نقشہ اور نمو نہ کیا ہو تا ہے ۔ با لخصوص سورہ مومنون کی ابتدائی آیات مبارکہ میں مثالی مسلمان کی پوری طرح منظر کشی کی گئی ہے ، ہمارے پیارے نبی ﷺ کی حیات مبارکہ بھی ان ہی آیات کی تفسیر ہے اور ان آیات کے حوالے سے ایک حدیث میں اس معیار پر پورا کر نے والے مسلمان کے لئے جنت کی بشارت دی گئی ہے ۔ یہاں ہر بات بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ صحیح معنوں میں حقیقی و مثالی مسلمان وہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ہاں پسندیدہ ہو نے کے ساتھ ساتھ معاشرہ کا مفید شہری بھی ہو ، یہ ہدایت اس لئے بھی کی گئی کہ ابہام کا کوئی اندیشہ با قی نہ رہے مگر افسوس کہ ہم اس کھُلی ہدایت کے با وجود گمراہی کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں ۔
دورِ حاضر میں بحیثیت مسلمانوں کے حالات مجموعی طور پر بہت ابتر ہو چکے ہیں ، ہم خود کو مسلمان کہلا تے اور حق و توحید کا نعرہ بلند کر تے ہو ئے عملاً با طل کی پیروی اور غیر اللہ کے حضور ناصیہِ فرسائی سے با ز نہیں آتے ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف دعوت دیتے ہیں مگر خود سینکڑوں اوہام و خرافات ، رسوم و روایات کے اسیر ہیں ، حرام و حلال کی تمیز اُٹھ گئی ہے ، اخلاق و معاشرت میں فساد بر پا ہے اور جن برائیوں کا دنیا میں وجود تصور ہے وہ سب ہمارے درمیان پھول پھل رہی ہیں ۔ اسلامی تعلیمات میں جن اُمور کی نشاندہی کی جا تی ہے ان میں اولین تو مسلمان کا اپنے رب سے تعلق ہے اس کے بعد اپنے نفس سے بعد ازاں اس کا تعلق اپنے والدین سے ہے اس کے بعد بالتر تیب اپنی بیوی ، اولاد ، عزیز و اقارب ، پڑوسیوں ، بھائیوں ، دوستوں اور معاشرے سے تعلق ہے ، یہاں اگر کوئی مو من ایک پہلو سے بھی صرف نظر کر تا ہے تو وہ مکمل اور مثالی مسلمان کے معیار پر پورا نہیں اُتر تا ، یعنی ایک مسلمان اگر نماز پنجگانہ کا پابند ہے تمام دینی اُمور سر انجام دے رہا ہے مگر اپنے والدین سے اس کا سلوک بہتر نہیں تو وہ اس کسوٹی پر پورا نہیں اُتر تا اور اگر ایک مومن عبادات کا تو بروقت اہتمام کر تا ہے مگر اپنی اولاد، بیوی ، پڑوسیوں یا بھائیو ں سے بہتر سلوک نہیں کر تا یا قطع رحمی کا مظاہرہ کر تا ہے تو وہ بھی مثالی مسلمان کے پیما نے میں نہیں سما سکتا اور اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نا فرمانی کا مر تکب ہو رہا ہے ، حیرت کی بات تو یہ کہ آج اس حوالہ سے زیادہ غفلت کے مر تکب وہ ہی افراد واشخاص ہو رہے ہیں جو اسلام کی دعوت و تبلیغ سے وابستہ اور جن کا کردار دوسروں کے لئے مشعل راہ ہو نا چاہئے ۔
افسوس صد افسوس کہ ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو پش پشت ڈال کر محض بظاہری نفع کے لئے دونوں جہانوں کی برائی اور گمراہی مول لے رہے ہیں اور اس پر نا دم بھی نہیں ۔ ان حالات میں ہمارے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ معاشرہ میں رہتے ہو ئے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا لا زمی ہے ، ان میں والدین ، اولاد ، رشتہ دار ، خاوند ، شاگرد ، ہمسائے اور دوست و احباب کے حقوق شامل ہیں ۔ جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو گا وہ ان حقوق کو ادا کر نے کی ہر ممکن کو شش کر ے گا کیونکہ تقویٰ ہر نیکی کی اصل ہے دوسرا کام یہ ہے کہ اگر بشری تقاضے کے مطابق کسی انسان سے کوئی برائی سر زد ہو جا تی ہے تو اس برائی کے فوری بعد کوئی نیکی کرے ، اس کی اس نیکی کے سبب اللہ تعالیٰ اس کی گناہ معاف کر دیگا۔ اللہ کا فیصلہ ہے کہ نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہے ، غلطی یا برائی انسان سے سر زد ہو جا تی ہے ، اگر وہ اس کے بعد اپنی کی ہو ئی برائی پر نا دم ہو ا اور کوئی نیکی کرے تو اس نیکی کی بر کت سے اس کے گناہ ختم ہو جا تے ہیں ، بلکہ بعض اوقات تو اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو معاف کر نے کے علاوہ نیکیوں میں بدل دیتا ہے ، لیکن توبہ کی امید پر اور بعد میں نیکی کے خیال سے برائی نہ کی جا ئے۔ ہو سکتا ہے موت مہلت نہ دے ، تیسرا کام لوگوں سے اچھے اخلاق کا مظاہرہ کر نا ہے ، یہ کام انسان کی عزت میں اضافے کا سبب بنتا ہے ۔
لہذا بد اخلاقی کو چھوڑ کر لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنے کی کو شش کی جا ئے اور تمام برائیوں کی جڑ جھو ٹ سے مکمل گریز و پر ہیز کیا جا ئے اور ہر معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت اور اسلامی حدود کی پابندی کریں ۔ اگر ہم دوسروں کو ایسے نظریات و عقائد اصول و اعتقاد ، آداب معاشرت ، ضوابط، سیاست اور ایسے اخلاق و کردار کی دعوت دیتے ہیں جن سے خود ہماری اپنی زندگیاں یکسر عاری ہیں تو سوچیں کہ ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزار تے ہو ئے ہم خود کو صحیح معنوں میں مثالی مسلمان بنا سکتے ہیں اور یقینا جو بھی اس پر عمل کریں و ہی لوگ دنیا میں انقلاب کا با عث بن سکتے ہیں ورنہ جو خود اپنے آپ پر کنٹرول نہیں رکھتے ، جو خود اپنی ذات پر اللہ تعالیٰ کی حکومت قائم نہیں کر سکتے وہ اور کیا کرینگے ، وہ کیسے دنیا میں حق کا پیغام پہنچا ئینگے اور کس طرح دوسروں کو دین حق کی طرف راغب کرینگے کیونکہ یہود و نصاری کی سازشوں کے جال میں پھنس کر خود کو دنیا کے مکر و فریب میں رنگ لینے کے بعد آج مسلم و غیر مسلم میں بہت کم فرق باقی رہ گیا ہے جو کہ بحیثیت مسلمان ہمارے لئے لمحہ فکر یہ ہے ۔
6291697668

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا