طارق ابرارآفیشل کلب کے زیراہتمام ’’ ڈاکٹرمسعوداحمدچوہدری اورBGSBU‘‘خصوصی خراج عقیدت پروگرام منعقد

0
0

مسعودچوہدری کی خدمات ناقابل فراموش،ان کے مشن کوآگے لیجاناہی بہترین خراج ہوگا :پروفیسراکبرمسعود
یونیورسٹی کے مین گیٹ کانام ’’بابِ مسعود‘‘رکھنا اور مسعودچوہدری کی چیئر،ٹرسٹ کودینے کااعلان تاریخی فیصلے

 

طارق ابرار

جموں//طارق ابرارآفیشل کلب ہائوس کے زیراہتمام سابق اے ڈی جی پی، بانی گرجردیش چیری ٹیبل ٹرسٹ جموں(ر)اورباباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کے پہلے وائس چانسلرڈاکٹرمسعوداحمدچوہدری کوخراج عقیدت پیش کرنے کے مقصدسے ’’باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی اورڈاکٹرمسعوداحمدچوہدری ‘‘کے موضوع پرایک خصوصی پروگرام کااہتمام کیاگیاجس میں عزت مآب وائس چانسلرباباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی پروفیسراکبرمسعودنے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔اس کے علاوہ پروگرام میں یونیورسٹی ہذاکے فیکلٹی ممبران ،آفیسران اوربانی ممبران نے بھی شرکت کرکے ڈاکٹرمسعوداحمدچوہدری مرحوم کوخراج عقیدت پیش کیا۔اس موقعہ پراپنے زریں خیالات کااظہارکرتے ہوئے عزت مآب وائس چانسلرباباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری پروفیسراکبرمسعودنے کہاکہ ’’میں یہ سمجھتاہوں کہ خطہ پیرپنچال کے لوگوں کی خواہش تھی کہ یہاں پرایک یونیورسٹی بنائی جائے ۔اس کے لئے کافی جدوجہدہوئی اوراللہ تعالیٰ نے اس خطے کے لوگوں کی اس خواہش کوپوراکیا اورباباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کاقیام ہوا۔دوچیزیں تھیں ایک یہ کہ یونیورسٹی کاقیام ہوتاکہ یہاں کے بچوں کوکہیں اورجاکراعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرنی پڑے اورانہیں یہیں پرتعلیم مل جائے ۔دوسری چیزیہ تھی کہ یونیورسٹی کس کے نام سے منسوب کی جائے۔اس وقت کی حکومت نے یونیورسٹی کے قیام کافیصلہ لے لیااورکافی ناموں پرغوروخوذ کے بعد یونیورسٹی کے نام پراتفاق رائے بنی اوراس یونیورسٹی کانام اس خطے کے معروف ولی اللہ باباغلام شاہ بادشاہ کے نام سے رکھاجائے۔میں یہ سمجھتاہوں کہ باباغلام شاہ بادشاہ کے نام سے یونیورسٹی کومنسوب کرنابہت بڑافیصلہ تھااوراس ولی اللہ کے ذریعے اس یونیورسٹی پرعنایت رہی۔یونیورسٹی کے قیام اوراس کے نام کے بعدایک اورمسئلہ تھاکہ اس یونیورسٹی کوبنانے کیلئے کس کوذمہ داری دی جائے ۔اس سلسلے میں بہت سے نام سامنے آئے اورمیں یہ سمجھتاہوں کہ اللہ کی ہی طرف سے فیصلہ تھاکہ اس یونیورسٹی کی تعمیروقیام کیلئے ڈاکٹرمسعوداحمدچوہدری صاحب کاانتخاب ہوا۔یہ فیصلہ بھی ہوگیاکہ مسعوداحمدچوہدری جن کی شعبہ تعلیم سے وابستگی نہیں تھی ۔وہ ایک اچھے اورمایہ نازپولیس آفیسرتھے اوراپنی زندگی اورنوکری سے بہت ہی خوش تھے۔لیکن ایک ایسے شخص کوجس کاطالب علمی کازمانہ تھااس وقت شعبہ تعلیم سے ان کی وابستگی رہی تھی ۔اس کے بعدان کی وابستگی تعلیمی شعبہ سے نہیں رہی تھی۔میں یہ سمجھتاہوں کہ یہ اللہ کافیصلہ تھااوراللہ تعالیٰ کی ہی رضا سے یہ کام ڈاکٹرمسعودصاحب کوسونپاگیاکہ وہ باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کاقیام کریں۔ایک ایساعلاقہ جوسڑک سے دس بارہ کلومیٹردورتھا۔نہ وہاں پرسڑک تھی اورنہ ہی دوسری سہولیات تھیں۔وہ علاقہ باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کیلئے دیاگیاتھا۔ اس دورمیں ٹینکنیکل ایڈوانسزنہیں تھے ۔اتنی مشینیں نہیں تھیں۔ اس کے باوجودپتھریلے علاقے میں ڈاکٹرمسعوداحمدچوہدری نے یونیورسٹی کی تعمیرکاکام شروع کیا۔جتناوقت انہیں دیاگیاتھابہت چھوٹی مدت تھی صرف پانچ سال ،اس وقت کے اندرمسعودچوہدر ی صاحب نے ایک پرانی کہاوت ’’جنگل میں منگل ‘‘کے مصداق،انہوں نے حقیقی معنوں میں جنگل میں منگل کرکے دکھایا۔ایسی جگہ جہاں پرصرف پتھریلی چٹانیں تھیں ان چٹانوں کے اندرایک گُلشن سجایااوروہ گلشن آج ترقی کرکے ایک ایسی یونیورسٹی کی شکل اختیارکرچکاہے جس کے بارے میں ہم عالمی اورقومی سطح پربتاسکتے ہیں کہ ہمارے اس خطے میں ایک یونیورسٹی ہے اوراس یونیورسٹی سے وابستہ لوگ نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ممالک بھی اپنی صلاحیتوں کالوہامنوارہے ہیں۔ڈاکٹرمسعودچوہدری صاحب سے میری ایک دفعہ ملاقات ہوئی جب میں نیانیاوائس چانسلرتعینات ہوا۔میں اپناایک فریضہ سمجھاکہ میں مسعودصاحب کے پاس جائوں اوران سے پوچھوں کہ آپ کے جوخواب تھے ہمیں ان میں آگے اورکیاکرناہے۔آپ یقینی کرئیے کہ مسعودصاحب نے بڑی محبت سے ہم سے ملاقات کی۔جب میں مسعودصاحب سے بات کررہاتھاکہ میں کسی اپنے گھروالے سے اپنے گھرمیں بات کررہاہوں، اتنی محبت سے انہوں نے بات کی۔ایک چیزاورکہ میرے اورمسعودچوہدری صاحب میں کچھ باتیں مشترک بھی ہیں ۔وہ علیک تھے ۔ان کانام مسعودچوہدری تھا۔میں بھی علیگ ہوں اورمیرانام بھی مسعودہے ۔ہمارے علی گڑھ میں ایک چیزہے جوسینئرہوتاہے وہ بڑی شفقت کرتاہے اپنے جویئرسے۔جب ہم مسعودصاحب سے ملاقات کررہے تھے توہمیں وہی شفقت وہی محبت ملی جس کی توقع ہم ان سے کررہے تھے۔ہم نے انہیں یونیورسٹی کادورہ کرنے کی دعوت دی اورانہوں نے ہم سے وعدہ کیاتھاکہ وہ آئیں گے۔اس سال جب ہم نے یونیورسٹی کاسالانہ دن منایاتب بھی ہم نے ان کودعوت نامہ بھیجاتھا۔یہ شایداللہ کومنظورنہیں تھی ان کی طبیعت ٹھیک تھی اوروہ علیل تھے۔و ہ اس موقعہ پرنہیں آسکے اوراس کے دوسرے ہی دن وہ دُنیاسے رخصت ہوگئے ۔جب ہمیں یہ خبرملی کہ مسعودصاحب اس دنیامیں نہیں رہے ۔آپ یقین مانیے کہ اس قدرافسوس ہوا اورہمیں ایسالگاکہ ہماراکوئی اپناہم سے بچھڑگیاہو۔لیکن موت برحق ہے ۔اکثرہمارے لوگ ہم سے بچھڑجاتے ہیں اورہم کچھ نہیں کرپاتے۔ایسے موقعے پرہم ایک ہی کام کرسکتے ہیں کہ ان کے لیے دعائے مغفرت کریں ۔یہی ہم نے کیا۔مسعودچوہدری صاحب کاغائبانہ نمازجنازہ یونیورسٹی میں اداکیاگیا۔اس کے بعدہم نے یونیورسٹی کے ساتھیوں کے ساتھ مل کرفیصلہ لیاکہ چونکہ یہ یونیورسٹی ڈاکٹرمسعودچوہدری صاحب کاخواب تھی اس یونیورسٹی کاجومین دروازہ (گیٹ) ہے ،یاکسی بھی یونیورسٹی کیلئے بہت اہم ہوتاہے اس کوہم مسعودچوہدری صاحب کے نام سے منسوب کریں گے۔ہمارے جتنے بھی ساتھی تھے انہوں نے ایک آوازمیں اس فیصلے کاخیرمقدم کیااوراس فیصلے کوہم نے عملی جامہ پہنایا۔یونیورسٹی کے مین گیٹ پرہم نے مسعودچوہدری گیٹ لکھوادیاہے۔ہم نے ایک اورفیصلہ لیاہے کہ وہ چیئر(کرسی)جس پرمسعودچوہدری صاحب بیٹھاکرتے تھے ،جس یونیورسٹی پربیٹھ کراس یونیورسٹی کاانھوں نے قیام کیا۔وہ چیئرہم گرجردیش چیری ٹیبل ٹرسٹ کو میوزیم کیلئے سونپ دیں۔جوبھی میوزیم میں اس کرسی کودیکھے گاکہ اسے یہ پیغام ملے گاکہ ہمارے ہی ایک انسان نے جواس کرسی پربیٹھاکرتاتھانے کتنے اچھے اچھے کام کئے ہیں۔ہم بہت جلدہی یہ کرسی گرجرٹرسٹ کودے دیں گے تاکہ ٹرسٹ میں نمایاں جگہ پراس کونصب کردیں۔یہ ایک ایساپروگرام ہے جس میں ہم مسعودچوہدری صاحب کوخراج عقیدت پیش کرنے کیلئے موجودہیں۔ میرااپنایہ مانناہے کہ کسی بھی شخص کواگرخراج عقیدت پیش کرناہے تواس سے اچھاخراج نہیں ہوسکتاکہ ہم عہدکریں کہ مسعودچوہدری صاحب نے جوخواب دیکھاتھا ،اس خواب کوہم آگے بڑھائیں اورشرمندہ تعبیرکریں۔ جوجذبہ اورولولہ مسعودچوہدری صاحب کے دِل میں تھا اس یونیورسٹی (ادارے) کیلئے اسی ولولے اورجذبے کے ساتھ ڈیولپمنٹ کریں۔ ہمیں آپس میں اختلافات ہوسکتے ہیں۔ہم الگ الگ قومیں ہوسکتی ہیں لیکن ہمارا مقصدایک ہی ہوناچاہیئے۔اوروہ مقصدیہ ہوناچاہیئے کہ مسعودچوہدری صاحب جوہمارے آئیڈیل تھے اورہیں ہم ان ہی کے خوابوں کواسی جو ش اورولولے سے آگے بڑھائیں ۔اس کے ساتھ ہی میں آپ کومبارکبادپیش کرتاہوں کہ آپ نے ان کے مشن کوآگے بڑھانے کیلئے پروگرام منعقدکیا۔اللہ تعالیٰ مسعودچوہدری صاحب کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔آمین۔چیئرمین گرجردیش چیری ٹیبل ٹرسٹ ایڈوکیٹ شاہ محمدچوہدری اورجنرل سیکریٹری گرجردیش چیری ٹیبل ٹرسٹ وسابق ایس ایس پی محمدشریف چوہان نے وائس چانسلر پروفیسر اکبرمسعودصاحب کا ڈاکٹرمسعوداحمد چوہدری کے نام سے یونیورسٹی کامین گیٹ قائم کرنے اورمسعودصاحب کی چیئرٹرسٹ کودینے کے فیصلے کوسراہااوران کاشکریہ اداکیا۔انہوں نے کہاکہ ہمارے پاس وائس چانسلرصاحب کاشکریہ اداکرنے کیلئے الفاظ کی کمی ہے ۔