معسودہ عنایت
رباعی اردو کی ایک مقبول صنفِ سخن ہے۔یہ جتنی مقبول ہے اتنی ہی مشکل صنف بھی تصور کی جاتی ہے۔اس کے متعلق ماہرین الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔بعض کے مطابق رباعی دیگر اصناف کے مقابلے میں آسان صنف ہے جب کہ زیادہ تر لوگوں کے خیالات اس کے برعکس ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ رباعی گو شعرا کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے جب کہ بعض کا خیال ہے کہ اکیسویں صدی رباعی گو شعرا کی صدی ہے کیوں کہ اس صدی نے جتنے رباعی گو شعرا پیدا کئے،شاید ہی کسی صدی میں پیدا ہوئے ہوں۔کچھ کا ماننا ہے کہ رباعی کی عروض اور بحر غزل کے برعکس آسان ہے ۔غزل کسی بھی بحرمیں کہی جا سکتی ہے جب کہ رباعی کے بحور کی تعداد متعین نہیں ہیں۔بلکہ رباعی کی چوبیس ہی اوزان مقرر ہیں اس لئے رباعی میں طبع آزمائی کرنا آسان ہے ۔راقم رالحروف کی نظر میں یہاں ابھی اتنے بھی رباعی گو موجود نہیں ہیں کہ ا ن کی تعداد کو اطمینان بخش کہا جا سکے۔علیم صبا نوری نے’’جہانِ رباعی‘‘کے نام سے ایک کتاب ترتیب دی ہے اس کتاب سے رباعی گو شعرا کی تاریخ اور ان کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کا نمونۂ کلام بھی دیا گیاہے۔جس سے اردو رباعی کی موجودہ سمت و رفتار کا پتہ چل سکتا ہے۔
راقم الحروف کی تحقیق کے مطابق اس صدی میں جو معروف رباعی کہنے والے پیدا ہوئے ہیں ان میں ناوک حمزہ پوری،کوثر صدیقی،ڈاکٹر حافظ کرناٹکی،علیم صبانویدی،عبدالمتین جامی،ڈاکٹر عبدالحق امام،مقبول احمد مقبول،شمس الرحمن فاروقی، پروفیسر سید وحید اشرف،ظہیر الدین غازی پوری،فضا ابن فیضی،عادل حیات وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ان میں چند شخصیات اب ہمارے درمیان نہیں ہیں اور بعض الحمداللہ! بقیدِحیات ہیں۔انہی میں ایک نام جموں و کشمیر سے تعلق رکھنی والی ایک معروف شخصیت ڈاکٹر فرید پربتی کا ہے جو اَب حیات نہیں ہیں ۔
فرید پربتی ایک عہدساز رباعی گو شاعر ہیں جو پچھلی تین دہائیوں سے اردو رباعی کے میدان کو فروغ بخش رہے ہیں۔جموں و کشمیر کے شعرا میں ایک ایسا نام جنھوںنے رباعی گوئی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا تھا۔انھوں نے اور بھی اصناف میں طبع آزمائی کی تاہم رباعی گوئی ان کا اہم میدان ٹھہرا۔اسی میں زندگی بھر تخلیقات پیش کرتے رہیں۔انھوںنے نہ صرف نہ صرف رباعیوں کے مجموعے شائع کیے بلکہ ان کی رباعی گوئی کے فن پر کئی تنقیدی مضامین بھی شائع ہوئے۔یہ کہنا زیادہ بجا ہوگا کہ فرید پربتی رباعی گوئی کے اہم ناقد قرار دیے گئے۔انھیں رباعی کے عروض و بحور اور اوزان پر جس قدر دسترس تھی اتنی آج کے دور میں خال خال ہی شعرا کو حاصل ہے۔ویسے بھی رباعی گو شعرا کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔اس سے متعلق ماہرین الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔فرید پربتی کی کلیات’’ہزار امکان‘‘ کے نام سے 2011 میں شائع ہوئی۔جس میں ان کی سینکڑوں رباعیاں شامل ہیں جو مختلف النو ع موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔
فرید پربتی کے شعری مجموعوں میں ’’آبِ نیساں‘‘(غزلوں اور رباعیوں کا مجموعہ)، ’’اثبات‘‘ (غزلوں اور نظموں کا مجموعہ)،’’گفتگو چاند سے‘‘(نظمیں و غزلیں)،’’فریدنامہ‘‘(رباعیوںکا مجموعہ)، ’’خبر تحیر‘‘(رباعیوں کا مجموعہ)،’’ہزار امکان‘‘(غزلوں وتضامین کا مجموعہ)،’’ہجومِ آئینہ‘‘(غزلوں اوررباعیوں کا مجموعہ) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ان مجموعوں میں متفرق تخلیقات بھی شامل کی گئی ہیں۔فرید پربتی کے شعری مجموعوں کا نام گنانا دراصل اس لئے ضروری سمجھا گیا تاکہ ایک قاری یہ جان لیں کہ موصوف کی شعری کائنات کتنی وسیع ہے اور انھوں نے کتنا سرمایہ یادگار کے طور پر چھوڑا ہے۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان مجموعوں میں ان کی رباعیات کا کتنا حصہ ہے۔
فرید پربتی کی رباعیات کو نہ صرف جموں و کشمیر کے محققین و ناقدین نے اپنا موضوع بنایا ہے بلکہ دیگر یعنی بیرون ریاستوں کے معروف دانشوروں نے بھی ان کی رباعیات اور فن کی تعریف کی ہے۔بیرونی ادیبوں اور دانشوروں کو فرید پربتی کی رباعیوں میں دلچسپی کی جو وجہ رہی ہیے وہ ہیں ان کے خوشگوار تعلقات جو عرصہ دراز پر محیط ہیں۔فرید پربتی اکثر بیرونی ریاستوں کے دورے پر جاتے ہیں اور وہاں کے ادیبوں اور نقادوں سے ملاقات کرتے ہیں۔اس طرح ان کے اچھے اور خوشگوار تعلقات قائم ہوئے۔اتنا ہی نہیں بلکہ فرید پربی کی رباعیاں حقیقی معنوں میں انھیں طرف متوجہ کرتی ہیں۔جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا ہے کہ رباعیاں لکھنے والے زیادہ موجود نہیں ہیں ۔شاعر تو بہت ملیں گے خصوصاً غزل گو شعرا۔چنانچہ رباعی گو شعرا ابھی خال خال ہی نظر آتے ہیں۔یہاں جو شاعر رباعیاں کہتے ہیں ان میں فنی اور تکنیکی اعتبار سے بہت جھول ہوتا ہے۔بعض تو اپنے قطعات کو رباعیوں کا نام دے کر اس صنف کے زوال کا باعث بن رہے ہیں۔اس صدی میں جو شعرا رباعی کے باول و پر سنوارنے میں ہمہ تن کوشاں نظر آتے ہیں ان میں فرید پربتی کا نامی گرامی بہت اہم ہے۔
فرید پربتی کی کلیات’’ہزار امکان‘‘میں غزلیں تضمنیں ہیں۔جب کہ ’’فرید نامہ‘‘صرف رباعیوں کا مجموعہ ہے۔اس مجموعے کی پہلی رباعی ملاحظہ فرمائیں:
بازار کے معیار کو اب تول ذرا
خاموش ہے کیوں بول ذرا بول ذرا
تازہ ہیں مضامین نئی طرز ادا
اے فکر رسا بندِ قبا کھول ذرا
(ہزارامکان،ص37)
یہ رباعی اشارہ ہے عہدِ حاضر کے ادبی معیار کا ،پھر اشارہ ہے لوگوں کی خاموشی کا جو تازہ صورت حال اور بے باکی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں۔اسی طرح پھر تیسرے میںشاعر اس صورت حال میں اپنی مضامین کی تازگی ،نئی طرز اداکا احساس دلانا چاہتا ہے۔اس ضمن میں وہ قارئین سے مخاطب ہوتا ہے کہ کہ وہ اپنی فکر رسا کو وسعت بخشے دیں اور دیکھیں ساتھ ہی محسوس بھی کریں کہ بازار میں معیار کا کیا چلن ہے اور ہم کیا دے رہے ہیں۔
فریدپربتی اپنے شعری سفر اورمذکورہ بالا میں اظہار کے تجربے کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں:
’’آج تک میرے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کو میں نے کبھی اپنے احتساب کا آئینہ نہیں بنایا کیوں کہ میں اپنے بارے میں سب سے زیادہ جانتا ہوں۔میں اپنی خوبیوں اور خامیوں سے کماحقہ واقفیت رکھتا ہوں اور باخبر انہ زندگی گزارتا ہوں۔میں بنئے کی طرح کبھی اپنا گڑچھپاکر نہیں رکھتا ہوں۔ میں اپنے تخلیقی تجربے سے،اپنے حالات سے، اپنے مقسوم سے اکیلے ہی سامنا کرتا ہوںاور ایک دن اپنی موت سے بھی اکیلے ہی سامنا کرتا ہوںکروں گا۔اسی وجہ سے میری ہر کاوش کو انفرادیت کا ہار سنگار پہن کر منصۂ شہود پر آتی ہے۔میں اپنے عصر کی اتھل پتھل سے واقف ہوں اور اس اتھل پتھل کے تقاضوں سے بھی ہمیشہ قدم قدم پر پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں اور یہ میری انفرادی عادت بن گئی ہے۔اگرچہ میں نے اپنے بچپن میں اماں سے سن رکھا تھا کہ طلسمات میں پیثھے مڑ کر دیکھا نہیں جاتا اور اس عمل کو دوہرانے والے پتھر میں ڈھل جاتے ہیں۔‘‘(1)
شاعری کے تعلق سے فرید پربتی کی رائے کا جاننا بہت ضروری ہوجاتا ہے ۔چوںکہ اس وقت ان کی شاعری کے بارے میں تذکرہ ہو رہا ہے اس ضمن میں ان کے شعری اظہار اور اس کے وسیلۂ امکان کو جاننا اور بھی لازمی ہے۔وہ شعر،شعریت اور اس کے امکان کے تعلق سے کیا کیا تصورات رکھتے ہیں آئیے ان ہی کے اقتباس سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں:وہ رقمطراز ہیں:
’’شاعری کا منظرنامہ دلکش بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔افقِ شعر پر متعدد رنگ ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے گزرتے ہیں۔اور ہر رنگ کو اصرار ہے کہ وہی سب سے زیادہ سچا اور موزون رنگ ہے۔میرے نزدیک شاعری اظہارِ ذات کا ایک اہم وسیلہ ہے۔یہ اپنے اصل مفہوم کے لحاظ سے زمان و مکان کی حدود و قیود سے یکسر بالا تر ہوتی ہے۔شاعری جدید ہے نہ قدیم بلکہ صرف شاعری متنوع اظہار کے سانچوں کے باوجود یہ اپنی اصلیت کی دفاع کرتی ہے۔نغمہ خواں کبھی اکتارے اور کبھی سنطور کا سہارا لے کر اپنے سننے والوں کو متوجہ کرتاہے اور مسرت اوربصیرت کی وادیوں کی سیر کرواتا ہے۔
کوک کروں تو جگ ہنسے
ایسی کٹھن سنیہہ کا بدھ کروں اُپاؤ
کبیر جی(2)
فرید پربتی غزل کے ساتھ ساتھ رباعی کی نشوونما میں بھی زندگی بھر لگے رہے۔وہ اپنی تخلیقات کی خود ہی نوک پلک سنوارتے تھے ۔کیوں کہ وہ اس فن میں خود یکتا تھے یہاں تک کہ اوروں یعنی ان کے معاصر شعرا کی شعری تخلیقات کی بھی نوک پلک صحیح کرتے تھے اور اصلاح فرماتے تھے۔وہ بے باک تھے۔سچا پن اور کھراپن اُن میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ان کی باتیں بعض لوگوں کو بری بھی لگتی تھیں تاہم وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے ہیں بلکہ طنزاً بھی سامنے وار کرتے تھے۔انھوںنے اپنی رباعیوں کے لئے متنوع موضوعات اختیار کئے۔جس موضوع پر قلم چلایا وہجواہر بن گیا۔ان کی رباعیاں دور حاضر میں خاصی مشہور ہیں۔اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ خود میں محصور نہیں رہتے ہیں ۔وہ سماجی شخصیت تھے۔ان کی شخصیت کا ان کی رباعیوں میں عکس خوب نظر آتا ہے۔ڈاکٹر احمد صغیر کے مطابق:
’’فرید پربتی کا مجموعہ’’فرید نامہ‘‘ پڑھنے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ رباعی کے فن کا پورا لحاظ رکھتے ہیں۔ان کی رباعیوں میں روایات کی پاسداری، عقل و شعور کی متوازی لکیر، نئے افکار و خیالات، سلاست اور روانی،جدت ادا، نیا رنگ و آہنگ اور بے ساختہ پن موجود ہے نیز ان کی رباعیوں میں مختلف النوع موضوعات ملتے ہیں۔فرید پربتی اپنے اعلیٰ مقاصد کو مفاہیم کا خوبصورت جامہ پنا دیتے ہیں۔‘‘(3)
فرید پربتی کی رباعیاں زندگی کے اعلیٰ مفاہیم کو پیش کرتی ہیں۔مذکورہ بالا میں جن خیالات کو پیش کیا گیا ہے اور احمد صغیر کی آراء کاجائزہ لینے کے بعد اس بات کا احساس بہ خوبی ہوتا ہے۔اس ضمن میں چند رباعیاں پیش ہیں:
بے کیف شب و روز کو اچھا کر دے
ارمان مرا اب کے یہ پورا کر دے
ہیں موت کے سامان یہاں چاروں طرف
اب زیست کے سامان مہیا کر دے
تاریکی میں مصلوب رہا ہے سورج
طالب تو کبھی مطلوب رہا ہے سورج
بڑھنے لگے اس درجہ پرائے سایے
مٹکے میں یہاں ڈوب رہا ہے سورج
ہر ایک عمل ردِ عمل رکھتا ہے
ہر اچھا برا اپنا بدل رکھتا ہے
بیٹھا ٍہوں اسی پیڑ کے سایے تلے
جو پیڑ نہ ہی پھول نہ پھل رکھتا ہے
فرید پربتی عروض و بحور اور اوزان وغیرہ سے واقفیت رکھنے کے باوجود سادہ و عام فہم زبان میں رباعی کہتے ہیں۔ان کی شخصیت کا اثر ان کی رباعی گوئی میں بھی نظر آتا ہے۔موصوف کی رباعیوں کے مطالب بھی بہ آسانی سمجھ آتے ہیں۔اس لئے ایک عام قاری بھی ان کی رباعی گوئی سے حظ اٹھاتا ہے۔ذرا یہ رباعی دیکھئے:
پھولوں سے چرا کر وہ مہک بھیجتا ہے
آکاش کی خوش رنگ دھنک بھیجتا ہے
خالی نہیں رہ سکتا ہوں وہ جانتا ہے
زخموں کے لئے تازہ نمک بھیجتا ہے
مندرجہ بالا رباعی کی سادگی اور اس میں پائی جانے والی رمزیت بھی محسوس کیجئے۔اس نوعیت اوراختصار سے پیش کی گئی رباعیاں کم ہی ملتی ہیں۔فرید پربتی اپنی رباعیوں میں اختصار اور جامعیت کو ملحوظ نظر رکھتے ہیں اور وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ عناصر رباعی کی صنف کے لئے لازمی جز ہیں اور ان میں توازن قائم رکھنااس کا وصف بڑھاتا ہے۔فریف پربتی کی رباعیات کا ایک خاص پہلو ان کی اسلوبیاتی، موضوعاتی اور ہیئتی ضابطہ بندی ہے۔انھیں رباعی کو برتنے کا التزام بہ خوبی آتا ہے۔وہ اس کے سانچے کی تنگ دامانی سے اکتا نہیں جاتے بلکہ وہ اس میں نت نئے موضوعات اور خیالات کی بازیابی میں کوشاں رہتے ہیں۔وہ اپنے منفرد اسلوب کی پہچان کو برقرار رکھنے میں بھی فکر مند نظر آتے ہیں۔بدلتے ہوئے عصری تقاضوں سے انھیں نپٹنا آتا ہے۔ان کے یہاں مضامین خود بہ خود سانچہ بناتے ہیں اور اپنے آپ بہترین اسلوب میں ڈھلنا شروع ہوجاتے ہیں۔چند رباعیاں ملاحظہ فرمائیں:
چاہت میں حدیں ساری مٹاتا جاؤں
دل چیز ہے کیا جاں بساتا جاؤں
اس حسن خدا داد کو تکنے کے لئے
ہر عضو بدن آنکھ بناتا جاؤں
لپٹا ہے گلے مجھ سے ڈسنے کی طرح
وہ آن بسامجھ میں بسنے کی طرح
اک نقطہ موہوم بنا جاتا ہوں
دیکھو دیکھو کوئی یہ کسنے کی طرح
اطراف میں خوشبو کھلی لگتی ہے
سانچے میں نئی طرح ڈھلی لگتی ہے
آنا وہ ترا ہو کہ چلے جانا ترا
ہر ایک ادا تیری بھلی لگتی ہے
یہ اور اس نوعیت کی درجنوں رباعیاں فرید پربتی نے کہی ہے۔ ان کی رباعیوں حیات و کائنات کے کئی پوشیدہ و غیرپوشیدہ اسرار کھلتے نظر آتے ہیں۔وہ فلسفیانہ نوعیت کی رباعیاں بھی کہتے ہیں اور سیاسی،سماجی ،معاشی اور اخلاقی نعویت کے موضوعات کو بھی اپنی رباعیوں میں اجاگر کرتے ہیں۔اگر فرید پربتی کی رباعی گوئی کا بھرپور تجزیہ کیا جائے تو یقینا اس پر طویل گفتگوہو سکتی ہے۔یہی بات ان کی رباعیوں کی طرف کشش کا باعث بنتی ہے۔