گجربکروال قوم مصائب کا شکارکیوں؟

0
327

 

کالم نویس: شازیہ چودھری
کلر راجوری جموں و کشمیر
9622080799

 

قدرتی آفات ہوں ،موسم کے تھپیڑے ہوں ، حیوانی حملے ہوں، سرکاری اجارہ داریاں ہوں، یا پھرانسانی بے مہریاں گجر بکروال طبقے نے ہر وار کو اپنے سینے پہ سہا ہے ۔واحد یہی ایک طبقہ ہے جس نے کوہساروں ،جنگلوںاور صحراؤں کو اپنا مسکن بنایا اور ان کی شان کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی حفاظت بھی کی ہے۔ مال مویشیوں کے چارے کی خاطر جنگلوں اور پہاڑوں کے نزدیک ان کا رہنا ان کی مجبوری ہے۔ اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں یہ طبقہ زندگی کی بنیادی سہولیات جیسے بجلی پانی سڑک سے محروم ہے ۔اس تیز رفتار دور میں جہاں آج انسان گاڑیاں کیا ،ریلیں کیا ،زندگی کی دوڑ میں تیز رفتاری کوبرقراررکھنے کے لیے ہوائی سفر کو ترجیح دیتا ہے۔ وہاں اس طبقے کے لوگ ابھی بھی کئی کئی کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد ایک گاڑی کا چہرہ دیکھ پاتے ہیں ۔بارش ہو، برفباری ہو ،آندھی ہو، طوفان ہو، یا کہ سرحد کی گولہ باری اور فرقہ وارانہ تشددہر جگہ اسی طبقے پر عتاب ٹوٹتا ہے ۔حالیہ برفباری میں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان اسی طبقے نے اٹھایا ہے کیوں ؟ کیونکہ یہ لوگ وہاں رہتے ہیں جہاں پہ سڑک بجلی پانی اور طبعی سہولیات کا فقدان ہوتا ہے۔جن علاقوں سے انتظامیہ کی نظر اندازی شروع ہوتی ہے ،جن علاقوں میں سہولیات کا فقدان ہوتا ہے وہاں پہ ان لوگوں کا بسیرا ہوتا ہے۔یا یوں کہہ لیجئے کہ جہاں سرکاری اسکیمیں ختم ہوتی ہیں وہاں سے گجربکروال بستیاں شروع ہوتی ہیں۔ دور دراز علاقوں میں طبعی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یا کمی ہونے کی وجہ سے بھی اس طبقے کے لوگ اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں۔ہر سال ہر ضلع بورڈ میٹنگ میں ٹرائبل سب پلان کے تحت کروڑوں روپئے مختص رکھے جانے کا میڈیا کے نام پریس نوٹ جاری کیا جاتا ہے۔لیکن پتہ نہیں وہ رقم جاتی کہاں ہے۔
اگر اتنی رقم مرکزی سرکار اس طبقے کی فلاح و بہبود کے لئے بجٹ میں شامل رکھتی ہے ۔تو پھر اس رقم سے زمینی سطح پر کام کیوں نہیں ہوتے۔اس طبقے کی پسماندگی دور کیوں نہیں ہوتی ؟اس طبقے کی بستیوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان کیوں ہے؟ اس کے ذمہ دار کون ہیں؟ اس طبقے کو ہر سیاسی پارٹی نے ووٹ بنک کے طور پر استعمال تو کیا ، لیکن اس طبقہ کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی بھی سیاسی پارٹی سچے دل سے کام نہیں کرنا چاہتی۔اب وقت کی ضرورت ہے کی اس طبقے کے ہر فرد کو بیدار ہونا ہے۔اور اپنے حق کے لئے اپنا اور ایسی سیاسی پارٹیوں کا محاسبہ کرنا ہے۔ہمارے پاس حق اطلاعات کا قانون (آر ٹی آئی) ہے اگر اس طبقے کی فلاح و بہبود کے لئے اربوں کی رقم مختص رکھے جانے کے اعلانات ہوتے ہیں تو پھر وہ رقم خرچ کہاں اور کب ہوتی ہے ، اس کیلئے ہمیں اس قانون کا استعمال کرتے ہوئے جاننا ہو گا کہ عوام کے ذریعے دی گئی ٹیکس کی رقم عوام پر خرچ کرنے کے بجائے کہاں جاتی ہے؟ بڑے بڑے دعوے کرنے کے باوجود اس طبقے کی بستیوں میں اس جدید دور میں بھی موہری کلاروس جیسے علاقوں جیسا حال کیوں ہے؟ جہاں جنوری مہینے میں ریاست جموں کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے دور دراز علاقے موہری کلاروس سے ثریا نامی حاملہ عورت کئی کلومیٹر پیدل سفر کرنے کے بعدمقامی ہسپتالوں کی طرف سے انکار کے بعد جب لل دید ہسپتال سرینگرپہنچتی ہے تو اس کو وہاں کا عملہ ہاپت (ریچھ) گجر کہہ کر ہسپتال سے باہر نکال دیتا ہے جس کے نتیجے میں وہ بدنصیب ٹھٹھرتی سردی میںجہاں درجہ حرارت منفی دس سے بھی نیچے گر جاتا ہے کھلے آسمان کے تلے سڑک پر اپنی بچی کو جنم دینے پہ مجبور ہوتی ہے، اوپر سے ستم ظریفی یہ کہ بچی پیدا ہوتے ہی ٹھنڈ لگنے کی وجہ سے مر جاتی ہے۔
ایک ڈاکٹر جس کو مسیحا کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس نے اپنی خودغرضی اور اَنا پرستی سے اپنے پیشے کی لاج بھی نہیں رکھی۔ذرا یہ ڈاکٹراپنے آپ کو اِن لوگوںکی جگہ رکھ کر دیکھیں اور سوچیں کہ وہ وہاںرہتے ہوں، تو اُن کے ساتھ ایسا ہو تو وہ کیا کرتے۔ہاں یہ لوگ ریچھوں جیسی ہمت رکھتے ہیں،ہاں یہ لوگ ہاپت جیسی طاقت بھی رکھتے ہیں! کیونکہ جہاں پر یہ لوگ زندگی گزارتے ہیں وہاں پہ ریچھ ہی رہ سکتے ہیں ۔کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔کیا ایک دن بھی یہ اپنے آپ کو شہری کہلوانے والے محدود سوچ کے ڈاکٹر وہاں زندگی گذار پائیں گے؟
ڈاکٹر کا پیشہ جو کہ دکھی انسانیت کی خدمت کا متقاضی ہے لیکن لل دید ہسپتال کے عملے نے اس پیشے پہ کلنک لگایا ہے ایسے عملے کو اور ایسے ڈاکٹروں کو راجوری، پونچھ، ڈوڈہ ،کشتواڑ، رامبن، ترال،بانڈی پورہ، کپواڑہ اور بارہمولہ کے ان پہاڑوں پر تعینات کرنا چاہیے جہاں پر تین چار گھنٹے پیدل چلنا پڑے گا، تا کہ ان لوگوں کو بھی احساس ہو کہ جن لوگوں کو انہوں نے ہسپتال سے دھکے مار کر اس قدر تیزوتند موسم میں کھلے آسمان تلے دھکیل دیا تھا، وہ واقعی ہی ریچھ اور شیر کا سا کلیجہ رکھتے ہیں۔ تبھی تو ان پہاڑوں پر گزارہ کر رہے ہیں اور ہاں یہ جو قوم کے ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں اور ان لیڈروں اورنیتاؤں کو بھی ان پہاڑوں اور جنگلوں میں بنیادی سہولیات سے محروم زندگی گزارنے کا تجربہ کروانا چاہیے تا کہ ان کو بھی احساس ہو کہ جن کی مظلومیت کا رونا رو کے یہ لوگ ووٹ حاصل کرتے ہیں اور اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہی اپنی کوٹھیاں ، بنگلے اور بینک بیلینس بنانے میں مصروف ہو جاتے ہیں وہ لوگ کن حالاتوں میں جی رہے ہیں۔ صرف کاغذوں میں موبائل اسکول رکھنے سے ان لوگوں کی ترقی نہیں ہوگی۔