سینئرجرنلسٹ نعیمہ مہجورصاحبہ نے کہاکہ میں طارق ابرارآفیشل کلب کومبارکبادپیش کرتی ہوں ،میں اکثردیکھتی ہوں آپ بہت عمدہ موضوعات پرپروگرام منعقدکرتے ہیں ،یہ کام بہت پہلے شروع کرناچاہیئے لیکن پھربھی شروع ہوگیاہے توبہت اچھی بات ہے کہ ہم اپنی برگذیدہ شخصیات کویادکرتے ہیںجنھوں نے ہمارے سماج کیلئے ایک عظیم وراثت پیچھے چھوڑی ہے۔اقبال نے کہاتھاکہ ہزاروں سال اپنی بے نوری پہ روتی ہے ۔بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ورپیدا۔علامہ اقبال صاحب نے شاید مسعودچوہدری صاحب کیلئے بھی یہ شعرکہاتھا۔معاشرے کیلئے اوراس کاشعوراُجاگرکرنے کیلئے مسعودچوہدری صاحب نے جوکام کیاہے وہ قابل ستائش اورقابل فخرہے۔ہمارامسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس جواس طرح کی بزرگزیدہ شخصیات ہوتی ہیں ہم ان کے ہوتے ہوئے ،ان کی زندگی میں اگرRecognize کریں ،Acknowledgeکریں ،تویہ بہت بڑی بات ہوتی ہے۔مجھے لگتاہے کہ شایدچوہدری صاحب کوجوعزت ان کے علاقے میں لوگوں سے ملی ،اس سے مسعودچوہدری صاحب مطمئن ہوں گے ،ہم بہت کچھ کرسکتے تھے، جب وہ حیات تھے ۔اب بھی دیرنہیں ہے انھوںنے جوپیچھے وراثت چھوڑی ہے۔ایک فکرا ورایک نظریہ چھوڑاہے ایک عظیم وراثت پیچھے چھوڑگئے ہیں اورایک پیغام جوانہوں نے اپنی عوام کودیاہے ،خاص طورپرمیرے لیے ان کا سب اہم کام ہے وہ جوانھوں نے تعلیم کے میدان میں کام کیاہے اس کوکبھی بھلایانہیں جاسکتاہے اورنہ ہی نظراندازکیاجاسکتاہے۔اورہم سب کوکوشش کرنی چاہیئے کہ ان کے پیغام کوپھیلائیں ،اپنے عوام میں اس کواتنااُجاگرکریں کیونکہ اس علاقے میں ،میں کئی بارآچکی ہوں۔میں راجوری پونچھ میں رہی بھی ہوں۔میں نے باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی میں کئی بار سیمیناربھی کئے ،خاص طورپرخواتین کیلئے تعلیم اوران کے حقوق کے حوالے سے بیداری کیمپ کیے ۔مجھے شوق اورتجسس بھی تھاکہ میں مسعودچوہدری صاحب سے ملوں لیکن بدقسمتی کہ وہ جموں میں تھے۔ان کی جموں میں میٹنگس وغیرہ تھیں ،جس کی وجہ سے ہماری ملاقات نہ ہوسکی۔ایک مرتبہ دوبارہ بھی میں راجوری گئی ،دوتین دِن رُکی بھی لیکن پھرملاقات نہ ہوئی ،شایدقسمت میں ملاقات نہیں تھی۔میں نے چوہدری صاحب کے بارے میں وہاں کے لوگوں نے جوکچھ بتایا،واقعی میرے لیے فخرکی بات تھی کہ جس طرح کاکام مسعودصاحب نے عوام کیلئے کیا،کیونکہ اس علاقے میں سماجی ،اقتصادی اورسیا سی پسماندگی ہے اورکافی پسماندہ علاقہ ہے ۔اگرایسے علاقے میں چوہدی صاحب جیسی شخصیات سامنے آئیں اوراپنی عوام کی ترقی کیلئے کام کریں تویہ بہت بڑی دین ہے ۔ہماری نئی نسل کیلئے ضروری ہے کہ اورمیں یہ چاہتی ہوں کہ اس سلسلے میں جوبھی آگے آئے ،ان کاکام آگے پہنچائیں ۔میں انہیں سلیوٹ کروں گاکہ واقعی ہم سب جب خراج عقیدت پیش کررہے ہیں ،ان کوبھی سلیوٹ کروں گی جواس کام کوآگے بڑھارہے ہیں۔خاص طورپرتعلیم کے معاملے میں عوام کواٹھائیں گے اوربچیوں کی تعلیم کوآگے بڑھائیں گے۔ابھی وائس چانسلرصاحب نے بتایاکہ یونیورسٹی میں بہت اچھی چیزیں کی ہیں ہم انہیں یادرکھیں گے ۔نئی نسل کوبھی پتہ چلے گاکہ ان شخصیات نے سماج کیلئے کیاوراثت چھوڑی ہے۔میں وائس چانسلرصاحب سے عرضداش کرتی ہوں کہ اس سلسلے میں سیمینارکریں اورنوجوانوں کواس میں شامل کریں،شخصیات اوران کی وراثت کے بارے میں روشناس کرائیں۔اورعظیم وراثت کوکیسے محفوظ کریں ۔میں نے مسعودصاحب کی خدمات پرگزشتہ دنوں لکھابھی تھا۔میں تمام لوگوں کاشکریہ اداکرتی ہوں جویہ پروگرام کررہے ہیں یہ ثبوت دے رہے ہیں کہ ہم فراموش کرنے والے لوگ نہیں ہیں۔یونیورسٹی کے لائزن آفیسر ،بانی ممبر اور’دانشگاہ‘ کتاب کے مصنف ڈاکٹرذاکرملک بھلیسی نے کہاکہ مسعودچوہدری ایک ہوشمندمدبر،بلندخیال شخص ،ملنسارو انسان دوست شخصیت ،بہترین منتظم سنجیدہ معلم اوردلکش فلسفی اوراعلیٰ پایہ کی عظیم شخصیت تھے۔مجھے یہ خوش قسمتی ہے کہ مسعودچوہدری صاحب نے مجھے اپنی ابتدائی ٹیم کاحصہ بنایا۔مسعودصاحب نے بانی ممبران کے ساتھ مل کرچٹانوں میں یونیورسٹی کوقائم کرکے عظیم کارنامہ انجام دیا۔وہ دِن رات یونیورسٹی کی بہتری کیلئے کام کرتے تھے ۔ان کی روشن خیالی اورمدبرانہ سوچ کی وجہ سے یونیورسٹی کاقیام عمل میں آیا۔انہوں نے ایک شعرکااستعمال کرتے ہوئے کہاکہ دُنیامیں وہی شخص ہے تعظیم کے قابل ،جس نے حالات کارُخ موڑدیاہے۔مسعوداحمدچوہدری واقعی ایک ایسی شخصیت تھے جس نے حالات کارُخ بدل دیاجس کے نتیجے میں خطہ پیرپنچال میں عظیم اوراعلیٰ پایہ دانشگاہ باباغلام شاہ یونیورسٹی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اوریہ ادارہ راجوری پونچھ کے لوگوں کی تقدیربدلنے میں کلیدی رول نبھارہاہے۔ہم آج اس موقعہ پرڈاکٹرمسعودصاحب کوخراج عقیدت پیش کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ سے دعاگوہیں کہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔یونیورسٹی میں تعینات ہونے والے پہلے اُستاداوربانی ممبرڈاکٹرقمررئیس نے کہاکہ جب بھی باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کی تاریخ کاتذکرہ ہوگا،تومسعوداحمدچوہدری کانام بڑی اہمیت کے ساتھ لیاجائے گا۔انہوں نے کہاکہ مسعودچوہدری کی خدمات اس خطہ کے لوگوں کیلئے انمول تحفہ ہیں۔ان کانظریہ اورجذبہ دوسروں کوتحریک بخشتارہے گا۔جب میں یونیورسٹی میں تعینات ہواتومیں اس بات کاگواہ ہوں کہ مسعودصاحب نے یونیورسٹی کاپہلاتعلیمی سیشن ریکارڈوقت میں شروع کروایا۔میں نے مسعودچوہدری صاحب کوایک عمدہ ایڈمنسٹریٹراورعظیم شخصیت پایا۔انہوں نے یونیورسٹی کوذاتی مکان کی سی دلچسپی کے ساتھ بنایا۔وہ اکیڈمک سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ والدکی طرح کارول بھی اداکرتے تھے۔ وہ اپنے عملے کی چھوٹی چھوٹی پریشانیوں کوجانتے اوران کے ازالہ کیلئے فکرمندرہتے تھے۔ آج انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے میں یہی کہوں گاکہ مسعوداحمدچوہدری ایک عظیم شخصیت تھے اوران کی خدمات ہمیشہ یادرکھنے کے قابل ہیں اورانہیں تاریخ کے سنہرے حروف میں درج کیاجائے گا۔ یونیورسٹی کے سابق رجسٹرارمحمدرشیدچوہدری نے کہاکہ مسعودصاحب شخصیت سازہونے کے ساتھ ساتھ ادارہ سازبھی تھے ۔انہوں نے یونیورسٹی کے قیام میں بہت مشکلات بھی دیکھیں لیکن کبھی ہمت نہیں ہاری ۔اورجنگل میں منگل کے مصداق مثالی کام کرکے دکھااوراپنی صلاحیتوں کالوہامنوایا۔مسعودصاحب کی شخصیت کے بے شمارپہلوہیں جن پرمختصروقت میں بات نہیں ہوسکتی ہے۔ہمارامانناہے کہ مسعودچوہدری صاحب جیسی شخصیات صدیوں میں پیداہوتی ہیں۔اس موقعہ پربانی ممبر فرینہ کوثرصاحبہ ،بانی ممبر ڈاکٹرافتخارحسین شاہ ،شعبہ فارسی کے فیکلٹی ممبر ڈاکٹرمولاناکوثرجعفری ،پالی ٹیکنک کے فیکلٹی ممبراوربی ٹیک پہلے بیچ کے رکن ،ساحل حمیدملک ،طارق ابرار، ٹیم ممبر اورسینئرلیکچررنکہت چوہدری نے بھی زریں خیالات کااظہارکرکے ڈاکٹرمسعوداحمدچوہدری کوخراج عقیدت پیش کیااوران کے کارناموں کوتاریخ کے سنہرے حروف میں درج کرنے کے قابل قراردیا۔پروگرام میں یونیورسٹی کے دیگرفیکلٹی ممبران ڈاکٹررفیق انجم اعوان ،نیتوجموال،مشتاق صدیقی ودیگران اورطلباء کی کثیرتعدادنے بھی شرکت کی۔قبل ازیں طارق ابرارآفیشل کلب کے بانی اورمعروف ادیب وصحافی طارق ابراراورناظمہ نسیم اخترنے باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کے وائس چانسلراوردیگررفقاء کاڈاکٹرمسعودچوہدری کے نام پربابِ مسعودقائم کرنے اوریونیورسٹی کی طرف سے مسعودچوہدری صاحب کی چیئرکوٹرسٹ کے حوالے کرنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے عوامی اْمنگوں کے عین مطابق کئی کورسز بشمول گوجری اورپہاڑی زبانوں کاپی جی کورس متعارف کروانے جیسے اہم فیصلے کیلئے وائس چانسلرپروفیسراکبرمسعوداوردیگرفیکلٹی ممبران وآفیسران کومبارکبادپیش کی۔ طارق ابرارنے ڈاکٹرذاکرملک بھلیسی کااس اہم پروگرام میں وائس چانسلرموصوف کومہمان خصوصی کی حیثیت سے تشریف فرماہونے کے سلسلے میں تعاون دینے کیلئے خصوصی طورپرشکریہ اداکیا۔پروگرام میں تشریف فرماڈاکٹر مسعوداحمدچوہدری کے فرزندارجمند عرفات مسعودکی طرف سے طارق ابرارنے تمام مقررین اورشرکاء کاشکریہ اداکیا۔اس موقعہ پرنظامت کے فرائض ناموراُردواورگوجری شاعرہ اوربانی ممبر طارق ابرارآفیشل کلب ہائوس نسیم اخترنے انتہائی پیشہ وارانہ اندازمیں انجام دیئے جبکہ ٹیم ممبرمختارچوہدری نے شکریہ کی تحریک پیش کی۔اس دوران پروگرام میں جموں وکشمیرکے ہرکونے سے علمی وادبی شخصیات کی کہکشاں سامعین کے طورپرموجودتھی اورلگ بھگ 200 افرادنے اس پروگرام کاحصہ بن کراس کوسُنااورمنتظمین کی کاوشوں کوسراہا۔۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا