ش۔شکیل
ہرانسان کی ایک لامحدود دنیا ہوتی ہے ‘اور وہ ہے سوچ کی دُنیا۔ جس میں وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔سوچ کی دُنیا میں چاہے تو تخریبی کام کر سکتا ہے چاہے تو تعمیری کام کرسکتا ہے۔جس سوچ پر جس درجہ توجہ مرکوز ہو جاتی ہے۔اُس سے وہ کام ہوتے جاتے ہیں۔ اُس کا اثر ہر ایک کی اپنی اپنی زندگی پر پڑتا ہے۔ جس سے اُس کی زندگی جنت یا جہنم بن جاتی ہے۔پھر وہ مرتے دم تک اُسی میں رہتا ہے۔سجاد اور نکہت کی زندگی بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ لیکن سوچ جیسے بدلتی ہے۔ ویسے اُن دونوں کی زندگی کبھی جنت بنتی تو کبھی جہنم بنتی۔تھی تو دونوں کی سوچ تعمیر ی ہی تھی۔ لیکن نکہت کی تعمیری سوچ میں سجاد کو تخریب نظر آتی تھی۔ اور یہ بات سچ بھی تھی ۔ نکہت اس سے انجان تھی۔ اس طرف سجاد نکہت کی توجہ مبذول کراتا‘ لیکن نکہت اُس تخریب کو نہیں سمجھتی جو مستقبل میں روپذیر ہونے والی ہے۔ جس کی وجہ سے سجاد کی سوچ کبھی منجمد ہوتی کبھی لامتناہی سمندر بن جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے غیر مرئی غم سے ہمہ وقت نبرد آزما ہوتارہتا تھا ۔آج بھی وہی غم سے سوچ میں ہاتھا پائی کر رہا رتھا۔اپنی ہی ذات میں اپنے آپ سے سوال جواب میں مگن تھا۔میری بیوی ایسا کیوں کرتی ہے؟ وہ ایسا کرکے کیا کرنا چاہتی ہے؟ میںتو صحیح کیا ہے ؟ اور غلط کیا ہے؟‘مستقبل میں اس کا کیا اثر ہوگا یہ کُھلی کتا ب کی طرح پڑھ کر سنایا ہوں‘پھر بھی اُس پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوا۔ایسا کیوں؟ دوسرے لوگوں کا کہا ہوا فورًا اُس پر اثر انداز ہوتا ہے ۔پھر میرا کہا کیوں بے اثر ہوتا ہے؟ کیا میر ے کہنے میں اخلاص نہیں ہے؟ نہیں ایسا ہو نہیں سکتا! میرے کہنے میں تو اخلاص کوٹ کوٹ کر بھرا ہے‘اور میرے کہنے میں اُس کی زندگی کے ساتھ میری اور دو بچوں بھلائی پوشیدہ ہے۔ پھر۔۔ پھرنکہت ایسا کیوں کر رہی ہے؟سجاّد کی سوچ جہاں سے شروع ہوئی تھی اُسی جگہ آکر منجمد ہو گئی۔سوچ کی دُنیا سے نکل کر شعوری دُنیا میں آیا تو اُسے احسا س ہوا وقت بہت گذر چکا ہے۔اب تک اُس کی بیوی جہاں گھریلو کا م کی نوکری کرتی ہے وہا ں سے اب تک لوٹ کر نہیں آئی تھی۔ سجاد کا بیٹا اور بیٹی انور اور روبینہ خاموش مجسم سوال بنے اپنے باپ کو دیکھ رہے تھے۔سجاد سمجھ گیا۔وہ روبینہ سے بولا۔ ’’ ارے روبینہ ذرا وہاں تو دیکھ آنا ‘جہاں تمہاری ماں کام کرتی ہے۔‘‘ اس پر روبینہ بولی۔’’ابا آپ کے کہنے سے پہلے ہی میں اب تک چار دفعہ جاکر پوچھ آئی ہوں۔وہ چڑ کر کہہ رہے ہیں اے لڑکی کتنی بار تجھے بولنا‘ آج تیری ماں ہمارے یہاں کام پر نہیں آئی ہے‘ہم ہی تیری ماں کا انتظار کر رہے ہیں‘ سارا کام جیسے کا ویسا پڑا ہے۔ جب تیری ماں جہاں گئی ہے وہاں سے آئی تو ہمارے یہاں کام کرنے کے لئے بھیج دے سمجھ گئی کیا؟‘‘سجاد باری باری بیٹے بیٹی کو دیکھا۔ پھر سے اُس کی سوچ کروٹ بدلی اور پھیلتی گئی۔سجاد اپنے آپ سے خیال میں کہہ رہا تھا۔’بے کار ہے!نکہت نہیں سُدھر نے والی ‘جانے دو اُس کے حال پر اُسے چھوڑتا ہوں‘ کیا عزت کیا ذلت ؟ کیا رشتے دار ؟کیا سماج؟کیا دوست احباب ؟