ڈاکٹر جگ موہن سنگھ
کشتواڑ، ڈوڈہ، بھدرواہ اور بانہال خطۂ چناب کے وہ مردم خیز علاقے ہیں جہاں کے شاعروں اور ادیبوں نے کشمیری اور اردو شعر و ادب کو پروان چڑھانے میں اہم ترین کردار ادا کیاہے۔ ان میں رسا جاودانی، نشاط کشتواڑی،منشور بانہالی، امین بانہالی، عشاق کشتواڑی، ناز نظامی، فرید احمد فریدی، بشیربھدرواہی ، ساغر صحرائی اور اسیر کشتواڑی وغیرہ کے ساتھ ساتھ رحمت ؔبانہالی (پیدائش 6 نومبر 1940ء ۔ وفات 2 جنوری 2023) بھی شامل ہیں۔ رحمت بانہالی کا انفراد اور امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی حمدیہ اور نعتیہ شاعری کے لیے وقف کردی۔ عصر حاضر میں حمدیہ اور نعتیہ شاعری کی روایت کمزور ہو گئی ہے لیکن خاص طور پر خطۂ چناب کے رحمت بانہالی جیسے شاعروں نے اس روایت کو برقرار رکھا ہے۔ حمدیہ اور نعتیہ شاعری کے لیے فنی مہارت اور جمالیاتی شعور سے زیادہ توفیق خداوندے کی ضرورت ہوتی ہے اور رحمت بانہالیصاحب کو یہ توفیق خدا نے اعلیٰ ترین صورت میں بخشی تھی۔ وادیٔ چناب کے زرخیز علاقہبانہالی سے تعلق رکھنے والے الحاج رحمت اللہ بیگ مرحوم نے کشمیری اور اردو شاعری کی کئی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے لیکن وہ اپنی زندگی کی طرح اپنی شاعری میں کبھی بھی خدا اور اس کے رسول کے احکامات سے بے خبر نہیں رہے۔ اپنی ذاتی زندگی میں مذہب سے گہری وابستگی کی وجہ سے انہوں نے رسمی کشمیری اور اردو شاعری کی روایات اور رسومات کے مطابق خارجی حسن و عشق کے موضوعات پر شاعری کرنے کے بجائے خالقِ کائنات اور رسول کریمؐ کو اپنی شاعری کے مرکز میں رکھا ہے۔ رحمت بانہالی کے اب تک تین شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ جن کے نام درج ذیل ہیں:
1۔ اسرارِ رحمت (2008ء)
2۔ آثارِ رحمت (2009ء)
3۔ انوارِ رحمت (2019ء)
”اسرارِ رحمت” کشمیری حمد و نعت اور مناجات کا مجموعہ ہے۔ جو 2008ء میں شائع ہوا۔ جب کہ ”آثارِ رحمت” میں اردو حمد و نعت اور مناجات شامل ہیں۔ ”انوارِ رحمت” ان کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری کا تازہ ترین مجموعہ ہے جو 2017ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں رحمت بانہالی نے اپنی نظمیں اور غزلیں بھی شامل کی ہیں۔رحمت بانہالی کی کشمیری اور اردو شاعری کے بارے میں ولی محمد اسیر کشتواڑی نے اپنی کتاب ”صوبہ جموں کے اردو قلمکار” (حصہ دوم) میں تفصیل سے تبصرہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی دوسرے ناقدین نے رحمت بانہالی کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں لکھا ہے۔ رحمت بانہالی کی حمدیہ شاعری کے معیار کا اندازہ درج ذیل اشعار سے لگایا جا سکتا ہے:
تعریف تیری کیا کروں تحریر الہیٰ
محسوس ہوتی ہے مجھے تعذیر الہیٰ
پوشیدگی شاہد تیری موجودگی پہ ہے
ہر چیز سے ظاہر تیری توقیر الہیٰ
آیا ہوں لیے سر پر گناہوں کا گراں بار
ہو در گذر اب سب میری تفصیر الہیٰ
اسی طرح انہوں نے اپنی نعتیہ شاعری میں رسولؐ اور اعلیٰ رسولؐ کی برکتوں، حضرت حسین، جناب فاطمہ کے حوالے سے بھی نذرانِ عقیدت پیش کیا ہے۔ اسیر کشتواڑی نے ’’آثار رحمت‘‘ کا تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’ ’’آثار رحمت‘‘ ایسے علم و آگہی کا ایک خوشنما مرقع ہے جس میں ایمان و ایقان، توحید پرستی، حُبِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عقیدتِ مردانِ خدا کے روشن چراغ قاری کے دل کی ظلمتوں کو دورکر دیتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر یہ کتاب رحمت صاحب کے ایک صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘
(صوبہ جموں کے اردو قلمکار،حصہ دوم ص142)
اظہارِشعر کا انحصار میری سوچ کے مطابق اس امر پر موقوف نہیں ہے بلکہ شاعر کس نوع کے الفاظ کو اپنے اشعار میں شامل کرتا ہے یا اپنی شعری نگارش کو باطنی یا پھر ظاہری حسن کاپیرہن زیب تن کرنا چاہتا ہے تاکہ معنوی امکانات شعر میں زیادہ سے زیادہ اجاگر ہو کر شاعر کی بالید فہمی کا مظاہرہ ہو اور وہ نمائندہ شعراء کی صف میں شمار کیا جا سکے۔جہاں تک شعری مجموعہ بعنوان ”انوار رحمت” میں شامل شعری اثاثہ کا سوال ہے بعد از مطالعہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ شاعر موصوف کا مطالعہ، ترتیبِ الفاظ خارجی اور داخلی رجحانات اور موضوعات عالمانہ انداز کا عکاس ہے اور ان کا موضوعاتی ذخیرہ بھی وسیع ہے۔
کیا یہ دنیا ہے کیا جہاں آخر
کیا ہے یہ ارض و سماں آخر
تاب دیدں کہاں مجھے حاصل
ہو ہی جائے وہ گر عیاں آخر
حکم ہوتے ہی سوچ کرتا ہے
سو منزل رواں دواں آخر
یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی لازمی ہے کہ درج بالا اشعار میں استعجابی سماں کے ساتھ ساتھ اسراری کیفیت بھی نمو پذیر ہے۔ آئے دن اکثر و بیشتر اخبارات و رسائل میں غیر معیاری شعر و ادب کی بہتات دیکھنے کو ملتی ہے، جس میں نہ تورنگِ سخن ہوتا ہے اور نہ ہی بادبی تازگی ہوتی ہے۔ راقم السطور کی اس بے جا رائے کو مبالغہ نہ تصور کرتے ہوئے البتہ مایوسی کا بے جا اعتراض اظہار بلکہ موجودہ ادبی صورت حال کا ایک دل دوز پہلو اگر سمجھا جائے تو نہایت ادب پروری ہوگی۔ شاعر موصوف ہو کہ نہایت ہی کم گو اور خاموش طبعیت کے مالک ہیں اور نشرواشاعت میں قدر کم دلچسپی رکھتے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا بیشتر کلام اخبارات اور رسائل میں قلیل تعداد میں مطالعہ کو نصیب ہوتا ہے۔ رحمت صاحب کے درج ذیل کلام سے ان کی شاعری کے موضوعات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
دل آہستہ ہے آہن نہیں ہے
فقط دکھ درد کا برتن نہیں ہے
دنیا رنج و راحت سے عبارت
حسرت کا فقط مسلک نہیں ہے
زمانہ کیوں تیرا شاکی ہے اکثر
جو تیری سوچ میں الجھن نہیں ہے
تجھے مرغوب رحمت نعمت خوانی
غزل کہنے کی جانب من نہیں ہے
عصرِ حاضر کے سخن کی سخن گوئی میں وہ معیاریا لب و لہجہ نہیں پایا جاتا ہے جو عہد قدیم کے شعراء کا طرۂ امتیاز تھا۔ آج شاعری کامحاسب مشاعروں میں شرکت کرنے والے شاعروں کو ادبی حیثیت نہیں دیتا ہے جو کہ اس سے قبل سلسلہ مروج تھا۔بقول رحمت:
روح باطن کی گدا ہے شاعری، دل کے اندر کی صدا ہے شاعری
کاشفِ اسرار جاذبِ اندرون، مہیط رازِ خدا ہے شاعری
شیوۂ درویشی و فقرو تمنا، رب کی بخشش کی دعا ہے شاعری
سعدی و اقبال و جامی کی زباں، اک کلامِ جانفرا ہے شاعری
شعر و ادب کا تعلق بنیادی طور پر شاعر اور ادیب کی شخصیت، مزاج، افتادِ طبع اور اس کے نجی تجربات اور محسوسات کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے وہ اپنے فن پاروں کے تخلیقی لوازمات کو پورا کرتا رہتا ہے۔ جہاں تک رحمت بانہالی کے شعری مجموعہ ”انوارِرحمت”میں شامل شعری نگارشات کا تعلق ہے کے مزاج کا تقاضہ ہے اس میں پرانی علامتوں کی تکرار اور فرسودہ و گھِسے پِٹے تلازموں کے بجائے تازہ ترین علامتیں اور الفاظ میں جدید نوعیت کے تلازمے مطالعہ کو ملتے ہیں۔ صاحبِ موصوف میری نظر میں ان جان دیدہ شعراء میں شمار ہوتے ہیں جو اکثر وقت کے مزاج کے بدلتے دھاروں اور تعمیر و ترقی کے نشیب و فراز پر نمودار ہوتے ہیں۔ جن کی نگاہِ کامل میں ایک طرف تو عصرِ حاضر کی شکست و ریخت کا عرفان اور دوسری طرف ماضی کے نقشے پہ آویزاں نظم و نثر کے احترام کا تصور بھی ہوتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
نئے ہی طرزِ بسر کی دنیا، نئے ہی فکرونظر کی دنیا
نیا ہی سامان عیش و عشرت، نئے ہی حسب و ہنر کی دنیا
نئے ہی ہیں خلق و ملک کا عالم، نئی اُم کے نئے پتمبر
نیا ہیں مذہب نیا ہی مسلک نئے ہی نقطہ و نظر کی دنیا
بدل ہی جائے کہیں نہ یکسر نظام تخلیقِ جنسِ آدم
کہ کار خانے بنا رہے ہیں جدید تر جسم و سر کی دنیا
جُٹا کے سامان چلا ہے مغرب برائے تعمیر اہلِ مشرق
کی روند ڈالے وہاں کی بستی وہاں کی فکر ونظر کی دنیا
نہ کر زمانے کی فکر رحمت کی کارسازِ جہاں خدا ہے
ہے اس کے زمے نظامِ بستی اس کی ہے خشک و تر کی دنیا
عصرِحاضر کا شاعر اب قدیم روایات کی قید و بند کا قائل نہیں ہے۔ یہ اب زمانہ قدیم کے طرز کی تقلیدیت سے فرار چاہتا ہے۔ سائنس کی بے بہا برکات، نئی آوازیں، نیا شعور، نئی حسن آفرینی، نئی معنویت، نئی اصطلاحات یا پھر قدیم علامات کا نیا مفہوم اس کے اظہار کا طر? امتیاز ہے۔ گل و بُلبُل کے تذکرے اور فرسودہ علاماتِ حُسنِ زن کے بجائے غیرت و محرومی، سیاست اور نعت کے ساتھ ساتھ زندگی کے نشیب و فراز کا قائل دلدادہ ہے۔
جہاں تک رحمت بانہالی کے شاعری کا سوال ہے۔ اس معیار کے چنداں شعراء بساط عالم پہ با حیات نظر آ رہے ہیں۔ انھوں نے اصناف سخن کے تمام تر زاویے کھنگالے ہیں لیکن ان کا خاص کارنامہ حمد، نعت ومناجات ہے۔ نعت خوانی ان کا دلپذیر مشغلہ ہے۔ اس صنف پر جب بھی طبع ازمائی کرتے ہیں وجہ کی گہرائیوں میں ڈوب کر لکھتے ہیں۔ بطور نمونہ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
خالقِ دو جہاں کے پیارے
شاہِ شاہان میں رحمتِ عالمؐ
ماہِ تاباں ہیں رحمت عالمؐ
خالقِ دو جہاں کے پیارے
جانِ جاناں ہیں رحمت عالمؐ
ہیں معالج حکیم حاذق بھی
دل کے درماں ہیں رحمت عالمؐ
کشتِ زارم زِلُطفِ أوشاداب
ابرِ نیساں ہیں رحمتِ عالمؐ
”انوارِرحمت” میں مختلف عنوانات پر بھی طبع آزمائی نہایت عالمانہ انداز میں کی گئی ہے جیسے میرا وطن، شاعری، نئی دنیا، قوم کے نوجوانوں سے خطاب، رنج و راحت، حاسد، جوانی کی یاد، ہندوپاک کو مشورہ، یوم جمہوریہ، انتباہ، بعد از مرگ، دہشت گردی، دنیا کی دلکشی، ہمسفر، مالک رام آنند، ہمارا بھائی چارہ وغیرہ۔ ان نظموں کے اسلوب اور زبان و بیان سے رحمت بنہالی کا انفراد نمایاں ہوتا ہے۔
عصر حاضر میں اردو ادب کا ترجمہ موضوع تعطل کا شکار ہے۔ باوجود اس کے شاعر موصوف نے اپنی تخلیقات کی وساطت سے خطہِ افلاس سے نیچے حیاتِ گزر کے نشیب و فراز اور گزر بسر کرنے والے عوام الناس کے مسائل کو بروئے کار لانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں:
نفس کا احتساب اچھا ہے
فکرِ کارِ ثواب اچھا ہے
مفلسی میں نہ حوصلہ ہارو
بن کے رہنا نواب اچھا ہے
جسم کا بوجھ جب لگے بھاری
موت آئے شتاب اچھا ہے
جس کے آگے نہ پیش چل پائے
درگزر صبر و تاب ہے
اگر دیکھا جائے تو ریاست جموں و کشمیر کے تمام علاقوں میں شعر و ادب کے حوالے سے سب سے زیادہ زرخیز علاقہ وادیٔ چناب کا علاقہ رہا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ کشمیری شاعری کے حوالے سے لال دید اور مہجور وغیرہ اور اردو شاعری میں حامدی کاشمیری، غلام رسول نازکی، عرش صہبائی وغیرہ کے نام بڑے احترام سے لیے جاتے ہیں لیکن وادیٔ چناب میں صرف ماضی میں ہی نہیں بلکہ عصرِ حاضر میں بھی کشمیری اور اردو کے ایسے کئی آفتاب و مہتاب نظر آتے ہیں جن کی روشنی کشمیری اور اردو شاعری کو منور کرتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ خطۂ چناب کے مجموعی ادبی تاریخ پر بشیر بھدروای اور اسیر کشتواڑی کے علاوہ غالباً کسی نے بھی کھل کر قلم نہیں اٹھایا۔ جب کہ خطۂ چناب میں کشمیری اور اردو کے ہی نہیں بلکہ فارسی کے بھی کئی عالم و فاضل شاعراور محقق و نقاد ہوئے ہیں، ان کی تحریروں کو حاصل کر کے شائع کرنا اربابِ اقتدار کی ذمہ داری ہوتی ہے، کیونکہ کسی بھی علاقہ، زبان اور قوم کی عظمت اور شناخت کا اندازہ اس کی علمی اور ادبی خدمات سے لگایا جا سکتا ہے لیکن اس معاملہ میں ہم تساہلی سے کام لے رہے ہیں۔
7889762542