ناظمہ پروین
دادا کا حقہ اک روز گڑگڑایا
ماضی کا قصہ مجھے سنایا
پرانی یاری دادا سے تیرے
وقت کاٹتےوہ ساتھ میرے
سجتی ساتھ مرے دوستوں کی محفل
نہ کوئی رسوانہ بے دل
ہوتا جب کبھی مشاعرہ
کوئلوں میں ملاتےکیوڑہ
غالب بھی میرے کش لگاتے
اقبال بھی دھواں اڑاتے
براتوں کا سواگت مجھ سے
پنچایت میں خاص میں ہوتا
تمباکو کی خوشبو فضا میں بکھرتی
شہر سے گاؤں تک میری چلتی
پرانے لوگوں کی شان تھا میں
دیوان خانے کی آن تھا میں
اب چپ رہنے میں ہی عافیت ہے
اس دور کی صاحبو یہ حقیقت ہے