جو کہنا ہے کہے نگے ‘اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے رہے نگے ۔ بیٹے اور بیٹی کی شادی کی بات چلے گی نوکرانی کا بیٹا ہے بیٹی ہے کرکے شادی بیاہ سے انکار کردے نگے تو تب نکہت کی سمجھ میں آئے گا۔نہیں اُس کی سمجھ میں نہیں آئے گا ۔ پھر آخر یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟کہیں تو روک جانا چاہئے!کئی لوگ دوسروں کی غلطیوں سے سبق لیتے ہیں سیکھتے ہیں۔ اچھا ئی اور بُرائی کی تمیز آتی ہے۔لیکن نکہت میں یہ تمیز نہیں آئی ایسا کیوں؟‘ پھر سے سجاد کی سوچ منجمد ہو گئی ۔اُس وقت دروازے پر ستک ہوئی۔ روبینہ در وازے کی طرف لپکی ۔دروازہ کھول کر سجاد سے کہی۔’’ابا امی آئی ہے ۔‘‘ سجاد عجلت سے دروازے کی طرف بڑھا۔ در وازے کے باہر اُس کی بیوی نکہت کے ساتھ اور ایک عورت اور آدمی کھڑے تھے۔عورت اور آدمی نے سجاد کو سلام کئے ۔سجاد سلام کا جواب دیتا ہوا ایک طرف ہو کر کہا۔’’آئیے آئیے اندر آئیے۔‘‘ انور اور روبینہ ماں کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے ۔سجاد کی سوالیہ نظر نکہت پر ٹکی ہوئی تھی۔ آدمی بولا ’’میرا نام رفیق ہے‘اور یہ میری بیوی شمیم ہے۔ میری بیوی اور آپ کی بیوی دونوں ایک دوسرے کو کافی عرصے سے جانتے ہیں۔ اکثر آپ کی بیوی ہمارے گھر آیا کرتی ہے۔ صبح آپ دونوں میں بحث و تکرار ہوئی ہے ۔آپ کی بیوی کو میں اور میری بیوی نے اچھی طرح سمجھا دیا ہے ۔‘‘اس پر عورت بولی۔ ’’ہاں بھائی جان۔۔اب باجی کہیں کام پر نہیں جائے نگی۔صرف اپنے گھر اور بچوں پر ہی دھیان دے نگی۔‘‘سجاد مجسم بنا صرف سُنتا رہا۔کچھ دیر دیگر باتیں بھی ہوئیں ۔جس میں سجاد صرف سامعین بنا تھا۔آدمی اور عورت چلے گئے۔دو تین مہینے تک نکہت ‘شوہر اور بچوں پر ساتھ ہی ہر طرح سے گھر پر توجہ مرکوز کئے رہی۔گھر کا ماحول پالنے میں جھول رہا تھا۔ہر طرف شادمانی اور نغمگی چھائی رہی۔پھر ایک دن نکہت دھیرے سے سجاد سے کہنے لگی۔’’کل شمیم باجی آئے تھے ‘کہہ رہے تھے ایک بنگلے میں کام ہے۔ زیادہ کچھ نہیں صرف دوچار گھنٹے کا کام ہے ‘مہینے کی پانچ ہزار تنخواہ دینے والے ہیں کیا میں کام پر جائوں؟‘‘سجاد نظریں اُٹھا کر نکہت کی طرف دیکھااور پوچھا وہی عورت نا؟جو اپنے شوہر کے ساتھ آئی تھی اور کہہ رہی تھی میں نے باجی کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے۔ اب وہ کام پر کبھی نہیں جائے نگی؟‘‘ اس پر نکہت بولی۔’’ وہی باجی بہت اچھے ہیں۔ اپنے بارے میں وہ ہمیشہ اچھا سوچتے ہیں۔‘‘ سجاد نکہت کو دھیان سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔ ’’جب اچھا سوچ رہی تھی یا اب اچھا سوچ رہی ہیں؟‘‘نکہت صرف مسکراتی رہی اُس سے کچھ جواب نہیں بن پڑا۔ مجسم تصویر بنی صرف سجاد کو دیکھتے رہی۔ نکہت کی نیت اور جذبے میں اخلاص تھا۔سجاد نکہت کے اخلا ص کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔لیکن رشتے جوڑتے وقت اس جذبے اور اخلاص کو سماج کے لوگ کہاں دیکھتے ہیں۔ظاہری چمک دمک کے سامنے اندرونی چمک دمک ماند پڑ جاتی ہے۔ اس سے سجاد اچھی طرح واقف تھا ۔شاید نکہت بھی اس سے واقف تھی۔ پھر سے سجاد اور نکہت پھیلتی منجمد ہوتی سوچ کے ساتھ کبھی پھیلتے کبھی منجمد ہوتے رہے۔
9529077971