زین العابدین ندوی
سنت کبیر نگر۔۔ یوپی
یہ ایک ناقابل انکار مسلمہ حقیقت ہے کہ جو کوئی بلند عزائم کے ساتھ مستقل جد وجہد کو اپنا وطیرہ بناتا ہے کامیابی اس کا مقدر ہوتی ہے جبکہ پست ہمتی اور تساہلی سے اس کے برعکس نتائج برآمد ہوتے ہیں، گندم کی کاشت سے جو کے برآمدگی کی امید پانی پر لکیر کھینچنے کے مترادف ہے، یہ قانون فطرت ہے جو روز اول سے نافذ العمل ہے، اس ضابطہ سے نہ تو کوئی فرد انحراف کر سکتا ہے اور نہ ہی قوم ہر ایک کا نتیجہ بہت جلد منصہ شہود پر عیاں ہوجاتا ہے، ہمارے ملک عزیز بھارت کی صورتحال ہمارے سامنے ہے آئے دن نفرت کو فروغ دینے کی ترکیبیں اپنائی جا رہی ہیں جس نے ملک کو پستی کے ایسے دلدل میں پہونچا دیا جس کا تصور ماضی میں بمشکل کیا جاتا تھا، ملک میں بالخصوص جس طبقہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ کوئی اور نہیں یہاں کی دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں کی ہے، کہیں انہیں بے وطن کرنے کی سازش ہے تو کہیں ان کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی پر زور کوشش، ایک طرف ان کے پرسنل لا میں اعلانیہ دخل اندازی کی جارہی ہے تو دوسری طرف ان کے تشخصات کو مٹانے کے لئے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی بل پیش کی جارہی ہے، مسلمانان ہند کو آج یہ دن کیوں دیکھنے پڑ رہے ہیں؟ چہار جانب ان پر مظالم کیوں ڈھائے جا رہے ہیں؟ اس بد حالی اور پستی کے اسباب کیا ہیں اور اس کا ذمہ دار کون ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کو اگر وقت رہتے حل کرنے کی کوشش نہ کی گئی اور حالات کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو اس کا نقصان کسی اور کو نہیں ہمیں کو بھگتنا ہوگا۔
مذکور باتوں پر سنجیدہ غور وفکر سے ہماری بد حالی کے جو اسباب نظر آتے ہیں ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ ہم حالات کا سامنا کرنے کے بجائے عذر و مصلحت کا سہارا لیکر تساہلی اور بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو کسی بھی زندہ قوم کے شایان شان نہیں، دوسری بڑی وجہ ہم اپنی اس ناکامی اور تساہلی پر ہنر مندی کا لیبل لگانے کے لئے دوسروں پر سازش کا الزام لگانے کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں اور فطری قانون کا اعلانیہ بغاوت کرتے ہیں، حال یہ کہ ہم جس پر اپنے خلاف سازش کا الزام لگاتے ہیں وہ اپنے مشن کی تکمیل میں دن رات لگے ہوئے ہیں اور انتھک محنت کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں، ہم جن کو محض اپنی بد دعاؤں سے زیر کرنا چاہتے ہیں وہ عملی میدان میں ہم سے بہت آگے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری بد دعائیں ان کے حق میں دعا بن جایا کرتی ہیں، ہم یہ بھول چکے ہیں کہ مقابلہ ہم جنس چیزوں سے ہوتا ہے لکڑی سے لوہے کو نہیں کاٹا جا سکتا اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے ہاتھوں میں لکڑیاں بھی نہیں، سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر اپنی ذات سے اسلام کی توہین کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے، ہم نے اسلام کی جملہ صفات سے خود کو خالی کر لیا ہے جس سبب ہم بے وزن ہوکر رہ گئے اس لئے یہ کہنا کہ مسلمانوں پر حالات تنگ ہیں یہ درست ہی نہیں بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ جو اپنے دعوی اسلامیت کو ثابت کرنے میں ناکام ہیں وہ حالات کی زد میں ہیں۔
چلتے چلتے اس پستی سے نکلنے کا حل بھی سمجھ لیجئے وہ یہ کہ جب تک ہم عذر اور مصلحت کے پس پردہ عملی میدان میں اترنے اور حالات کا سامنا کرنے سے گریز کرتے رہیں گے حالات جوں کا توں بنے رہیں گے بلکہ مزید بدتر ہوتے چلے جائیں گے، ساتھ ہی اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے دوسروں پر سازش کا الزام لگانے سے پرہیز کرنا ہوگا اور لوہے کا جواب دینے کے لئے لوہے کا انتظام کرنا ہوگا، بالآخر سو کی ایک بات ہمیں اپنے دعوی ایمانی و اسلامی کو صحیح معانی میں عملی طور پر ثابت کرنا ہوگا بصورت دیگر تحریکیں بھی بے اثر ہوں گی اور لاکھوں کے خرچ سے منعقد کئے جانے والے پروگرام بھی بے فائدہ ثابت ہوں گے بلکہ ضیاع وقت کا سامان اور دل بہلاوے کے کھلونے ہوں گے۔۔۔۔
9161229141