سبزار احمد بٹ
آج تک اردو دنیا میں جتنے بھی شاعر، ادیب اور قلمکار پیدا ہوئے ہیں ۔ان میں ڈاکٹر راحت اندوری کا نام سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے ۔یہ روشن چراغ جنوری 1950 میں مدیہ پردس کے شہر اندور میں طلوع ہوا تھا۔ ابتدائی تعلیم نوتن اسکول مدیہ پردیش سے حاصل کی۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے” اردو میں مشاعرہ "کے موضوع پر پی ایچ پی ڈی کی ڈگری حاصل کی۔راحت ایک عالمی شہرت یافتہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص اور منفرد لب و لہجہ کے شاعر تھے ۔یہی منفرد لب و لحجہ ان کی پہچان بن گیا۔ ان کے لب و لحجے میں ایسی کشش تھی کہ لوگ ان کا مشاعرہ سماعت کرتے ہوئے بہت ہی زندہ دلی اور ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے تھے۔ راحت تحت اللفظ میں شعر پڑھ کر مشاعرہ لوٹ لیتے ہیں ان کی اسی خوبی کا ذکر کرتے ہوئے وامق جونپوری لکھتے ہیں کہ ” راحت ایک کامیاب ترین تحت اللفظ شاعر ہیں چند مبصرین ان کو مشاعروں کا سلطانہ ڈاکو کہتے ہیں راحت اپنے منفرد اسلوب تحت اللفظ میں شعر کی وہ تصویر کھیچتا ہے کہ ان کا کلام سامعین کے ذہن میں نشتر کی طرح اتر جاتا ہے ” راحت اندوری کی شاعرانہ خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے رفعت سروش انہیں سورج اور پرندوں کا شاعرکہتے ہیں۔ بقول ان کے راحت نے سورج اور پرندوں کو بطورِ استعارہ کثرت سے استعمال کیا ہے یہ دونوں استعارے معنی خیز ہیں اور فکر کی گرہیں کھولتے ہیں جیسے
اندھیرے رات کے گمراہ جگنوؤں کے لیے
اداس دھوپ کی ٹہنی پہ رات رکھ دینا
ہمیں چراغ سمجھ کر بجھا نہ پاؤ گے۔
ہم اپنے گھر میں کئی آفتاب رکھتے ہیں
ابھی سورج صدا دے کے گیا ہے
خدا کے واسطے بیدار ہو جا۔
بقول وسیم بریلوی ” راحت اندوری میزائیلی لہجے اور تیزابی تیور کے فنکار ہیں ” جبکہ مظفر حنفی کا ماننا ہے کہ فراق کے بعد راحت ایسے دوسرے شاعر ہیں جو اسٹیج پر اپنے شعر کی تصویر بن جاتا ہے
راحت نوجوانوں کی نبض تھامنا بھی جانتے تھے۔ انہوں نے نوجوانوں کے لئے بہت سے اشعار تخلیق کئے۔ انہوں نے فلموں کے لیے بھی کام کیا ہے اور بہت کامیاب بھی رہے۔ انہوں نے ُ منا بھائی ایم بی بی ایس ُگھاتکُ قریب ُنیند چرالی ُمرڈر ُ خوف ُآرزو وغیرہ کے لئے بھی کامیاب گیت لکھے ۔ہندی کوی سمیلن میں بھی اردو کا جادو چلاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندی والے بھی راحت اندوری کے دیوانے تھے۔ وہ مشاعروں کے بے تاج بادشاہ تھے اور عوامی شاعر تھے۔ جو اپنی شاعری کے زریعے عوام کے دلوں پر راج کرتے تھے۔ راحت صاحب کی شاعری سے سامعین کو راحت ملتی تھی۔ موجودہ نسل اور شاعری کے درمیان بڑھتے خلیج کو کم کرنے میں راحت اندوری کی شاعری سود مند ثابت ہو رہی ہے ۔کیونکہ ان کی شاعری سادہ اور سلیس ہے ۔ جسے سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور لوگ شاعری کے قریب آتے ہیں۔ کبھی کبھی مشکل الفاظ بھی شاعری میں استعمال کئے لیکن ایسا کوئی شعر پڑھنے سے پہلے اس الفاظ کی وضاحت کرتے تھے تاکہ سننے والوں کو کوئی دقت نہ ہو۔ راحت کی شاعری سمجھنے کے لیے دماغ پر زیادہ دباؤ نہیں ڈالنا پڑ رہا ہے بلکہ ان کا شعر سماعت کرتے ہی روح میں اتر جاتا یے انہوں نے غزل میں ایک نئ راہ نکالی ہے اور پرانے طرزِ کو کسی حد تک ترک کر دیا۔ موجودہ صدی کی شاعری میں راحت اندوری کا کلیدی کردار ہے۔ ان کے جو شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ان میں دھوپ دھوپ، پانچواں درویش، میرے بعد، ناراض، موجود اور رُت بدل گئی قابل ذکر بلکہ قابل سرہانہ ہیں۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے سینکڑوں اشعار زبان ذد عام ہو چکے ہیں ۔اور اکثر عوامی جگہوں پر راحت اندوری کے اشعار استعمال ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے دیوی اہلیہ یونیورسٹی میں بطور اردو پروفیسر کام کیا ہے یعنی جہاں جاتے تھے چھا جاتے تھے۔ میں اگر انہیں انقلابی شاعر کہوں گا تو غلط نہ ہوگا۔ ان کے ایک ایک شعر سے جوش، جزبہ، احساس اور درد ٹپکتا ہے۔ڈاکٹر صاحب محبت کے شاعر تھے جنہوں نے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی شاعری کے زریعے محبت کا پیغام عام کیا راحت اندوری کہتے ہیں
جنازے پر میرے لکھ دینا یارو
محبت کرنے والا جا رہا ہے
ہم اپنی جان کے دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں
محبت کی اسی مٹی کو ہندوستان کہتے ہیں
میرے اندر سے ایک ایک کر کے سب کچھ ہو گیا رخصت
مگر ایک چیز باقی ہے جسے ایمان کہتے ہیں
وہ محبت چاہتے تھے اور نفرت سے سخت نفرت کرتے تھے وہ محبت کی تجارت کے حامی تھے اور ان کا ماننا تھا کہ محبت کی تجارت کرنے میں نقصان ہونے کا ڈر نہیں ہے کہتے تھے
پھولوں کی دکانیں کھولو خوشبو کا بیوپار کرو
عشق خطا ہے تو یہ خطا اب بار نہیں سور بار کرو
ان کی شاعری مظلوموں کی آواز تھی جو ان کی شاعری کے زریعے چیخ بنتی تھی اور پوری دنیا تک پہنچتی تھی۔ انہوں نے اپنی شاعری کے زریعے ایوانوں تک کو ہلا کر رکھ دیا ۔تعصب اور نفرت پھیلانے والے لوگوں کی روح تک جنھجوڑ کر رکھ دیتے تھے راحت کی شاعری کا ایک پہلو احتجاج بھی ہے ان کے اشعار میں نہ صرف احتجاج اور بےباکی ہے بلکہ مذمتی پہلو بھی نمایاں ہے نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
خلاف ہے تو ہونے دے جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی ذد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
یہ جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہونگے
کرائے داد ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
ایک اور جگہ کچھ اس طرح سے رقمطراز ہیں
ایک اور جگہ پر راحت اندوری کچھ یوں رقمطراز ہیں
تجلیوں کا نیا دائرہ بنانے میں
مرے چراغ لگے ہیں ہوا بنانے میں
اَڑے تھے ضد پہ کہ سورج بنا کے چھوڑیں گے
پسینے چھوٹ گئے دیا بنانے میں
مری نگاہ میں وہ شخص آدمی بھی نہیں
جسے لگا ہے زمانہ خدا بنانے میں
ایسے اشعار پڑھنا راحت اندوری کا ہی کمال تھا۔ ایک ایک شعر میں للکار ہے اور غوروفکر کی دعوت ہے یہ اشعار ان تمام آوازوں کے جواب میں تھے جو ملک میں وفاداری اور غداری کا سند تقسیم کر رہے تھے۔اور ہندو مسلم بھائی چارے کو نقصان پہنچانے کے در پر تھے۔راحت اندوری نے عصری مسائل کو اپنی شاعری میں جگہ دی۔ ۔راحت اندوری کی ایک نظم بہت مشہور ہوئی تھی اور جنگل کے آگ کی طرح نوجوان طبقے میں پھیل گئی بلکہ سوشل میڈیا کی زینت بن چکی تھی کہ
بلاتی ہے مگر جانے کا نہیں
یہ دنیا ہے ادھر جانے کا نہیں
میرے بیٹے کسی سے عشق کر
مگر حد سے گزر جانے کا نہیں
وہ گردن ناپتا ہے تو ناپ لے
مگر ظالم سے ڈر جانے کا نہیں
اس شاعر کے کس کس پہلو پر بات کریں گے۔ وہ اللہ کے بغیر کسی کے سامنے جھکنا گوارہ نہیں کرتے تھے۔ اور نہ ہی کسی کی قصیدہ گوئی کرتے تھے ۔وہ خوددار اور خود اعتماد شاعر تھے۔ جس کا ثبوت یہ اشعار ہیں جو انہوں نے ہزاروں لوگوں کے سامنے بلکہ ملک کی چند سیاسی شخصیتوں کے سامنے پڑھے
اونچے اونچے درباروں سے کیا لینا
ننگے بھوکے بیچاروں سے کیا لینا
اپنا مالک اپنا خالق افضل ہے
آتی جاتی سرکاروں سے کیا لینا
ڈاکٹر صاحب یہ اشعار اتنی اونچی آواز میں ادا کرتے تھے لگتا تھا کہ ان کا مقصد ہے کہ یہ اشعار ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کے کانوں تک پہنچ جائیں ۔اور وہ سمجھ جائیں کہ ہم ان کے سامنے جھولی پھیلانے والے نہیں ہیں۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے ایک ایسا لافانی شعر بھی تخلیق کیا ہے جو بیک وقت دو ملکوں اور دو قوموں کا درد ایک ساتھ بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔۔ اردو ادب میں شاید ہی ایسا دوسرا شعر ہو گا جو ایک ساتھ دو قوموں کا درد بیان کرتا ہو شعر یوں ہے
اب کے جو فیصلہ ہوگا وہ یہی پر ہوگا
ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی
ڈاکٹر راحت اندوری کا ایک مشہور واقع یاد آتا ہے جو وہ اکثر مشاعروں میں بیان کرتے تھے کہتے تھے ایک بار میں نے مشاعرے میں کہا کہ سرکار چور ہے ۔اگلے دن مجھے پولیس سٹیشن بلایا گیا اور آفیسر نے پوچھا ۔کیا تم نے سرکار کو چور کہا؟میں نے کہا ہاں۔ لیکن میں نے یہ تو نہیں کہا کہ ہندوستان کی سرکار چور ہے ،پاکستان کی سرکار چور ہے یا امریکہ کی سرکار چور ہے، تو اس آفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اچھا تو آپ ہمیں بیوقوف بھی سمجھتے ہو۔ کیا ہمیں نہیں پتا ہے کہ کہاں کی سرکار چور ہے؟ ایسے مزاحیہ واقعات سے سامعین کے چہرے خوشی سے کھل اٹھتے تھے اور تالیوں کی گونج سنائی دیتی تھی لیکن یہ چمکتا ہوا ستارہ 11 اگست 2020 کو شام کے پانچ بجے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا ۔جس سے سارا اردو ادب ماتم کناں ہے ۔ بلکہ پورا ہندوستان رو رہا ہے۔
راحت اندوری کے چلے جانے سے اردو دنیا میں ایک ایسا خلا پیدا ہوا جس کی تلافی کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ نا ممکن ہے۔ ایک ایسی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئ جس کی ابھی بہت ضرور تھی۔ چمن سے ایک ایسا گل مرجھا گیا جس سے پورے چمن کی رعنائی میں خلل پڑ گیا راحت کی موت پر ملک کی مختلف سیاسی شخصیتوں نے بھی اپنے تعزیتی پیغامات میں دکھ کا اظہار کیا ہے۔ بہر حال موت سے نہ ہی کس کو انکار ہے اور نہ ہی موت سے کوئی بھاگ سکتا ہے بلکہ ہر شخص لاشعوری طور پر موت کے لیے تیار رہتا ہے کہ کیا پتہ کب کس جگہ اور کیسے موت واقع ہو بقول راحت اندوری
افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے
لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کر دیا
دو گز سہی مگر میری ملکیت تو ہے
اے موت تو نے مجھکو زمین دار کر دیا
راحت اندوری کے بہت سارے اشعار ایسے ہیں جن سے سرسری طور پر گزرنا ممکن نہیں ہے بلکہ یہ اشعار غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں اس طرح کا دعویٰ حقیقت پر مبنی ہے جو خود راحت اندوری نے اس شعر میں کیا ہے
مجھے قریب سے پڑھ سرسری نظر سے نہ دیکھ
میری کتاب میں دلچسپیاں بھی آئیں گی
اللہ ڈاکٹر راحت اندوری کو جنت الفردوس عطا فرمائے اور ان کے چاہنے والوں کو صبر و جمیل سے نوازے
شام ڈھلے ہر پنچھی کو گھر جانا پڑتا ہے
کون خوشی سے مرتا ہے مر جانا پڑتا ہے