صرف راشن کے نام پہ ان لوگوں کو ٹھگنے سے ان کی ترقی نہیں ہوگی۔ صرف ایس ٹی کوٹے کے لالی پاپ کا اخباری بیان جاری کر دینے سے ان لوگوں کی ترقی نہیں ہوگی۔وزیراعظم آواس اسکیم کی لالچ کے نام پر ٹھگنے سے ترقی نہیں ہو گی۔جب ان لوگوں کے پاس سٹیٹ سبجیکٹ ہی نہیں ۔تو ایس ٹی کوٹے کا ان کو کیا فائدہ ،جی ہاں ہماری ریاست جموں و کشمیر میں خانہ بدوش گجر بکروالوں کیلئے اسکیمیں تو بہت سی چلی ہیں لیکن ان اسکیموں کا ان لوگوں کو فائدہ نہیں ہوا ہے۔ فائدہ اگر ہوا ہے تو قوم کے اُن سیاسی ٹھیکیداروں کا جو اکثر اپنی سیاسی روٹیاں سیکنے کے فراق میں رہتے ہیں۔ ریاست کے خانہ بدوش گجر بکروال سرمائی موسم میں خطہ جموں کے بالائی علاقوں میں اپنی بھیڑ بکریوں، بھینسوں اور گھوڑوں کے ساتھ بسیرا کرتے ہیں اور گرمائی موسم میں کشمیر کی طرف رخ کرتے ہوئے ہمالیہ کی گود میں اپنے مال مویشیوں کے ساتھ ہجرت کر جاتے ہیں ان کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہے ۔ان لوگوں کے کہیں بھی وراثتی یا زمینی مالکانہ حقوق نہیں ہیں۔ اور قانون کی رو سے جس کسی کے پاس وراثتی ملکیت یا قانونی حقوق والی زمین نہیں ہے۔ وہ ریاست کا باشندہ نہیں مانا جاتا ہے۔ یعنی اس کو سٹیٹ سبجیکٹ نہیں مل سکتی اور سٹیٹ سبجیکٹ ایک شہری کے لیے ریاست کا باشندہ ہونے کی سند ہوتی ہے۔ اور اگر ان لوگوں کے پاس سٹیٹ سبجیکٹ نہیں ہے تو ایس ٹی سرٹیفیکیٹ کیسے بنے گی ؟ گجربکروال مشاورتی بورڈ اور محکمہ قبائلی امور نے کبھی بھی اپنے طور پر گجر بکروال خاص کر بکروال خانہ بدوش اور دودھی خانہ بدوش طبقے کا سروے نہیں کروایا۔اِن کے لئے کچھ نہیں کیا ۔اگر یہ محکمہ اپنے قبیلے کی این جی اوز یا قوم کے ملازموں سے ان کا سروے مکمل کروائے اور اِن کی باز آبادکاری کا منصوبہ تیار کرے تو یہ لوگ بھی سرکاری مراعات سے مستفید ہو سکتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ اگر یہ لوگ معجزاتی طور پہ پڑھ لکھ بھی جاتے ہیں تو نوکریوں کے لیے درخواست دینے کے اہل نہیں ہوتے ہیں ۔لیکن دوسری طرف ان کے ووٹر کارڈ بن جاتے ہیں نوکریوں کے لئے اور اعلیٰ تعلیم میں داخلے کے لیے ان لوگوں سے ریاست کا باشندہ ہونے کی سند مانگی جاتی ہے۔ لیکن ووٹر کارڈ کے لئے ان سے ایسی کوئی سند نہیں مانگی جاتی ۔بکروال خانہ بدوش ہوں یا دودھی خانہ بدوش ہوں دونوں ہی اس نا انصافی اور بد حالی کا شکار ہیں اور اس طبقے کی بدنصیبی دیکھئے کہ ان کے رہنما جن پہ یہ سادہ لوح لوگ تکیہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں وہ بھی ووٹ بینک کے لیے اس طبقے کو گجر ، بکروال،اور دودھی میں تقسیم کرنے کا کام اس صفائی سے کر رہے ہیں کہ انسان محیرالعقول رہ جاتا ہے۔
دودھی خانہ بدوش اور بکروال خانہ بدوش کو ایک دوسرے کے خلاف اس انداز میں بدظن کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اپنے مشترکہ مسائل اور مشکلات کو بالائے طاق رکھ کر ان رہنماؤں کے ہاتھ کی کٹھپتلی بنے ہوئے ہیں۔ ریاست میں جب بھی حالات کشیدہ ہوئے ہیں فرقہ وارانہ تنازعے ہوئے ہیں دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں، یا پھر سرحدوں پر کشیدگی ان سب کی وجہ سے اسی گجربکروال طبقے کو سب سے زیادہ بھگتنا پڑتا ہے اب 2008 امر ناتھ اراضی تنازعے کو ہی لے لیں صوبہ جموںمیں کسی نہ کسی طرح سے اس طبقے پر جا بجا حملے ہوئے اور کئی گجر بکروال بستیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان بستیوں میں سے ایک بستی راج پورہ مڑھ کی بھی تھی جسے شر پسندوں نے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا تھا۔ اور ان بدنصیبوںکو کھلے آسمان تلے لا کھڑا کیا تھا ۔2017 میں وہی راستہ اختیار کرتے ہوئے راجپورہ اکھنور میں حکام انسانیت کو شرمسار کرتے ہوئے گجربکروال بستی پر دھاوہ بولتے ہیں اور مارپیٹ کرکے خواتین کو بھی لہو لہان کیا ۔اور پھر اسی پہ اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے عارضی ڈھانچے( کلہے) بھی نذرِ آتش کر دئیے ۔ہمارے جمہوری نظام میں سرکاری حکام دہائیوں سے بسی بستیوں میں بغیر کسی نوٹس کے حملہ آور ہونے کے عادی ہو چکے ہیں چاہے وہ رکھ بروٹیاں گجر بستی ہو ،چاہے وہ بیلی چرانہ ہو یا گول گجرال ہو۔ سرکاری اراضی کو خالی کرانے کی ایسی مہم انتہائی شرمناک ہے۔ جہاں صرف اور صرف ایک طبقے کو نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ رنبیر کنال کے کناروں پر اور جموں کٹھوعہ سانبہ اور راجوری اضلاع میں مختلف مقامات پر اسی طرح سے لوگ کمیونٹی سینٹرس اور جھونپڑیوں میں رہ رہے ہیں ان کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔انتظامیہ کی طرف سے گجر بکروال قبیلوں کو زبردستی نکالنا جن پر وہ سالہا سال سے رہ رہے تھے ۔
جنگلات اور سرکاری اراضی کو خالی کرانے کے امتیاز پر مبنی مہم اپنے گھر اور غیر منقولہ جائیداد پر مالکانہ حقوق نہ ہونے، حد بندی لائین کے قریب واقعہ چراگاہوں تک رسائی پر روک ،جنگلات اور سرکاری اراضی کے استعمال پر عائید کی گئی پابندیوں، سرحدوں پر آئے دن پیش آنے والے گولہ باری کے واقعات اور رسانہ اجتماعی عصمت دری جیسے واقعات کی وجہ سے گجربکروال قبیلے کے لوگ تواتر سے نقل مکانی کررہے ہیں۔ ہجرت کرنے کے اس رحجان میں حالیہ برسوں میں تیزی آئی ہے۔ ٹرائبل ریسرچ اینڈ کلچرل فاؤنڈیشن کی ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ بیس برسوں کے دوران کم سے کم دس ہزار کنبے ریاست جموں کشمیر سے باہر دوسری ہمسایہ ریاستوں پنجاب، ہماچل پردیش، ہریانہ اور اتراکھنڈ کو منتقل ہو کر وہاں مستقل بنیادوں پر آباد ہو چکے ہیں۔ یہ انتہائی افسوسناک اور قابل تشویش بات ہے کہ گجربکروال قبیلے کے لوگ ریاست کو چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور اس سلسلے میں حکام لا پرواہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں حکومت کی طرف سے اس انخلاء کو روکنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔ سرحد پر حالات کشیدہ ہوں یا اندرون ریاست دونوں صورتوں میں اس قبیلے کے لوگ حالات کی چکی میں پستے ہیں کشمیر خطے میں اس قبیلے کو ہندوستان نواز ہونے کی پاداش میں دھتکارا جاتا ہے اور صوبہ جموں میں ان سے ہندوستانی کہلانے کا ثبوت مانگا جاتا ہے۔ پلوامہ حملہ 14فرور ی2019 کو پیش آتا ہے جس میں چالیس سی آر پی ایف جوان شہید ہو جاتے ہیں اور اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے 15فروری کو جموں چیمبر آف کامرس نے بند کی کال دی تھی اسی دن سانبہ میں گجر بکروال قبیلے کے دو بندوں کو بری طرح سے مارا پیٹا جاتا ہے اور مار پیٹ کی وجہ کیا ہے ؟ وجہ یہ ہے کہ کچھ شر پسند (احتجاجی) ان لوگوں سے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانے کو کہتے ہیں۔
اور یہ لوگ اپنی ایک حاملہ خاتون کو ہسپتال میں داخلے کے لئے پریشان تھے ہی اور ابھی کچھ سمجھ بھی نہ پائے تھے کہ ماجرا کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ان کو حراساں کیا جاتا ہے اور مار پیٹ بھی کی جاتی ہے۔کیا اس قبیلے کو اپنے ملک کے تئیں وفاداری اور قوم پرستی کو ثابت کرنا پڑے گا ۔کیا اگر یہ لوگ پاکستان مردہ باد نہیں کہیں گے تو یہ ہندوستانی نہیں رہیں گے ۔کیاہندوستانی کہلانے کا یہی پیمانہ رہ گیا ہے؟ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اس قبیلے کے لوگوں نے ریاست جموں کشمیر میں دہشت گردی سے نپٹنے میں کتنی قربانیاں دی ہیں کیا یہ لوگ اورنگزیب چوہان کو بھول گئے ہیں۔ جس نے اپنے ملک کی شان کے لئے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا گلا تک کٹوا دیا اور شہادت کے منصب پر بیٹھا ۔ضلع پونچھ کے علاقے ہل کاکہ میں گجر بکروال ہی لوگ تھے جنہوں نے دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے اس وباء کو جڑ سے ہی اکھاڑ پھینکا، 90 کی دہائی میں اس قبیلے کے پورے پورے پریوار ختم ہو گئے۔ ضلع راجوری کے دداسن گاؤں میں ایک ہی گھر کے 9 افرادکو عسکریت پسند وں نے ہلاک کر دیا تھا۔کیا ان لوگوں کا خون ہندوستانی نہیں تھا۔ اور ہاں سب سے اہم بات۔ کیا چودھری محمد نصیر جو پلوامہ خونریزی میں شہید ہوئے ان کی قوم پرستی کا بھی ثبوت مانگیں گے؟میں تو کہتی ہوں کہ یہ لوگ جو اپنے آپ کو ملک کے اور ملک پرستی کے ٹھیکیدار سمجھتے ہیں اصل میں ان لوگوں سے ان کے نیشنل ازم کا ثبوت مانگنا چاہیے۔ زور زور سے چلانے سے پاکستان مردہ باد کہنے سے اور دوسروں سے زبردستی کہلوانے سے اور لوگوں کو بناء مطلب حراساں کرنے سے کوئی نیشنلسٹ نہیں ہو جاتا۔ اگر ثبوت ہی کی بات ہے تو ان قوم کے ٹھیکیداروں کو کم سے کم ایک مہینے کے لئے سرحدوں پر بھیجنا چاہیے اور جو لوگ روز سرحد پہ گولیاں کھا رہے ہیں ان کے شانہ بشانہ کھڑا کرنا چاہیے تا کہ ان کو بھی اندازہ ہو جائے کہ نیشنل ازم کا جو پہاڑہ یہ لوگ اپنے ڈرائینگ رومز میں بیٹھ کے پڑھتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے۔
(کالم نویس ہفت روزہ گوجری اخبار رودادِقوم کی معاون مدیرہ ہیں)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

 

 

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا