الیکشن اور کرنسی کا کنکشن

0
99
شھاب مرزا
                                                     8483987595
                                                      الیکشن کمیشن نے انتخابات کا اعلان کیا یہ سبھی جانتے ہیں لیکن اصل الیکشن کمیشن نے ھندوستان کی سب سے بڑی بزنس ڈیل کا اعلان کیا ہے ہم آزاد جمہوریت کی بات کرتے ہیں لیکن یہ بات بھی ذہن نشین کریں گے ہماری جمہوریت اربوں کھربوں روپے میں لپٹی ہوئی ہے الیکشن اور کرنسی کا کنکشن کافی پرانا ہے اسکا مطلب یہ نہیں ھیکہ جمہوریت کرپٹ ہے بلکہ ہماری پوری سیاسی لائن کارپٹ ہے اس لئے انتخابات کو پیسوں کا کھیل کہا جاتا ہےلاکھوں سے کروڑوں، کروڑوں سے عربوں اور عربوں سے کھربوں روپے کمانے کا واحد ذریعہ سیاست( انتخابات) بن گئے
سینئرصحافی پونیہ پرسن واجپائی کے اعداد و شمار کے مطابق کارپوریٹ، انفراسٹرکچر اور چھوٹی موٹی کمپنیوں کی جانب سے سیاسی پارٹیوں کو سن دو 2014 سے 2015 تک ایک ارب ستر کروڑ 65 لاکھ روپے بطور دیئے گئےاسی طرح سن 2015 سے 2017 تک چھے ارب 36 کروڑ 88لاکھ ادا کیے گئے2017 سے
2018میں 12 ارب 96 کروڑ 5 لاکھ روپے بطور عطیہ دیا گیا ہےجس کی معلومات نہ الیکشن کمیشن کے پاس ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ اور انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے صرف اعداد و شمار موجود ہے کون کس طرح پیسہ دیتا ہے اس کا کوئی حساب موجود نہیں ہے
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ دولت و طاقت کی بنیاد پر جیتنے والے نمائندے خدمت نہیں بلکہ اپنے مفادات اور تجوریاں بھریں گے یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ملک میں انتخابات کو قابلیت و خدمت کے بجائے پیسے کا کھیل بنا دیا گیا ہے
میرے حساب سے ھندوستان کے انتخابات سے بڑا بزنس پوری دنیا میں نہیں ہوتا ہوگا کارپوریٹ سیاسی پارٹیوں کو فنڈ دیتا ہے اس کے بدلے حکومت ہر سال ساڑھے چھ لاکھ کروڑ کی سہولیات کارپوریٹ کو دیتی ہےاصل میں حالات ایسے بنائے گئے ہیں کہ بیرونی و ملکی کمپنیوں کو اگر کاروبار کرنا ہے تو انہیں سیاسی پارٹی کو فنڈ دینا لازمی ہے چاہے تپھروہ  پوری طرح قانون کی پابند کیوں نہ ہو ان کا پروڈکٹ اچھا کیوں نہ ہو وہ سیاسی پارٹیوں کے بندھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے فنڈدینا پڑتا ہےسوال یہ ہے کہ پچھلے چار سالوں میں لگ بھگ 23 ارب روپے سیاسی پارٹیوں کو بطور عطیہ دیئے گئے ہیں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے اس سے بھی زیادہ پیسہ انتخابات میں لگتا ہے لیکن اس جانب کوئی نہیں سوچتا کہ اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے؟ اور ان پیسوں سے ہوتا کیا ہے؟
آپ خود تو چلے ہر شعبے میں خرید و فروخت کے لئے یہ پیسہ دینا پڑتا ہے جس میں نیوز چینل، اخبارات، فلم اداکار، علاقائی نیتاوں سے گزرتے ہوئےووٹر تک پہنچایا جاتا ہےجو کہ نوٹ کے بدلے ووٹ کے لئے استعمال ہوتا ہے
یہی وجہ ہے کہ انتخابات آتے ہی سرکاری افسران، ضلع انتظامیہ، محکمہ پولیس، سیاسی پارٹیوں کے قائدین، بڑی پارٹیوں کے چھوٹے نیتا، پانچ سال میں ایک دفعہ شائع ہونے والے اخبارات کے ایڈیٹر رپورٹر اور  فوٹوگرافر، محلے میں پکڑ کے کھوکھلے دعوے کرنے والے خود ساختہ لیڈر متحرک ہوجاتے ہیں
جن کا مقصد انتخابات میں اپنے وجود کے بقا اور پیسوں کے حصول سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا کہاوت مشہور ہے کہ برسات میں سب سے زیادہ مینڈک  باہر نکلتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ بھی کسی مینڈکسے کم نہیں ہوتے جو انتخابات کے وقت باہر نکلتے ہے کیونکہ انتخابات میں بے تحاشہ پیسہ بہایا جاتا ہے…
پانچ سالوں تک مختلف کاموں میں busy رہنے والے یہی لوگ انتخابات قریب دیکھ کر خود کو پوری طرف free کرلیتے ہیں اور دن بھر نکڑوں, ہوٹلوں, چوراہوں پر اعدادوشمار جوڑ کر مفت میں ی گیان بانٹنے لگ جاتے پھر بعد کے اختتام پر جیتنے والے امیدوار کا چھاتی ڈھوک دعویٰ کرتے ہیں
  انتخابات کے نتائج بتاۓ گے کہ کون جیتے گا کون ہارے گا لیکن ان لوگوں کی چند دن کی درویشی بھی کمال کرتی ہےانتخابات ختم ہوتی یہ لوگ بھی غائب ہوجاتے ہیں پھر اگلے انتخابات کے وقت نظر آتے ہیں پھر کچھ عرصے کے لئے کھادی کا سفید شرٹ الماری سےنکالتے ہے اور نہیں ہے تو پھر نیا خریدنے کی تیاری شروع کی جاتی ہے یہ بات صرف شہر تک محدود نہیں ہے بلکہ ملکی سطح پر بھی اسی طرح کا حال ہے اس میں  dummy امیدواروں کا ذکر نہیں ہوا جو کی ووٹ کی تقسیم کے لیے انتخابات میں کھڑے ہوتے ہی ان میں زیادہ تر مختلف پارٹیوں کے آلہ کار  بنے ہوئے ہوتے یا کچھ اپنی ذاتی شہرت کے لئے انتخابات میں حصہ لیتے عام زندگی میں عوام کی کیا صورتحال ہے کیا آپ پریشانی در پیش ہے ان کا اس بات سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کا کوئی سیاسی وجود ہوتا ہے لیکن انتخابات کے وقت یہ سب سے بڑے ہمدرد اور خیر خواہ بن کر سامنے آتے ہیں
اس کے پیچھے ان کا کیا مقصد ہے یہ تو کہا نہیں جاسکتا لیکن یہ لوگ ووٹوں کی تقسیم کرنے میں کامیاب ضرور ہو جاتے ہیں انتخابات قریب ہے اس بات کا بھی مشاہدہ کرے  dummy امیدواروں کی تعداد اور حاصل کردہ ووٹ بھی دیکھیں ان کے علاوہ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے قوم کے ہزاروں ووٹ ان کے ساتھ ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور اس کے بدلے امیدواروں سے پیسے حاصل کرتے کسی امیدوار سے بات نہیں جمی تو دوسرے امیدوار کے پاس جو پارٹی زیادہ بولی لگائی گئی یہ لوگ انھیں کے ساتھ کام کرتے ہیں جس عوام کے نام پر پیسے حاصل کیے جاتے ہیں وہ ان تک پہنچائےبھی نہیں جاتے…
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ
 وہی چوروں لٹیروں کا سلیکشن
وہی پیسوں کے بل پر پھر الیکشن
ووٹ کے بدلے نوٹ کی سیاست ہونے والی ہے ووٹ کے بدلے نوٹ کی اخلاقی اور قانونی جرم ہے لیکن ایک بات واضح ہے گاندھی جی کی فوٹو والے کاغذ کے آگے کون کب ٹک سکا ہےلیکن جمہوریت کے بقا کے لیے نوٹ کے بدلے ووٹ کو ختم کرنا ضروری ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ  آپ چند پیسوں کے لیے اپنے ووٹ کا استعمال نہ کریں بلکہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے اپنا ووٹ ضائع نہیں جانے دیں ووٹ آپ کی شہادت ہے اگر آپ کسی امیدوار سے متفق نہیں ہیں تو الیکشن کمیشن نے آپ کے لیے نوٹاnota  کا آپشن دیا ہے اس کا استعمال کریں نہ کہ نااہل کے حق میں ووٹ کرکے اسے پانچ سالوں تک خود پر مسلط کرے یہی موقع ہے حالات بدلنے کا ورنہ پھر 5 سالوں تک ماتم کرنا پڑسکتا ہیں…

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا