نئی دلی کشمیر مسئلے کو لیکر سنجیدہ نہیں پاکستان کشمیرپہ معذرت خواہانہ پالیسی ترک کرے:عبدالباسط

0
99

پاکستان کشمیرپہ معذرت خواہانہ پالیسی ترک کرے:عبدالباسط

لازوال ڈیسک

  • اسلام آباد؍؍پاکستان کو کشمیر کے معاملے پر معذرت خواہانہ پالیسی ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط نے کہا ہے کہ اسلام آباد کو پس پردہ سفارتکاری کے بجائے تنازعہ کشمیر کو عالمی ایوانوں میں دوبارہ زندہ کرنے کیلئے فعال اور معنی خیز سفارتکاری کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔اس دوران امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کشمیریوں کو خاندانی منصوبہ بندی ترک کرنے کی صلاح دی ہے۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد پاکستان میں کل جماعتی حریت کانفرنس اور کشمیر انسٹی چیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز (KIIR) نے مشترکہ طور ایک سمینار کا انعقاد کیا جس کا موضوع’’کشمیر میں آبادیاتی تناسب تبدیل کرنے کا بھارت کا منصوبہ، اقوام متحدہ قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی‘‘ مقرر کیا گیا تھا۔سمینار میں پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاسی لیڈران کے علاوہ موجودہ وسابقہ سفارتکاروں ، وکلاء، ماہرین تعلیم اور دانشوروں نے شرکت کی۔سمینار کے دوران صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بھارت میں پاکستانی سفیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دینے والے سینئر ڈپلومیٹ عبدالباسط نے حکومت پاکستان کو مشورہ دیا کہ اسے کشمیر کے معاملے پر معذرت خواہانہ رویہ ترک کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ مسئلہ کشمیر کوبین الاقوامی فورموں میں دوبارہ زندہ کرنے کیلئے ایسی ڈپلومیسی سے کام لینا چاہئے جو انتہائی فعال ، معنی خیز اور ثمر آور ہو۔ان کا کہنا تھا کہ اگر چہ بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی خواہش رکھتا بھی ہے ، لیکن وہ کشمیر کے بارے میں بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہے جس سے یہی نتیجہ اخذکیا جاسکتا ہے کہ نئی دلی کشمیر مسئلے کو لیکر سنجیدہ نہیں ہے۔عبدالباسط نے مزید کہا کہ دوسری جانب پاکستان کا یہ موقف ہے کہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعے کی بنیادی وجہ ہے کیونکہ اس پر کئی جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔اس ضمن میں ان کا کہنا تھا’’ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک ثمر آور پالیسی مرتب کریں کیونکہ کشمیر عوام بھارت کا کنٹرول تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، ہمیں پس پردہ سفارتکاری شروع نہیں کرنی چاہئے کیونکہ یہ ثمر آور ثابت نہیں ہوگی‘‘۔ کشمیر میڈیا نیٹ ورک مانیٹرنگ کے مطابق ایک سوال کے جواب میں سابق سفیر نے بتایا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت و پاکستان کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے تضادات سے پُر رہے ہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں شورش جاری رہے جو کہ پاکستان کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔اس حوالے سے ان کا کہنا تھا ’’پاکستان میں امن کا قیام افغانستان میں قیام امن سے براہ راست جڑا ہوا ہے ، ہمیں امریکی میڈیا اور تھنک ٹینک کو اس بات پر آمادہ کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے مفادات میں کوئی تضاد نہیں ہے‘‘۔سمینار سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے حکمرانوں کو کشمیر کے حوالے سے عملی طور ذمہ داریاں نبھانے پر زور دیا اور کئی اہم تجاویز پیش کرنے کے علاوہ کشمیریوں کو مشورہ دیا کہ خاندانی منصوبہ بندی کو نظر انداز کریں۔انہوں نے کہا کہ بھارت کشمیر میں آبادیاتی تناسب تبدیل کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے، اس لئے کشمیریوں کو خاندانی منصوبہ بندی ترک کرنی چاہئے۔انہوں نے مزید کہا’’بدقسمتی کی بات ہے کہ آج تک انسانی حقوق کی ایک بھی عالمی تنظیم کو کشمیر کا دورہ کرکے وہاں کی انسانی حقوق صورتحال کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی لیکن مجھے یقین ہے کہ کشمیری اس کے باوجود اپنی حق پر مبنی جدوجہد جاری رکھیں گے‘‘۔پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے صدر مسعود خان نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ بھارت کی طرف سے وادی میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوششوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔انہوں نے کہا ’’برہان وانی کے جاں بحق ہونے کے بعد بھارت کشمیریوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کررہا ہے کہ انہیں سمجھوتہ کرلینا چاہئے، بصورت دیگر کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کردی جائے گی‘‘۔مسعود خان نے حکومت پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ تنازعہ کشمیر کو عالمی ایوانوں میںز وروشور کے ساتھ اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھے۔اس موقعے پر پاکستانی وزارت خارجہ کے تر جمان نفیس ذکریا نے پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر اجاگر کر نے کے حوالے سے کئی عملی اقدامات کا خاکہ پیش کیا اور کہا’’ پاکستان کشمیر کیلئے تین بار بھارتی جارحیت کا شکار بنا لیکن پاکستان کشمیر پر اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹا اورنہ ہٹے گا ‘‘۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا