نئی تعلیمی پالیسی2020پرعمل آوری اور اس کی ہرسوتعریفیں ہورہی ہیں لیکن اسکولی بچوں کے معصوم کندھوں سے بستے کابوجھ کم کرنے کے کوئی آثارنظرنہیں آرہے ہیں،سکولی بچوں کے نصاب میںحد سے زیادہ کتابیں ہونے کے نتیجے میں سکول بستوں کا وزن بچوں سے زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے معصوم بچے پیٹھ اور گردن کے امراض میں مبتلاء کردیتے ہیں ۔اس ضمن میں اگرچہ بچوںکے حقوق کیلئے کام کرنے والی انجمنوں نے کئی بار آواز اُٹھائی تاہم محکمہ ایجوکیشن اور سرکار نے اس جانب کوئی توجہ نہیںدی ۔ پرائمری سطح کے سکولی بچوں کے نصاب میںکئی اضافی کتابیں ہوتی ہے جن میں ای وی ایس، ڈرائینگ، منٹل میتھ،کمپوٹر، اردو گرائمر، انگریزی گرائمر،ہندی، انگلش رائٹنگ، اردورائٹنگ، انگلش ایکٹوٹی اور نہ جانے کیا کیا کتابیں ہیں۔اس کے علاوہ درجنوں کاپیاں اسی بیگ میں ہوتی ہے ۔ نصاب میں اضافی کتابیں ہونے کی وجہ سے معصوم بچوں کے سکولی بستوں کا وزن ان کے اپنے وزن سے کافی زیادہ ہوتا ہے ۔ سکولی بستوں کے وزن کو کم کرنے کیلئے اگرچہ حقوق اطفال کیلئے کام کرنے والے اداروں اور دیگر این جی اوز نے آواز اُٹھائی لیکن سرکار نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دیا جس کے سبب نجی سکولوں کے منتظمین کے حوصلے بڑھ گئے اور انہوںنے سکولی نصاب میںاور زیادہ اضافہ کردیا ہے ۔ ماہرین صحت کے مطابق چھوٹی عمر میں جب بچوں کے جسمانی اور زہنی نشونماء ہوتی ہے ان کے کاندھوں پر اس قدر بوجھ سے جسمانی اور ذہنی نقصان پہنچتا ہے کیوں کہ اس عمر میں زیادہ بوجھ اُٹھانے سے ان کی پیٹھ پر اور انکی گردن کئی طرح کے امراض میں مبتلاء ہونے کا اندیشہ ہے ۔ کتابوں کے بستوں کا وزن کم کرنے کے حوالے سے حکام محض احکامات جاری کرتے ہیں تاہم یہ احکامات بھی دیگر اعلانات کی طرح سے کاغذی گھوڑے ثابت ہوتے ہیں۔ سکولی بچوں کے کاندھوں پر اس قدر بوجھ کو کم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے عوامی حلقوںنے کہا ہے کہ سکولی بچوں کے کتابوں کے بستوں میں کم سے کم کتابیں رکھنے کیلئے اقدامات اُٹھائے جائیں۔ اور سکولی نصاب میں شامل اضافی کتابوں میں کمی لائی جائے تاکہ وزن کم ہو سکے۔ ورنہ تعلیم کے نام پرتجارت کوبڑھاوادینے سے بچوں کامستقبل سنورنے والانہیں بلکہ یہ تعلیم بچوں اوروالدین دونوں پرایک ظلم سی بن کررہ گئی ہے۔نئی تعلیمی پالیسی کیساتھ ہی بچوں کے بستوں کاوزن کم کرنے کے عملی اقدامات لازمی ہیں۔