سرینگر کے کارگو کیمپ میں نوجوان کی حراستی موت

0
0

واقعے کی مجسٹریل انکوائری کےساتھ ساتھ پولیس تحقیقات بھی شروع
اسلامک یونیورسٹی میں تدریسی عمل معطل؛ پلوامہ اور مائسمہ میں احتجاجی ہڑتال اور پرتشدد جھڑپیں:آج کشمیر بند کی کال
کے این ایس

سرینگر28سالہ نوجوان رضوان اسعد پنڈت کی گرفتاری کے بعد کارگو کیمپ میں موصوف کی حراستی موت سے منگلوار کو دن بھر وادی میں غیر یقینی صورتحال غالب رہی جس کے بعد جنوبی کشمیر کے اونتی پورہ اور پلوامہ سمیت شہر سرینگر کے مائسمہ علاقے میں واقعے کے خلاف احتجاجی ہڑتال کی گئی۔ ادھر اونتی پورہ میں نوجوان کی زیر حراست موت کی خبر پھیلتے ہی یہاں تمام قسم کے معمولات ٹھپ ہوکر رہ گئے جس کے بعد نوجوانوں کی مختلف ٹولیوں نے پولیس و فورسز پر خشت باری کا سلسلہ شروع کردیا تاہم پولیس نے مظاہرین کو متشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے درجنوں گولے داغنے کے ساتھ ساتھ پیلٹ فائرنگ کی جس کے بعد علاقے میں تناﺅ کی صورتحال شام دیر گئے تک جاری تھی۔ادھر پولیس نے نوجوان کی حراستی موت سے متعلق دفعہ 176سی آر پی سی کے تحت مجسٹریل انکوائر کے علاوہ خود بھی معاملے کی چھان بین کے احکامات صادر کئے ہیں۔ ادھر امن و قانون کی صورتحال کے پیش نظر آئی یو ایس ٹی واقع اونتی پورہ نے منگلوار کی صبح ایک سرکیولر جاری کرتے ہوئے کہا کہ آج یونیورسٹی میں تمام قسم کے معمولات معطل رہیں گے۔کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق منگلوار کی صبح سوشل میڈیا پر اُس وقت سراسیمگی کی کیفیت پھیل گئی جب یہ اطلاع شہر و گام پھیلی کہ فورسز کی جانب سے چند روز قبل حراست میں لیے گئے جنوبی کشمیر اونتی کے 28سالہ نوجوان رضوان اسعد پنڈت کی سرینگر کے کارگو کیمپ میں موت واقع ہوئی ہے۔واقعے کی خبر منظر عام پر آتے ہی میڈیائی اداروں نے خبر کی تصدیق کے لیے سیکورٹی کے اعلیٰ حکام کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم کچھ وقفے کے بعد صورتحال بالکل صاف ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ پیشے سے اُستاد 28سالہ نوجوان رضوان اسعد پنڈٹ ساکن اونتی پورہ کوچند روز قبل شبانہ چھاپے کے دوران فورسز اہلکاروں نے اپنے گھر واقع اونتی پورہ سے کسی کیس کے سلسلے میں پوچھ تاچھ کے لیے حراست میںلے لیا تھا۔ خاندانی ذرائع کے مطابق رضوان کو پہلے مقامی طور پر پولیس تھانے میں مقید رکھا گیا جس کے بعد اُسے سرینگر کے ایس او جی کارگو کیمپ منتقل کیا گیا جہاں سوم اور منگل کی درمیانی شب پولیس حراست میں نوجوان کی موت واقع ہوگئی۔نوجوان کی موت سے متعلق اگر چہ پولیس نے اپنی سطح پر تحقیقات کا آغاز کیا تاہم ابھی تک اس حوالے سے کچھ بھی معلوم نہیں ہوسکا۔پولیس نے واقعے سے متعلق 176سی آر پی سی کے تحت مجسٹریل انکوائری کے لیے درخواست پیش کرنے کے علاوہ خود بھی واقعے کی چھان بین شروع کی ہے۔ادھررضوان کے اہل خانہ نے واقعے کو بہیمانہ ہلاکت قرار دیا ہے۔اہلخانہ کے مطابق رضوان پیشے سے مقامی طور پر اسکول میں پرنسپل کی خدمات انجام دے رہے تھے جس کے ساتھ ساتھ اُس کا ایک ذاتی ٹیوشن سنٹر بھی تھا۔ انہوں نے بتایا کہ رضوان نے زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم ایسے میں اسے بہیمانہ طریقے سے زیر حراست جاں بحق کیا گیا۔رضوان کے بھائی ذوالقرنین اسعد کا کہنا ہے کہ” میرے بھائی کو بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کی آڑ میں گرفتار کیا تاہم بعد میں اُسے رہا بھی کیا گیا۔وہ کسی بھی جنگجو تنظیم کے ساتھ وابستہ نہیں رہا ہے، اس کی ہلاکت بہیمانہ اور بے رحمی کی انتہا ہے“۔انہوں نے کہا کہ ”دو روز قبل دوران شب ہمارے گھر کو مقامی پولیس تھانے کے اہلکاروں جن کی قیادت ڈی ایس پی کررہے تھے نے محاصرے میں لے لیا جس کے بعد پورے گھر کی تلاشی لی گئی۔ پولیس پارٹی نے گھر کے تمام افراد کو باہر جمع کیاجس کے بعد گھر کے تمام افراد بشمول خواتین کو کمرے میں بند رکھا گیا جس کا دروازہ باہر سے مقفل کیا گیا،اس کے بعد ہمارے بھائی رضوان کو پولیس اپنے ساتھ لے گئی“۔ذی الفقار کا کہنا ہے کہ ”دوسرے دن گھر کے افرادرضوان کا اتہ پتہ معلوم کرنے کی خاطر مقامی پولیس تھانے پہنچے جہاں پولیس افسران نے ہمیں خاموش رہنے کو کہا۔ ہمیں بتایا کہ رضوان کی گرفتاری سے متعلق کسی کے ساتھ بھی رابطہ نہ کیا جائے“۔ اہلخانہ کے مطابق پولیس نے بتایا کہ رضوان سے متعلق تمام تفصیلات آپ کو وقت پر دی جائیں گی۔ انہوں نے ہمیں رضوان کی کارگو منتقلی سے مکمل طور پر بے خبر رکھا جبکہ اس دوران پولیس نے رضوان کی رہائی سے متعلق کلی طور پر بے بسی کا اظہار کیا۔اہل خانہ نے بتایا کہ منگلوار کی صبح ہمیں اطلاع موصول ہوئی کہ رضوان کو سرینگر کے کارگو کیمپ میں زیر حراست موت واقع ہوئی ہے۔ رضوان کے بھائی ذی القرنین کا کہنا تھا کہ ”میرا بھائی پولیس کی حراست میں تھا اور اسے ٹھرڈ ڈگری ٹارچر کے ذریعے جاں بحق کیا گیا ہے، میرے بھائی کو بہیمانہ طریقے پر اور بے رحمی کے ساتھ جاں بحق کیا گیا“۔اہل خانہ نے بتایا کہ ستمبر 2018میں رضوان کو پولیس نے گرفتار کرتے ہوئے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل بھیج دیا جس کے بعد اُن کا پی ایس اے 30نومبر 2018کو عدالت منسوخ کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ رضوان کو اس دوران کٹھوعہ جیل منتقل کیا گیا تاہم جونہی عدالت نے موصوف پر عائد پی ایس اے کو منسوخ کردیا تو اس کے باوجود رضوان کئی دنوں تک مقامی پولیس تھانے میں غیر قانونی طور پر مقید رہے۔اہل خانہ کا کہنا تھا کہ اگر چہ اس دوران ہم نے رضوان کی رہائی کے حق میں پلوامہ عدالت سے ضمانت بھی حاصل کی تاہم اس کے باوجود پولیس نے اُسے رہا کرنے سے انکار کیا۔انہوں نے بتایا کہ پولیس نے عدالتی احکامات کے باوجود بھی رضوان کو 20دنوں تک تھانے میں بند رکھا ۔اہل خانہ کے مطابق رضوان نے گزشتہ دو ڈھائی مہینے سے اپنی زندگی کو پھر سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ، وہ ذاتی طور پر اونتی پورہ میں ایک ٹیوشن سنٹر چلارہے تھے جہاں وہ سینکڑوں طلبا و طالبات کو پڑھارہا تھا۔ رضوان اس کے علاوہ صابر عبداللہ پبلک اسکول جاوبارا واقع اونتی پورہ میں بحیثیت پرنسپل اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔رضوان کے بھائی ذی القرنین کا کہنا تھا کہ میرے بھائی نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی جبکہ اس دوران انہوں نے سائنس اور ایجوکیشن میں ماسٹرس کی ڈگر ی حاصل کی۔ اہلخانہ کے مطابق رضوان اور اُن کے والد اسعد اللہ پنڈت جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ تھے لیکن جماعت کے ساتھ وابستہ ہونا کوئی جرم نہیں ہے۔ادھر پولیس نے رضوان کے حراستی قتل سے متعلق بیان میں کہا کہ پولیس ریکارڈ کے مطابق رضوان اب تک تین مرتبہ گرفتار کیا جاچکا ہے۔موصوف کے خلاف ایف آئی آر زیر نمبر 146/2018زیر دفعہ 7/25پولیس تھانہ اونتی پورہ کے نتیجے میں انہیں 08/09/2018کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا جس کے بعد عدالت نے اُن پر عائد پی ایس اے کو 30/11/2018کو منسوخ کردیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ اس کے بعد موصوف کو دوبارہ دسمبر2018کو گرفتار کرلیا گیا تاہم اسی روز موصوف کو رہا کیا گیا۔انہوں نے بتایاکہ 18مارچ 2019کو رضوان کو دوبارہ گرفتار کیا گیا جس کے بعد انہیں پولیس تھانہ اونتی پورہ منتقل کیا گیا۔پولیس کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ رضوان دہشت گردی سے متعلق ایک کیس کے سلسلے میں پوچھ تاچھ کے لیے گرفتار کئے گئے جس کے بعد اُن کی زیر حراست موت واقع ہوگئی۔انہوں نے کہا کہ رضوان کی زیر حراست موت سے متعلق قواعد و ضوابط کی روشنی میں 176سی آر پی سی کے تحت مجسٹریل انکوائری شروع کی جاچکی ہے جسکے ساتھ ساتھ پولیس نے واقعے سے متعلق تفصیلی چھان بین کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔ادھر نوجوان کے زیر حراست قتل کی خبر پھیلتے ہی وادی بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی جس کے ساتھ ہی پلوامہ اور شہر کے مائسمہ علاقوں میںتمام قسم کے معمولات ٹھپ ہوکر رہ گئے۔ جنوبی کشمیر کے اونتی پورہ میں نوجوان کی ہلاکت سے متعلق خبر منظر عام آتے ہی یہاں نوجوانوں کی مختلف ٹولیوں نے سڑکوں پر پولیس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسلام و آزادی کے حق میں نعرے بازی کی۔ نمائندے نے بتایاکہ احتجاج کررہے نوجوانوں نے یہاں مقامی پولیس چوکی پرشدیدخشت باری کی جس کے ساتھ ہی یہاں افرا تفری کا ماحول پیدا ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی خاطر آنسو گیس کے درجنوں گولے داغنے کے ساتھ ساتھ پیلٹ فائرنگ کی جس کے بعد اونتی اور مضافاتی علاقوں میں دزندگی کی جملہ سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ گئی۔ معلوم ہوا کہ نوجوان کی ہلاکت کی خبر پھیلنے کے ساتھ ہی یہاں عوامی، کاروباری، تجارتی، تعلیمی و غیر سرکاری سرگرمیاں مکمل طور پر مفلوج ہوکر رہ گئیں جبکہ سڑکوں سے ٹریفک کی نقل و حمل بھی بند ہوگئی۔ اس دوران ضلع کے مختلف علاقوں سے احتجاج کی خبریں موصول ہیں۔ ادھر شہر کے مائسمہ علاقے میں بھی دوپہر 12بجے کے بعد یہاں قائم مختلف تجارتی اداروں نے واقعے کے خلاف احتجاجی ہڑتال کی۔کے این ایس سٹی رپورٹ کے مطابق مائسمہ اور ملحقہ علاقوں میں منگلوار کی دوپہر کو یہاں قائم تجارتی اداروں کے ساتھ ساتھ دوکانات نے بھی اپنی معمول کی سرگرمیاں بطور احتجاج بند کی۔ اس دوران اونتی پورہ میں قائم اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے منگلوار کی صبح ہی ایک پریس کے نام بیان جاری کرتے ہوئے یونیورسٹی میں تدریسی عمل کو معطل رکھنے کا فیصلہ کیا۔ادھر مشترکہ مزاحمتی قیادت نے واقعے کے خلاف آج مکمل کشمیر بند کی کال دی ہے۔ مشترکہ مزاحمتی قیادت نے بھارتی تفتیشی ایجنسی این آئی اے اور ایس او جی کی جانب سے کچھ عرصہ قبل پوچھ تاچھ کی غرض سے حراست میں لئے گئے اونتی پورہ کے نوجوان رضوان اسعد پنڈت کی تفتیش کے دوران المناک موت پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس کھلی سرکاری دہشت گردی کی بھر پور مذمت کی ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا