ڈاکٹر سراج الدین ندوی
ملازموں اور نوکروں کے ساتھ حسنِ سلوک کیجئے۔ ان کے جذبات کا خیال رکھئے۔ شائستہ لب ولہجہ میں ان کے ساتھ گفتگو کیجئے۔ کبھی بھی کرخت لب ولہجہ اور نارواسلوک نہ کیجئے۔یہ بات یا درکھئے کہ اب غلام نہیں ہوتے ہیں۔ اسلام کا ایک بڑا احسان یہ بھی ہے کہ اس نے بڑی حکمت اور تدریج کے ساتھ معاشرہ سے غلامی کا خاتمہ کردیا۔ احادیث میں جہاں بھی ان کے حقوق وفرائض کا تذکرہ آئے اسے آج کل کے مزدوروں ،ماتحتوں ،ملازموں اور نوکروں پر منطبق کرنا چاہیے۔اسلام اس ضمن میں درج ذیل ہدایات دیتا ہے۔
اگرآپ نے کسی کو ملازم رکھا ہے یا کوئی مزدور آپ کے یہاں کام کررہاہے تو اس کی تنخواہ یا مزدوری دینے میں کسی ٹال مٹول یا تاخیر سے کام نہ لیجئے۔ جو شخص خون پسینہ ایک کرکے اپنے جسم کو آپ کے لیے گھلا رہا ہے اس کا حق ادا کرنے میں کوتاہی کرنا بہت بڑاظلم ہے۔کام پورا ہونے پر یا وقت مکمل ہوجانے پر فوراًمعاوضہ کی ادائیگی کردیجئے۔
نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ مزدور کاپسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری اسے دے دو۔(ابن ماجہ)
کسی ملازم یا مزدور سے کام لینا اور وقت پر اسے اجرت نہ دینا یا کم اجرت دینا یا کوئی بہانہ بناکر اس کی نوکری یا مزدوری سے پیسہ کاٹ لینایا اسے موقع دیے بغیر نوکری سے ہٹادینا بدترین قسم کا گناہ ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا:’’قیامت کے دن میں تین آدمیوں کا دشمن ہوں گا اور جس کا میں دشمن ہوں گا اس پر میں قیامت کے دن غالب آئوں گا:(۱) وہ شخص جس نے میرا نام لے کر عہد کیا اور پھر اس کو توڑ ڈالا۔(۲) وہ شخص جس نے کسی آزاد شخص کو بیچ ڈالا او ر اس کی قیمت کھائی۔(۳) وہ شخص جس نے کسی کو مزدوری پر رکھا، اس سے پورا کام لیا مگر اس کی مزدوری نہ دی۔
حضرت انسؓ ایک طویل عرصے تک آنحضور ﷺکے خادم رہے۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے سفر وحضر میں آپؐ کی خدمت کی(اور اس تمام مدت میں) اگر میں نے کوئی کام کیا تو آپؐ نے اس کے بارے میں کبھی یہ نہیںفرمایا کہ یہ کام تو نے ایسے کیوں کیا اور اگر میں نے کوئی کام نہ کیا تو آپؐ نے اس کے بارے میں کبھی یہ نہ فرمایا کہ یہ کام تو نے ایسے کیوں نہیں کیا۔(بخاری)
اگر نوکر یا مزدور سے کوئی غلطی ہوجائے یا وہ آپ کی بات کو نہ سمجھ سکے اور آپ کے حکم کو نہ بجالائے تو اس کو معاف کردیجئے۔ وہ بھی آپ کی طرح انسان ہے۔اس سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔حتی الامکان اس کی غلطی کو نظر انداز کیجئے۔ عفو ودرگزر سے کام لیجئے اور اسے سزا دینے سے اجتناب کیجئے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ میں خادم کو کتنی بار معاف کیا کروں؟ آپؐ نے فرمایا:’’ہر روز ستر مرتبہ۔‘‘(ترمذی)
رافع بن مکیثؓ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا (باعث) برکت ہے اور بدخلقی (باعث) نحوست ہے۔(ابودائود)
نوکروں اور ملازموں سے ان کی طاقت اور صلاحیت کے مطابق کام لیجئے۔ ان کی استعداد سے زیادہ کام لینا ان پر بہت بڑی زیادتی ہے۔ ان سے اگر کھانے پینے اور کپڑے کی شرائط بھی طے ہوئی ہیں تو انہیں وہی کھلائیے جو آپ خود کھاتے ہیں۔ ویسا ہی انہیں پہنائیے جیسا آپ پہنتے ہیں۔
حضرت معرورؓ بن سوید بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ ایک جوڑا پہنے ہوئے تھے اور آپ کا غلام بھی ویسا ہی جوڑا پہنے ہوئے تھا۔ میں نے آپؓ سے اس کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺکے عہد میں ایک شخص کو(جوغلام تھا) گالی دی اور اسے ماں سے عار دلائی۔ وہ شخص رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور حضور ﷺکو یہ بات بتائی۔ اس پر حضور ﷺنے فرمایا:(اے ابوذر) تو ایسا شخص ہے جس میں (ابھی) جاہلیت (کا اثر باقی) ہے۔ یہ غلام تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے مملوک ہیں۔ اللہ نے انہیں تمہارے زیر دست کردیا ہے پس جس شخص کا بھائی اس کے زیر دست ہواسے چاہیے کہ جو خود کھائے وہی اسے کھلائے اور جو خود پہنے وہی اسے پہنائے اور تم لوگ انہیں ایسے کاموں پر مجبور نہ کرو جو اُن پر شاق ہوں اور اگر تمہیں انہیںکسی ایسے کام پر مجبور کرنا ہی پڑے تو پھر اس کام میں خود ان کی مدد کرو۔(مسلم)
اگر آپ نے کسی خادم یا خادمہ سے کھانا بنوایا ہے تو اسے بھی اپنے ساتھ کھلائیے اس میں کوئی عار محسو س نہ کیجئے بلکہ اسے اپنے لیے باعث خیر وبرکت سمجھئے۔حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺنے فرمایا کہ جب تمہارا کوئی خادم مالک کے لیے کھانا تیار کرکے لائے اور مالک خادم کو اپنا کھانا (خود) تیار کرنے اورگرمی اور دھوئیں کی تکلیف اٹھانے سے بچانا چاہے تو اُس (مالک ) کو چاہیے کہ خادم کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ(کھانے پر) بٹھالے۔ پھر اگر اسے انکار ہو تو (مالک) کو چاہیے کہ ایک لقمہ ہی لے کر اُسے کھلادے۔(ترمذی)
نوکروں اور ملازموں کو عزت دیجئے۔ انہیں ہرگز اپنے سے حقیر نہ سمجھئے۔ سماجی اور معاشی طور پر انہیں اونچا اٹھانے کی کوشش کیجئے۔ ایسے مواقع فراہم کیجئے کہ نوکر اور ملازم بھی خوشحال بن سکیں اوروہ سماج میں باوقار زندگی گزار سکیں۔اسلام نے غلاموںکو عزت ورفعت بخش کر یہ تعلیم دی ہے کہ نوکروں ،ملازموں ،زیردستوںاورپسماندہ افراد اور قوموں کو وقعت عطا کرکے انہیں سماج میں لایا جائے۔
نوکروں ،ملازموں، مزدوروں کے ساتھ سخت رویہ نہ اپنائیے۔ سخت اور ترش باتوں سے پرہیز کیجئے۔انہیں مارنے ،سزادینے اور ان پر سختی کرنے سے اجتناب کیجئے۔حضرت ابو مسعود انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے غلام کو ماررہا تھا کہ میں نے اپنے پیچھے سے ایک آواز سنی کہ اے ابومسعود ! جان لے کہ جتنی قدرت تجھے اس غلام پر حاصل ہے خدا کو اس سے زیادہ قدرت تجھ پر حاصل ہے۔ میںنے مڑکر دیکھا تو رسول اللہ ﷺتھے۔ میںنے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! یہ اللہ تعالیٰ کے لیے آزاد ہے۔ اس پر حضور ﷺنے فرمایا کہ اگر تو ایسا نہ کرتاتو(جہنم) کی آگ تجھے جلادیتی یا آپؐ نے یوں فرمایا کہ (جہنم کی) آگ تجھے چھولیتی ۔(مسلم) حضرت ابو بکر صدیق ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اپنے غلاموں اور کنیزوں سے برا سلوک کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔(مشکوٰۃ)
کوئی ملازم یا مزدور اگر کسی وجہ سے اپنی تنخواہ اجرت نہ لے جاسکے تو اس کو حفاظت سے رکھئے۔ جب کبھی مزدور یا ملازم اپنا حق لینے آئے تو اسے خوشی خوشی دے دیجئے۔ اس سلسلہ میں احادیث میں ایک بڑا سبق آموز واقعہ ہمیںملتا ہے۔اسے یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتاہے۔ آنحضورﷺ نے یہ واقعہ یوں بیان کیاہے۔
’’تم سے پہلے تین آدمی تھے۔وہ ایک سفر کے لیے نکلے۔ رات گزارنے کے لیے انہیں ایک غار میں پناہ لینا پڑی۔ جب وہ غار میں داخل ہوئے تو پہاڑ کے اوپر سے ایک چٹان لڑھکی اور دروازہ پر آکر رُک گئی جس کی وجہ سے دروازہ بند ہوگیا۔ انہوںنے پریشان ہوکر کافی غور وفکرکے بعد کہا کہ اپنے نیک عمل کے توسط سے اپنے لیے نجات کی دعا کرنی چاہیے کیونکہ ہماری نجات کا اب صرف یہی ایک راستہ ہے۔چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا:
’’اے خدا! میرے والدین بوڑھے تھے اور میرا یہ معمول تھا کہ میں اپنی بکریوں کا دودھ ان سے پہلے کسی کو نہیں پلاتا تھا ، نہ اپنے بال بچوں کو اور نہ ہی غلام ، باندی کو۔ ایک روز جب میں اپنی بکریاں چرانے لے گیا تو چارہ کی تلاش میں بہت دور نکل گیا جس کی وجہ سے واپسی میں مجھے دیر ہوگئی۔ چنانچہ جب گھر واپس آیا تو والدین سوچکے تھے۔میں نے دودھ دوہا، مگر یہ پسند نہ کیا کہ والدین سے پہلے کسی کو پلائوں اس لیے میںہاتھ میںپیالہ لیے وہیں کھڑا رہا تاکہ ان کے بیدار ہونے پر دودھ ان کو پیش کردوں۔میرے بچے میرے پائوں کے پاس بھوک کی شدت سے رو رو کر بے حال ہورہے تھے مگر میں نے یہ فیصلہ کررکھاتھا کہ ان کی بیداری سے پہلے کسی کو دودھ نہیں پلائوں گا۔میں ان کے بیدار ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ جب وہ بیدار ہوگئے تو میں نے ان کو دودھ پیش کیا۔ اے خدا اگر میں نے یہ کام صرف تیری رضا کے لیے کیا ہو تو اس چٹان کی وجہ سے جو مصیبت ہمارے اوپر آئی ہے اس کو دور فرمادے۔‘‘ اس کے بعد غار کے منھ سے چٹان تھوڑی سی کھسک گئی مگر وہ اس سے نکل نہیں سکتے تھے اب دوسرے نے دعاکی:
’’اے اللہ میری ایک چچا زاد بہن تھی جو مجھے بہت محبوب تھی۔ایک مرد عورت سے جتنی زیادہ محبت کرسکتا ہے اتنی ہی محبت مجھے اس سے تھی۔ چنانچہ میںنے اس سے لطف اندوز ہونے کا ارادہ کرلیا مگر اس نے انکار کردیا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ وہ خشک سالی کا شکارہوگئی۔ وہ دستِ سوال دراز کرتے ہوئے میرے پاس آئی۔ میںنے اس شرط کے ساتھ اس کو 120دینا ردینے کا وعدہ کرلیا کہ وہ اپنے آپ کو میری خواہش نفس کی تکمیل کے لیے میرے حوالے کردے۔ اس شرط پر اس نے رضا مندی ظاہر کردی۔ میں نے 120دینار اس کو دے دیے۔ اس نے اپنے وجود کو میرے حوالے کردیا۔ اس کے بعد میں پوری طرح تیار ہوگیا۔ جب میں اس کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھا تو اس نے کہا کہ اللہ سے ڈرو اور پردۂ بکارت بغیر استحقاق کے نہ زائل کرو۔ ان الفاظ کے سنتے ہی میں اس سے الگ ہوگیا۔ حالانکہ وہ مجھے سب سے زیادہ پیاری تھی اور میں پوری طرح اس پر قادر تھا۔ اے خدا اگر میں نے یہ کام صرف تیری رضاکے لیے کیاہے تو ہم جس مصیبت میں گرفتار ہوگئے ہیں اس سے نجات دلادے۔‘‘چنانچہ چٹان تھوڑی سی اور کھسک گئی لیکن وہ اب بھی اس سے نکل نہیں سکتے تھے۔
اب تیسرے شخص نے اپنی دعا اس طرح شروع کی:
’’اے خدا! ایک بار میں نے کچھ مزدوروں کو اجرت پر رکھا۔ جب کام ختم ہوگیا تو میں نے ان کی مزدوری ان کے حوالے کردی۔البتہ ایک مزدور مزدوری لیے بغیر چلاگیا۔میںنے اس کی مزدوری کو کاروبار میں لگادیا۔ کاروبار بہت فائدہ بخش ثابت ہوا اور یہ معمولی سی مزدوری بڑھتے بڑھتے بہت بڑے سرمائے میں تبدیل ہوگئی۔ ایک مدت کے بعد وہ میرے پاس آیا اور اس نے اپنی مزدوری طلب کی۔ میں نے اس سے کہا: ’’تم جو یہ بکریاں ،گائیں اور غلام دیکھ رہے ہو ، سب تمہاری مزدوری ہے۔جائو یہ سب کچھ لے جائو‘‘۔ اس کو یقین نہ آیا۔اس نے سمجھا کہ میں مذاق کررہا ہوں۔ چنانچہ وہ بولا: ’’آپ مجھ سے مذاق نہ کریں۔ مجھے آپ صرف میری مزدوری دے دیں۔ میں اس وقت سخت ضرورت مند ہوں‘‘۔میں نے اس سے کہا کہ میں تم سے مذاق نہیں کررہا ہوں چنانچہ اس نے وہ سب مال ومتاع لے لیا اور کچھ نہیں چھوڑا۔ اے اللہ اگر میںنے یہ کام تیری رضا کے لیے کیا ہے تو اس مصیبت سے ہم کو نجات دے۔‘‘چنانچہ وہ چٹان مزید کھسکی اور غار کا منھ گھل گیا۔یہ تینوں مسافر باہر نکل آئے اور چلتے بنے۔(متفق علیہ)
آج کل مزدوروں کا استحصال ہورہا ہے ۔ان سے زیادہ کام لیاجاتا ہے ،ان کی اجرت وقت پر نہیں دی جاتی ،بڑی بڑی کمپنیاں چھٹنی کے نام پر ہزاروں مزدوروں کو نکال رہی ہیں ۔ایسے میں امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ مزدوروں کے حقوق ادا کریں اور ان کی بازیابی کے لیے مہم چلائیں۔
9897334419