اسلام دشمن طاقتوں کے پروپیگنڈوں کے سد باب کے لیے مسلمانوں کا اپنا ایک میڈیا ہاؤس ہونا ناگزیر

0
0
غلام رسول قاسمی
پونہ ۱۸/ /علماء پونہ کی جانب سے بروز اتوار نیوزی لینڈ میں ہوے دہشت گردانہ حملے کے خلاف مولانا عبدالرشید مفتاحی صاحب کی نگرانی اور حافظ عبد الحميد ندوی صاحب کی نظامت میں ایک مذمتی اجلاس بعد نماز مغرب مدرسہ صدیق اکبر کونڈوا میں منعقد ہوا جس میں علماء کرام و عمائدین شہر نے خصوصی خطاب فرمایا. شہر پونہ کے معروف عالم دین اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والے مولانا سید اکبر ہاشمی صاحب نے اپنے کلیدی خطبہ میں کہا کہ ہمارا مزاج بن گیا ہے کہ دنیا میں جب بھی کہیں مسلم قوم پر ظلم ہوتا ہے تو عملی طور پر میدان میں اترنے کے بجائے ہم دعا و  وظائف پر اکتفا کرنے لگ جاتے ہیں، یہ تو بے حس قوموں کی علامت ہے، ابھی جو نیوز لینڈ میں ایک سرپھرا دہشت گرد مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا ہے یہ ہماری عملی کوتاہی کا ہی نتیجہ ہے، اگر ہم اسی طرح بےحسی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے تو وہ دن دور نہیں کہ اگلا نمبر ہمارا اور ہمارے ملک کا ہوگا، کیونکہ اس وقت  صلیبی طاقتیں اپنے نوجوانوں کو نسل پرستی پر ابھار رہی ہیں جس کی بنا پر اینٹی اسلام اور اینٹی مسلم جیسی فکری خیال رکھنے والے شدت پسند نوجوان پیدا ہو رہے ہیں، جنکا مقصد ہی اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے، اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے خلاف دشمن طاقتیں اپنے نوجوانوں کو متشدد بنانے کے لیے صرف آسٹریلیا میں ہی روزانہ بیس آرٹیکل لکھے جا رہے ہیں جسکے اثرات آئے دن دیکھنے میں آتا ہے، اور ہم ہیں کہ صرف دعا و وظائف کو سارے مسائل کا حل سمجھ بیٹھے ہیں، اسلیے اب ہمیں خاموش نہیں بیٹھنا ہے ہم میں سے ہر فرد آگے آئے اور عملی طور پر کام کرے!. اسلام کا نظام اعلی اور اکمل ہے، کیسے بھی حالات آجائیں  ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے، ایسے ناگفتہ بہ حالات میں بھی مسلمانوں کو اللہ پر یقین کامل اور توکل و اعتماد رکھنا چاہیے، یہ اسلام ہی ہے جو ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ عبادت اللہ کی، اطاعت رسول اللہ کی اور خدمت خلق کی تعلیم دیتا ہے! مولانا حکیم اقبال نے اپنے قیمتی بیان کے دوران ان باتوں کا اظہار خیال کیا، انھوں نے نیوز لینڈ میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی پرزور مذمت کی، اور کہا کہ نیوزی لینڈ جو کہ عیسی علیہ السلام کے ماننے والوں کا ملک ہے، عیسی علیہ السلام کا ایک نام مسیح بھی ہے جو مظلوم و پریشان حال حاجت مند لوگوں کے لیے مسیحائی کیا کرتے تھے، لیکن ان ہی کا ایک نام لیوا درندہ صفت انسان اپنی شقاوت قلبی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ اپنے نبی کی  تعلیمات سے ہٹ کر نہتے مسلمانوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے پچاس سے زائد نمازیوں کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا، یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ اتنے بڑے نبی کا نام لیوا اتنی گری ہوئی حرکت کرتا ہے، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ جب بھی دنیا میں کہیں دہشت گردانہ حملہ ہوتا تو میڈیا کا رول آج یہ ہو چلا ہے کہ ان حملوں کا تعلق دھڑلے سے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں، جمعیۃ علماء پونہ کے ذمہ دار اور جامعۃ الصالحات کے ناظم اعلی قاری ادریس صاحب نے اپنے بیان میں کہا کہ گزشتہ دنوں نیوزی لینڈ میں جو واقعہ رونما  ہوا اس کے تئیں عالمی میڈیا کو سانپ سونگھ گیا ہے،  اس حملہ آور کا چہرہ اگر  بروقت سامنے نہ آتا تو عالمی میڈیا جو صہیونیوں و صلیبیوں کا پروردہ اور ان کے ٹکڑوں پر پلتا ہے اس کا تعلق بھی فورا اسلام سے جوڑ کر مسلمانوں کو بدنام کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتا، یہی ان کی دوغلی پالیسی ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا میں نفرت کا ماحول پیدا ہو رہا ہے. شرکائے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبد الصمد نے علما اور قوم کے تئیں درد رکھنے والے مسلمانوں سے اپیل کی کہ غیر مسلموں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف جو شکوک و شبہات اور پروپیگنڈہ پھیلا گیا اور زور و شور سے پھیلا جا رہا ہے اس کے سد باب کے لیے علماء کرام اور امت مسلمہ کے متمول اشخاص کو چاہیے کہ عالمی پیمانے پر  اسلام اور مسلمانوں کا ایک ایسا میڈیا ہاؤس قائم کرے جو اسلام کا حقیقی ترجمان ہو جس میں خلوص کے ساتھ کام کرنے والے ایسے اسکالرز ہوں جنکو  دنیا کے الگ الگ زبانوں پر عبور حاصل ہو! اسی کے ساتھ ساتھ اپنے مساجد و مدارس میں غیر مسلموں کو مدعو کریں تاکہ ہم آہنگی پیدا ہو! یہ ہمارے کرنے کے کام ہیں، ہمیں زمینی سطح پر اپنے اپنے طور سے  خدمات انجام دینے ہوں گے، اگر ہم اس وقت بھی پہلوتہی اختیار کریں گے تو کبھی بھی غیر مسلموں کے شکوک و شبہات کا ازالہ نہیں ہو سکتا اور نا ہی دنیا بھر میں اسلام فوبیا طاقتور ظالموں کے ظلم کو  روک سکتے ہیں. وہیں مفتی اسمٰعیل موجودہ حالات کے تناظر میں کہا کہ نیوزی لینڈ سانحہ کو لیکر پوری دنیا میں مسلم دشمن طاقتیں ہمارے خلاف کھڑی ہوگئیں ہیں جن کو ایک نئی سوچ اور نیا طریقہ مل گیا ہے یہاں تک کہ کل ہی ایک شدت پسند ہندو  اپنے فیس بک وال پر لکھا تھا کہ "اب ہمیں بھی یہ طریقہ اپنانا ہوگا اور وہ دن دور نہیں جب ہمارے نوجوان بندوقیں لیکر دہلی کی جامع مسجد میں گھس کر مسلمانوں کے لہو سے اپنی خونی پیاس بجھائیں گے اور اپنے دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے (حد انسانیت کو بالائے طاق رکھ کر) ہمارے خون کی ہولی کھیلیں گے!”  اسلیے انھوں نے مساجد و مدارس کی انتظامیہ سے دردِ بھرے الفاظ میں اپیل کی ہے کہ ہمیں اپنی اپنی مساجد کی اب خود ہی حفاظت کرنا ہے، اس کے لیے ہر مساجد کے نماز کے اوقات؛ تھوڑے تھوڑے وقفے سے رکھیں اور کچھ نوجوانوں کو اس بات پر  تیار کریں کہ وہ  دوسرے محلہ کی مساجد میں پہلے جاکر  نماز ادا کریں پھر اپنے محلہ کی مسجد کی نگرانی کریں!
اس مذمتی پروگرام میں کلیدی خطبہ دیتے ہوے مفتی یونس صاحب نے کہا کہ قابل مبارک باد ہیں مولانا عبد الرشید مفتاحی صاحب جنھوں نے  یہ عزم کیا ہے کہ امت مسلمہ کی ترجمانی کے لیے ایک چینل بنا رہے ہیں، یہ ایک نہایت ہی قابل تحسین اقدام ہے، میں گزارش کرتا ہوں کہ علماء و عوام اس کار خیر بڑھ چڑھ کر حصہ لیں!
 جلسہ میں شریک علماء کرام و بہی خواہان امت سرفہرست مولانا عبد الرشید مفتاحی، مولانا عبد الصمد ملی، مولانا منصور، مولانا سید اکبر ہاشمی قاری ادریس صاحب، مولانا ابرابر صاحب قاری عبد اللہ فلاحی، حافظ عبد الحميد جلیس ندوی، مفتی یونس آفریدی، مفتی جمیل رشیدی مفتی عبد الرحیم مفتی ہاشم مفتی عمران، مفتی غلام رسول قاسمی مفتی اسماعیل، مولانا فاروق، مفتی آفتاب، مولانا عبد السميع، مفتی شاہد اور مفتی الیاس صاحب
جبکہ نظامت کے فرائض حافظ عبد الحمید جلیس ندوی نے انجام دئیے، آخر میں جلسہ کے منتظم مولانا عبد الرشید مفتاحی نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور ان ہی کی دعا پر جلسہ کا اختتام ہوا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا