0
0
معید رہبر اپنی شاعری کے آئینے میں
 ارشد بستوی
    یوں تو شاعر آج بھی ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں اور پہلے بھی ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے، لیکن اس دنیا میں وہ قدر ومنزلت، وہ نام وری اور پائیداری اور وہ مقبولیت بہت کم لوگوں کے حصے میں آئی جو ایک تاریخی، بے مثال اور لازوال شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ کتنے آئے اور اپنے حصے کا کام اپنی اپنی کوششوں اور استعداد کے مطابق کرکے تہ خاک ہوگئے، لیکن نہ ان کو دنیا نے پہچانا نہ زمانے نے ان کے نقوش چھوڑے۔ ایسا صرف شاعری میں ہی نہیں ہے بلکہ ہر شعبۂ حیات کی یہی داستان ہے۔ اہل حکومت اور اہل سیاست کی بھی یہی داستان، مختلف علوم وفنون سے وابستگی رکھنے والوں کی بھی یہی داستان، ادیبوں، تاریخ نویسوں، فلسفیوں اور مفکروں کی بھی یہی داستان۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے دنیا بنی ہے خدا معلوم کتنے اربوں اور کھربوں انسانوں نے یہاں بود وباش اختیار کی لیکن صفحۂ تاریخ میں بس کچھ نام ہی محفوظ ملتے ہیں اور پھر ان میں بھی مقبول بس چند گنے چنے، جنہیں واقعی دنیا نے عبقری گردانا ہے اور ان کا لوہا مانا ہے۔ موجودہ دور میں ایسی ہی ایک جیتی جاگتی، زندہ دل اور بے مثال شخصیت کا نام معید رہبر ہے۔ جنہوں نے لکھنؤ جیسی ادبی دنیا میں اپنا ایک اہم مقام بنایا ہے اور اپنی شاعری، بلند فکری، قادرالکلامی اور ذہانت کا لوہا منوایا ہے۔ ورنہ لکھنؤ میں اتنی آسانی سے کہاں کسی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن جناب معید رہبر نے اپنی فکر وفن کا ثبوت دے کر صرف لکھنؤ ہی کیا پوری اردو دنیا کو اپنا گرویدہ بنایا اور قائل کیا ہے، اور اب بھی مسلسل قائل کر رہے ہیں:
صفحۂ ذات پہ کچھ شعر نئے لکھ لکھ کر
روز ہی ہم نئی تاریخ رقم کرتے ہیں
جب اٹھاتے ہیں قلم مثل سخنور اپنا
ہم دکھا دیتے ہیں قرطاس پہ جوہر اپنا
مرے فن کا آئنہ ہے، مری فکر کا مترجم
مری فکر کر رہی ہے، مرے فن کی ترجمانی
ہم نے کئی چراغ ادب میں جلائے ہیں
تب جاکے آج اتنے اجالے میں آئے ہیں
ذکر میرا ہے چرخ ہفتم تک
تم ابھی تک ہو ماہ وانجم تک
ہماری گفتگو انداز عالی شان رکھتی ہے
تبھی تو شخصیت سب سے الگ پہچان رکھتی ہے
    معید رہبر کی شاعری میں غزل بھی موجود ہے، نعت، حمد اور منقبت بھی موجود ہے، تصوف اور پند وموعظت بھی موجود ہے، روز مرہ کے حالات وواقعات کی ترجمانی اور سیاسی وسماجی حالات پر گفتگو بھی موجود ہے۔ چند نعتیہ اشعار ملاحظہ ہوں:
درود پاک پڑھ کر جب قلم جنبش میں آتا ہے
اتر آتی ہے روضے کی حسیں تصویر کاغذ پر
بزم امکاں میں وہ مثل شمع محفل ہوگیا
ماند جس چہرے کے آگے ماہ کامل ہوگیا
نقش پا جن کے ہیں مثل آفتاب وماہتاب
کیا کریں تعریف ہم ان کے لب ورخسار کی
وہاں سے رحمت کونین کی ہے فکر کا آغاز
کمندیں ٹوٹ جاتی ہیں جہاں انساں کے امکاں کی
کوئی خدا کے بعد اگر لاجواب ہے
تو صرف آمنہ کا پسر لاجواب ہے
نبی کے عشق میں بے تاب ہے یہ دل اتنا
مدینہ اڑ کے پہنچتا جو بال وپر ہوتے
معراج کی شب دیکھا ہے خود وقت نے تھم کر
لمحات میں صدیوں کا سفر کیسے ہوا ہے
     اب غزلیات کا بھی کچھ چٹخارہ لیجیے:
کل چودھویں کے چاند کی چھٹکی تھی چاندنی
دیکھا جو غور سے تری تصویر بن گئی
اس شعر پر تو باذوق قاری مچل مچل اٹھے گا:
یہ روز روز کا جھگڑا فساد ٹھیک نہیں
میں چاہتا ہوں کہ اب عین شین قاف کرو
خود جناب معید رہبر کو بھی اپنی اس قادرالکلامی، ذہانت اور بلند فکری کا مکمل طور پر احساس ہے، جس کا کچھ اظہار اس شعر میں بھی موجود ہے:
لکھنے والا ہوں میں اک ایسی غزل کاغذ پر
جس کا ممکن ہی نہ ہو کوئی بدل کاغذ پر
یقینا آپ کی شاعری لاجواب اور بے بدل ہے۔
بس اسی رنگارنگی کے کچھ اشعار اور ملاحظہ کیجیے:
جذبۂ قلب نہ اب صورت لوبان جلے
یاد اتنا بھی نہ آؤ کہ مری جان جلے
دل ویران میں آسیب نہ بس جائے کوئی
اس لیے ہم نے تجھے دل میں بسا رکھا ہے
اِدھر خاموش میں بیٹھا ہوا ہوں
اُدھر بیٹھے ہیں وہ بھی ہونٹ سِل کے
یہ سوچ سوچ کے حیراں ہے عقل آج کی رات
فلک کے چاند کو دیکھوں کہ میں تمہیں دیکھوں
اس شعر پر تو جی چاہتا ہے کہیں اکیلے بھی بیٹھے رہیں تب بھی چلا چلا کر داد دیویں:
ہم آپ کے چہرے کی چمک دیکھ رہے ہیں
کس جھیل کا اس پر ہے نمک دیکھ رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔
کیا بتاؤں میں کہ تیرے حسن کی کیا شان ہے
آگرا کا تاج تجھ کو دیکھ کر حیران ہے
کئی منظر حسیں پلکوں کی ان چلمن میں رہتے ہیں
تری یادوں کے جگنو اب مرے آنگن میں رہتے ہیں
عشق میں دل کے جلنے کا اظہار تو سبھی کرتے رہتے ہیں، مگر دل سے آگے بڑھنے کا حوصلہ کسی کو نہیں ہوا، لیکن معید رہبر ایسے دل جلے عاشقوں سے اس معاملے میں بھی دو قدم آگے ضرور نکل گئے:
دل ہی نہیں جبیں پہ بھی جلنے کے داغ ہیں
ہم بھی تمہاری بزم کے روشن چراغ ہیں
لاک ڈاؤن اور کورونا کا جو اثر ہوا اس کی ایک ہلکی سی جھلک:
ممنوع قرب یار ہے دور جدید میں
ورنہ تو لوگ کیا نہیں کرتے تھے عید میں
یہ تو غزلیاتی اشعار کا ایک ہلکا سا نمونہ ہے ورنہ معید رہبر کے خزینۂ اشعار میں اس طرح کے بےشمار لعل وگہر موجود ہیں۔ اب آئیے دیگر سماجی، سیاسی اور معاشرتی موضوعات اور حالات حاضرہ پر بھی معید رہبر کے شعرستان کی تھوڑی سیر کرلیتے ہیں۔ کورونا مہاماری کی وجہ سے لاک ڈاؤن کا اثر عبادت گاہوں پر بھی پڑا اور خدا کے بندوں کو خدا کے گھر جانے سے روک دیا گیا، لیکن ساتھ ہی یہ سچائی بھی ہے کہ جب تک ایسی کوئی روک ٹوک نہیں تھی، تب بھی مسجدوں کو آباد کرنے والے کہاں نظر آتے تھے؟ گویا ہم مسجدوں سے دور رہے تو مسجدوں نے خود ہم سے دوری اختیار کرلی۔ بس اسی حقیقت کی طرف معید رہبر اپنے اس شعر میں اشارہ کر رہے ہیں:
کل تک تھے مسجدوں سے بہت دور دور ہم
اور آج مسجدوں نے ہمیں دور کردیا
بھکمری اور فاقہ کشی پر آنسو بہاتے ہوے کیا خوب کہتے ہیں:
روز کے فاقوں سے اچھا زہر ہی دے دے کوئی
کچھ نہیں کھانے سے تو بہتر ہے کچھ کھاکر مریں
مغربی تہذیب کے اثرات سے معاشرے میں جو بےدینی پھیل رہی ہے اس کا رونا روتے ہوے فرماتے ہیں:
سلام کیسے سکھائیں وہ اپنے بچوں کو
جو گھر سے کرکے سدا بائے بائے جاتے ہیں
آج کل صدقۂ وخیرات کرتے ہوے تصویر اور تشہیر بازی کی لت لگ گئی ہے لوگوں کو۔ ایسے لوگوں کو معید رہبر نصیحت کناں ہیں:
کسی صورت بھی کم نادار کی توقیر مت کرنا
مدد کرنا سدا، لیکن کبھی تشہیر مت کرنا
ہندوستان کی آزادی کے سلسلے میں اصل تاریخ مسخ کرنے کی کوشش کرنے والوں اسی طرح بھول جانے والوں کو اپنی تاریخ یاد دلاتے ہیں:
ہمارے خوں سے بھی رنگیں ہے باب آزادی
یقیں نہ آئے تو پڑھ لو کتاب آزادی
سچ پوچھیے کوشش جو ہماری نہیں ہوتی
گلشن میں کہیں باد بہاری نہیں ہوتی
پردے اور حجاب کے باوجود جو بےپردگی اور عریانیت رہتی ہے اس کا حوالہ دے کر غیر مسلموں نے بھی مسلمانوں کو بہت عار دلائی ہے کہ آپ پردے اور حجاب کے حقوق کی بات کرتے ہیں حالانکہ اس سے سوائے چہرے کے اور کچھ نہیں چھپتا بلکہ عریانیت اور عیاں ہوجاتی ہے۔( اگر ہم ڈٹ کر صحیح طریقے سے اپنی شریعت پر عمل کرتے تو کہیں سے نہ ہم پر نہ ہمارے شرعی قوانین پر انگلی اٹھ سکتی، مگر ہم اپنے اوپر آئی مصیبتوں کے ذمہ دار خود ہیں)۔ معید رہبر اپنی قوم کو اسی کا احساس دلارہے ہیں:
عریانیت جھلکتی ہے پردے کے باوجود
کیسی یہ پاکبازیاں کیسا حجاب ہے
اس دنیا کی خود غرضی اور مفاد پرستی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
جس کو دیکھو وہ بڑھاجاتا ہے سوئے منزل
کس کو فرصت جو مرے پاؤں کے چھالے دیکھے
نفرت اور فرقہ پرستی کی وجہ سے ملک میں جو حالات جنم لے رہے ہیں معید رہبر اس کے لیے دعا گو ہیں کہ نفرت وتعصب کو کسی طرح کورونا ہوجائے اور پھر اس ملک کو نفرت اور فرقہ واریت سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل ہوجائے:
ختم ہم لوگوں کا حالات پہ رونا ہوجائے
کاش اس ملک میں نفرت کو کورونا ہوجائے
وہ شاہین باغ کی خواتین کی قربانیوں اور ان کے حوصلوں کو سراہتے ہوے کہتے ہیں:
سرد راتوں، تیز بارش میں بھی ہو ثابت قدم
ماؤ! بہنو! بیٹیو! تم سب کے جذبوں کو سلام
فلسطین میں مسلمانوں پر ہورہے ظلم وستم کو دیکھ کر بول اٹھتے ہیں:
زد میں ستم کی اہل فلسطیں ہیں آج کل
یارب فرشتے بھیج دے امداد کے لیے
لکھنؤ کے نقوش اور پرانی یادیں دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں:
ساتھ اپنے لے کے کچھ یادیں پرانی لکھنؤ
کہہ رہا ہے اپنے ماضی کی کہانی لکھنؤ
آزادی کے بعد بھی اس ملک میں جس طرح کی بے رونقی ہے اور یہاں کی فضا میں جس طرح نفرت پنپ رہی ہے اسے دیکھ کر حسرت آمیز آہ بھرتے ہیں:
چمن یہ عشق کا شادابیوں سے ہے محروم
نہ جانے اور ابھی کتنا خون چاہتا ہے
اور پھر موجودہ حالات پر خاموش رہنے اور مصلحت کا دم بھرنے والوں کو کچوکے لگاتے ہیں:
یوں تو کہنے کو ہر اک منہ میں زباں ہوتی ہے
پھر بھی سچائی کہاں سب سے بیاں ہوتی ہے
حکومت وقت کے قول وفعل میں تضاد پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں:
امیر وقت کی تقریر اور ہی کچھ ہے
ہمارے شہر کی تصویر اور ہی کچھ ہے
اور پھر اپنی راست گوئی، حق پسندی اور بے باکی کا بھی ذکر کیے دیتے ہیں:
شعلے کو کسی طور بھی شبنم نہ کہیں گے
جو آپ کہلوائیں گے وہ ہم نہ کہیں گے
حق پسند شاعر ہوں یہ شعور رکھتا ہوں
مصلحت پسندی سے خود کو دور رکھتا ہوں
اور پھر اخیر میں اپنی مقبولیت کے راز سے پردہ اٹھاتے ہوے عرض کرتے ہیں:
ہمیشہ رکھتا ہوں دنیا کو اپنی ٹھوکر میں
اسی لیے مجھے دنیا سلام کرتی ہے
غرض معید رہبر کے ہاں چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے موضوع پر گفتگو موجود ہے۔ اس قسم کے تو بے شمار اشعار ہیں، اور ابھی بھی بہت سے ایسے اہم موضوعات ہیں جو ان کی شاعری کا حصہ ہیں، مگر ہم ان کو یہاں درج نہیں کر سکے، اگر ہر موضوع سے صرف ایک شعر لےکر بھی قدرے تفصیلی گفتگو کی جائے تو ازخود ایک دفتر تیار ہوجائے گا۔ اور پھر معید رہبر کے مجموعۂ کلام میں تو روز بہ روز کچھ نہ کچھ اضافہ ضرور ہوتا ہے۔ ان شاء اللہ بہت جلد ان کا مجموعۂ کلام ”منظورِ نظر“ منظر عام پر آرہا ہے، جو کہ دیکھنے، پڑھنے، محظوظ ہونے اور لطف لینے کے قابل رہے گا۔ خدائے تعالی سے دعا ہے کہ جناب معید رہبر صاحب کو دن دونی رات چوگنی ترقیات سے نوازے اور بد نظروں کی بدنظری سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا