کشمیر پھر لہو لہان ,عوام کب تلک ان خونِ آشام واقعات کا مشاہدہ کرتے رہیں گے؟

0
0

شگفتہ خالدی
±جموں و کشمیر میں آئے روز ہونے والے واقعات اور ظلم و جبر کی داستانوں کے تلخ حقائق یہی روداد بیان کرتے ہیں کہ ریاستی عوام اُنہی جہنم زار دور میں اب بھی جی رہے ہیں جو آج سے برسوں قبل کے تھے یعنی سیاست کے پالیسی سازوں کی بدولت وہ ناکردہ حالات جس کے گہرے اور ہیبت ناک نقوش خاموش اکثریت والی ریاستی عوام پر ہر سوسایہ بن کے ساتھ چلتے ہیں اور حکومتی سطح پہ ہر بار اس کی خاموشی اور بے حسی کا مظاہرہ یہی عکاسی کرتا ہےکوئی بھی ذی ہوش انسان خون خرابے سے خوش نہیں رہ سکتا ۔نا ہی انسانی فطرت بدامنی کو پسند کرتی ہے ۔لیکن اپنے اپنے مفاد اور دوسروں سے دشمنی یا احساس برتری نے بدامنی اور تشدد کو فروغ دیا ۔جموں کشمیر میں ستر برسوں سے علیحدگی کی تحریک جاری ہے اور پچھلی تین دہائیوں سے اس تحریک نے حکومت کی عوام مخالف پالیسی کے سبب تشدد کا رخ اختیار کرلیا ہے ۔اس سے جموں وکشمیر میں ہر طرف انسانی خون بہہ رہا ہے اس میں کوئی تحفظ نہیں ہے ۔یہ خون سبھی کے بہہ رہے ہیں خواہ فوجی ہو یا عام آدمی شہری ہو یا عسکریت پسند وں میں شامل عام کشمیری نوجوان ۔خون تو انسان کا ہی بہہ رہا ہے ۔ان خون خرابوں اور تشدد و بد امنی کے سبب وادی میں لوگ دہشت کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ہر طرف جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے ۔نوجوان طبقہ ان حالات کی وجہ سے زیادہ ہی ذہنی تناﺅ کا شکار ہے ۔تشدد اور جنگ جیسے ماحول میں یوں تو سب سے زیادہ خواتین اور بچے متاثر ہوتے ہیں لیکن میری رائے ہے کہ ان سے بھی زیادہ نوجوان متاثر ہوتے ہیں ۔ نوجوان ہی ملک ،ریاست اور قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور نوجوان ہی متاثر ہوں تو پھر ترقی کیوں کر ممکن ہو سکتی ہے ۔ عوام اس روز روز کے فتنوں ،تشدد اور خون خرابے سے اس حد تک رنجیدہ ہیں کہ وہ سوچتے ہیں کہ کاش ہند پاک مسئلہ کشمیر کا حل مل بیٹھ کر حل کرلیتے تاکہ ان کی زندگی جو جہنم زار بن چکی ہے اس سے راحت ملے ۔یہ باتیں اور کتنی بار دہرائی جائیں کہ اگر دونوں ایک دوست ہمسایہ ممالک کی طرح رہتے تو آج ان کی ترقی کی رفتار یوروپ و امریکہ سے کسی طور بھی کم نہ ہوتی لیکن ہمارے یہاں کے سیاست داں صرف اپنی سیاست کی دکان ہی چمکانا جانتے ہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ مل بیٹھ کر عوام کی تکالیف کا سد باب کریں ۔اگر یہ مسائل نہ ہوتے اور خواہ مخواہ جو سرمایہ جنگ کی بھٹی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں صرف ہو رہا ہے اسے عوامی زندگی کو بلند کرنے میں خرچ کیا جاتا تو دونوں ترقی یافتہ ممالک کی طرح امریکہ اور یوروپ کی قطار میں ہوتے ۔ ہتھیاروں کی بجائے غربت کو دور کرنے میں سرمایہ خرچ کرتے تو بھارت کی آدھی آبادی خط افلاس کے قریب اور تیس فیصد خط افلاس سے نیچے زندگی بسر نہیں کررہی ہوتی۔دونوں ممالک غربت سے پاک ہو تے تو دنیا میں ان کا وقار بھی کہیں زیادہ بلند ہوتا ۔دنیا کی ایک تیسری قوت تو ضرور ہوتے نیز دونوں طرف امن و امان کی فضا قائم ہونے سے وادی کے عوام پرسکون زندگی جی لیتے ۔ جن کی زندگی آج قتل و غارت گری اور فسادات میں گھری ہوئی ہے ۔جنہیں مختلف بہانوں سے سلامتی دشتوں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بننا پڑتا ہے ۔ اس لئے ہند وپاک کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ عسکری کارروائیوں سے مسائل حل ہونے کی بجائے دن بہ دن سنگین ہوتے جائیں گے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا