جاوید اختر بھارتی
یہ بات تو ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ خودکشی کرنا حرام ہے لیکن اس کے باوجود بھی خودکشی کا رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے آئے دن لوگ خودکشی کررہے ہیں جب تک لوگ عاشق و معشوق کی خودکشی کی خبر اخباروں میں پڑھتے تھے تو طنز و مزاح پر مبنی تبصرہ کرتے تھے ہنستے بھی تھے ہنساتے بھی تھے مگر خودکشی کے بڑھتے واقعات نے آج وہ صورتحال پیدا کردی کہ قوم مسلم کو خون کے آنسو رونے کا وقت آگیا، خود اپنی غیرت کو للکارنے کا وقت آگیا اور خودکشی کو روکنے کے لئے میدان میں اترنے کا وقت آگیا وہ بھی تقریروں کے ذریعے نہیں بلکہ عملی طور پر قدم بڑھانے کا وقت آگیا کیونکہ اب وہ طبقہ خودکشی کرنے لگا جس کے سر ذمہ داری ہے کہ وہ محراب و منبر سے ہر طرح کے حرام کاموں سے بچنے کا پیغام دے یعنی ائمہ مساجد بھی خودکشی کرنے لگے اور ظاہر بات ہے کہ کوئی خوشی میں سرشار ہوکر خودکشی نہیں کرتا ہے بلکہ اپنی ناکامی سے تنگ آکر، غریبی و تنگدستی سے عاجز آکر خودکشی کرتا ہے یقیناً خودکشی کرنا بہادری نہیں ہے بلکہ بزدلی ہے اور حالات سے مقابلہ کرنا اور صبر سے کام لینا بہادری ہے،، سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ جب علماء کرام خودکشی کرنے لگیں گے اور ائمہ مساجد اور چھوٹے چھوٹے مدارس و مکاتب کی مسند سنبھالنے والے خودکشی کریں گے تو پھر ہمارا حال کیا ہوگا ہم کس بنیاد پر کسی کو رنج و الم کے موقع پر تسلی دیں گے،، ائمہ مساجد کی خود کشی خیر امت کے لئے نیک فال نہیں، یہ مسلہ نظرانداز کرنے کے قابل بھی نہیں ہے ہر حال میں قوم مسلم کو کوئی فیصلہ لینا ہوگا عوام کو راہ حق دکھانے کی ذمہ داری علماء کرام و ائمہ مساجد کی ہے تو اب انہیں علماء و ائمہ کے حالات پر نظر رکھنا، ان کی ضروریات زندگی کی سہولیات کو فراہم کرنا کرانا قوم مسلم کی ذمہ داری ہے کیونکہ وہ بھی انسان ہیں-
«قابل توجہ»
مسلمانوں کو یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ائمہ مساجد اور چھوٹے چھوٹے مدارس و مکاتب میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دینے والوں کو کم تنخواہیں دے کر توکل کی بات کرنا اسلامی شریعت کے خلاف ہے،، امام بھی آخر انسان ہے،، اس کے بھی گھریلو اخراجات ہیں، اس کے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا سوال ہے، اس کے سامنے بھی روزانہ تینوں ٹائم کھانے پینے کا مسلہ ہے ان کے ساتھ بھی بوڑھے ماں باپ اور بھائی بہن ہوتے ہیں اور ساتھ ہی بیماری آرامی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اب ایسے میں کسی امام کی تنخواہ پانچ ہزار روپے ماہانہ ہو تو اس کا خرچ کیسے چلے گا آجکل گارا مٹی کرنے والا مزدور صبح نو بج جانے کے بعد کام پر آتا ہے کام شروع کرتے کرتے دس بج جاتاہے اور دوپہر میں ایک بجے لنچ ہوجاتا ہے ایک گھنٹے کے بعد پھر کام شروع کرتا ہے اور شام پانچ بجے کام بند کر دیتا ہے اور تین سو ساڑھے تین سو روپے لے کر اپنے گھر واپس چلاجاتا ہے کم از کم نو ہزار روپے ماہانہ اس کی آمدنی ہوتی ہے اور ایک امام روزانہ پانچ وقت نماز پڑھائے اسے ہم روزانہ ڈیرھ سو سے دو سو روپے تک دیں تو اس کی زندگی تو گارا مٹی کرنے والے مزدوروں سے بھی خراب ہوگی ایک جلسے میں ہم ایک مقرر کو کم سے کم بھی نذرانہ دیتے ہیں تو دس ہزار سے کم نہیں دیتے اور ایک شاعر کو اکثر و بیشتر مقرر سے بھی زیادہ نذرانہ دیتے ہیں اور ایک امام کو پورے ایک دن کا زیادہ سے زیادہ دو سو روپے دیتے ہیں بتائیے کون خوشحال ہوگا مقرر، شاعر، مزدور یا ہماری آپ کی مسجد کا امام؟؟
ائمہ مساجد کی قدر کرنا اور عزت کرنا ضروری ہے ادھر چند ماہ میں اترپردیش، بہار، اتراکھنڈ میں ائمہ مساجد کی خودکشی کی خبروں نے عام آدمیوں کو جھکجھور کر رکھ دیا ہے،، کیونکہ ابھی تک علماء کرام و ائمہ عظام کی خودکشی کے واقعات نہیں سنے گئے تھے لیکن ادھر دس ماہ کے دوران کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں جو بظاہر ناقابل یقین معلوم ہوتے ہیں مگر لاک ڈاؤن کے دوران چھوٹے چھوٹے مدارس و مکاتب کے مدرسین نے کافی مشقتیں اٹھائی ہیں، بڑے اداروں میں بھی پرائیویٹ اساتذہ کے حالات بھی انتہائی ناگفتہ بہ ہوگئے آج تک کتنے بیچارے سنبھل نہیں سکے،، جس طرح غریب شخص دو چار بیٹیوں کی شادی کے بعد تازندگی ابھر نہیں پاتا اسی طرح لاک ڈاؤن کے دوران پرائیویٹ اساتذہ نے جو ٹھوکر کھائی ہے تو وہ آج بھی پریشان حال ہیں یہ واقعات حقیقت کے بہت قریب ہیں اخباروں کی رپورٹ کے مطابق کئی اماموں نے کم آمدنی کی وجہ سے گھریلو اخراجات کا بوجھ نہ اٹھاپانے کی وجہ سے دوسرے کاموں کا سہارا لیا کپڑے کی دکان پر کام کرنے لگے لیکن پھر بھی وہ ہمت ہار گئے اور آخری قدم اٹھا بیٹھے,, حال ہی میں ایک امام صاحب کی لاش پھانسی کے پھندے سے لٹکتی ہوئی دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے اور انگشت بدنداں ہو گئے اس لئے کہ بالخصوص علماء و ائمہ میں حالات اس طرح کے نہیں آتے اور اچانک پے در پے اس طرح کے واقعات دیکھا جانا پوری قوم مسلم کیلئے المیہ بھی ہے اور لمحہ فکریہ بھی ہے-
اگر یہ سب کچھ گھریلو اخراجات کی مار اور ہمت ہار جانے کی وجہ سے ہورہاہے تو پوری قوم اس کے لئے مجرم ہے ،، ہمیں اپنا مزاج تبدیل کرنا ہوگا اپنی سوچ بدلنی ہوگی اور ہمیں سمجھنا ہو گا کہ ائمہ مساجد بھی انسان ہیں، ان کے بھی اہل وعیال ہیں اور ان کے بھی یومیہ گھریلو اخراجات ہیں اس لئے اخراجات کے اعتبار سے ہی ائمہ مساجد کی تنخواہوں کا تعیّن ہوناچاہیے پانچ ہزار، سات ہزار روپے ماہانہ کو زیادہ سمجھنے کی سوچ سے باہر نکل کر دنیا کو قریب سے دیکھنا ہوگا ، امام کی قدر و منزلت کو سمجھنا ہو گا اور ان کے دکھ سکھ میں ہمہ وقت شریک رہنا ہوگا تاکہ مستقبل میں ایسا وقت نہ آئے کہ مساجد کی تعمیر کے بعد امامت کے لئے ہمیں چراغ لے کر ڈھونڈنا پڑے اگر وہ دن آیا تو قوم مسلم کے لئے بڑی بد قسمتی کی بات ہوگی –۔