صوبائی پارٹیوں کی ضد سے ہوگا بھاجپا کو فائدہ

0
223

ڈاکٹرمظفرحسین غزالی
یہ صاف ہوتا جا رہا ہے کہ ملک میں کوئی بھی پارٹی ایسی نہیں ہے، جو اکیلے اپنے دم پر مودی شاہ کی بی جے پی سے مقابلہ کر سکے۔ اسی احساس نے حزب اختلاف کو اپنی سیاسی بساط بچھانے اور گٹھ بندھن کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لمبے عرصے تک ایک دوسرے کی دشمن رہی پارٹیاں بھی ساتھ آگئی ہیں۔ 2014 کے الیکشن میں بہوجن سماج پارٹی قومی سطح پر 4.2 اور یو پی میں 19.6 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے باوجود لوک سبھا میں ایک بھی سیٹ نہیں مل سکی، جبکہ 2009 میں اسے 20 سیٹیں ملی تھی۔ اسی طرح یوپی اسمبلی انتخاب 2012 میں 25.95 فیصد ووٹوں کے ساتھ 80 سیٹیں جیتی تھی جبکہ 2017 میں محض پونے چار فیصد (22.2) کم ووٹوں کی وجہ سے بی ایس پی 19 سیٹوں پر محدود ہو کر رہ گئی۔
بی جے پی 2014 میں ملک کی تیرہ بڑی ریاستوں کی 430 نشستوں میں سے 254 سیٹوں پر کامیاب ہوئی تھی۔ اس نے مدھیہ پردیش، راجستھان، گجرات، کرناٹک، چھتیس گڑھ اور مہاراشٹر کی 166 سیٹوں میں سے 147 پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسے اپوزیشن اور مخالف ووٹوں کے بکھراو¿ کا فائدہ ملا۔ آنے والا لوک سبھا چناو¿ پچھلے الیکشن سے بالکل مختلف ہونے کا امکان ہے۔ یہ ملک کی سیاست، اس کا مستقبل اور پارٹیوں کی حیثیت متعین کرنے والا ہو گا۔ اس لئے تمام چھوٹی اور علاقائی سیاسی جماعتیں اپنے وجود کو لے کر فکر مند ہیں۔ اپوزیشن کی اتحادی ریلیاں اور کاوشیں اس کا ثبوت ہیں۔
علاقائی جماعتوں کی مشکل یہ ہے کہ انہوں نے کسی نہ کسی ریاستی جماعت کو پچھاڑ کر اقتدار حاصل کیا ہے۔ اب انہیں اپنی حریف جماعت کے ساتھ جانے میں دشواری ہو رہی ہے۔ کیونکہ صوبائی اسمبلی الیکشن میں وہ پھر مدے مقابل ہوں گی۔ مثلاً مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس اور لیفٹ۔ دہلی میں آپ اور کانگریس، جموں وکشمیر میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی وغیرہ۔ دوسری طرف ملک کی سیاست کا تقاضا ہے کہ اپوزیشن مل کر بی جے پی کا مقابلہ کرے۔ بکھراو¿ کی صورت میں بڑھت بی جے پی کو ملے گی۔ اس کا تجربہ ریاستی انتخابات میں ہو چکا ہے۔ مہا راشٹر میں این سی پی کے کانگریس سے الگ ہونے کی وجہ سے ہی بھاجپا کو حکومت مل سکی۔ لوک سبھا کا الیکشن مل کر لڑنے کےلئے کانگریس اور این سی پی کے درمیان کئی راو¿نڈ کی بات چیت ہو چکی ہے لیکن ابھی تک اتحاد کا بہ ضابطہ اعلان نہیں ہو سکا ہے۔ جبکہ بی جے پی اور شیو سینا اپنے اتحاد کا اعلان کر چکی ہے۔ گجرات میں این سی پی اور بی ایس پی کے ووٹ کاٹنے کی وجہ سے کانگریس حکومت بنانے سے چوک گئی۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بی ایس پی کے ساتھ نہ آنے سے کانگریس بہت کم فرق سے جیت حاصل کر سکی۔ اب پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کے بغیر اتحاد کی بات ہو رہی ہے۔ جس میں کے سی آر پیش پیش ہیں لیکن یہ اتحاد بی جے پی کا راستہ نہیں روک سکتا۔ اس کی حیثیت ووٹ کٹوا جماعت کی ہو کر رہ جائے گی۔
دہلی کی گدی کا راستہ بہار، یوپی سے ہو کر گزرتا ہے۔ بہار میں کانگریس مہا گٹھ بندھن کا حصہ ہے۔ جیتن رام مانجھی اور اوپندر کشواہا این ڈی اے کا ساتھ چھوڑ کر اس گٹھ بندھن کا حصہ بن چکے ہیں۔ اتر پردیش میں مہا گٹھ بندھن بننے کے قوی امکانات دکھائی دے رہے تھے، جس کی وجہ سے مودی حکومت کی واپسی مشکل نظر آ رہی تھی۔ یو پی میں مہا گٹھ بندھن کا مطلب تھا ایس پی، بی ایس پی، کانگریس اور آر ایل ڈی۔ ان میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کا گٹھ بندھن زیادہ اہم تھا۔ کیونکہ یہ دونوں پارٹیاں 40 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی طاقت رکھتی ہیں۔ کانگریس اور آر ایل ڈی کے شامل ہونے سے گٹھ بندھن کو پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل ہو سکتے ہیں۔ سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ ایسا ہونے پر بی جے پی 71 سے 7 سیٹوں پر سمٹ جائے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بی جے پی یوپی میں ہونے والے نقصان کی بھر پائی کےلئے نارتھ ایسٹ اور جنوبی ہند کی سیٹوں پرزیادہ فوکس کر رہی ہے۔ تمل ناڈو میں اے آئی اے ڈی ایم کے کے ساتھ بی جے پی کا گٹھ بندھن اور مغربی بنگال پر توجہ اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ تمل ناڈو میں ڈی ایم کے اور آندھرا پردیش میں ٹی ڈی پی کانگریس کے ساتھ ہے جبکہ مغربی بنگال میں بر سر اقتدار ممتا بنرجی کانگریس کے بغیر اتحاد کے نظریہ کی پاسدار ہیں۔
اتر پردیش میں ایس پی، بی ایس پی گٹھ بندھن کے ساتھ کانگریس کو رکھنے میں مایاوتی کی ضد سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یوپی میں کانگریس کو ساتھ لینے کےلئے ان کی شرط ہے کہ چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھی کانگریس ان کے ساتھ گٹھ بندھن کرے۔ کانگریس شاید تیار بھی ہو جاتی لیکن مایاوتی نے اتنی سیٹوں کی مانگ کر دی، جو کانگریس کو منظور نہیں تھی۔ تیش میں آکر مایاوتی نے اتر پردیش میں کانگریس کو مجوزہ گٹھ بندھن سے باہر کر دیا۔ کانگریس کو گٹھ بندھن میں شامل کرنے کی بات رہ رہ کر سنائی دے رہی ہے لیکن با ضابطہ اس کا اعلان ابھی تک نہیں ہوسکا ہے۔ دراصل مایاوتی کانگریس کے مضبوط ہونے سے ڈرتی ہیں کیونکہ دلت کانگریس کے پرانے ووٹر ہیں، جو 1990 میں منڈل کمیشن کی سفارشات لاگو ہونے کے بعد ریزرویشن مخالف احتجاج کے خلاف کانگریس کے رویہ کی وجہ سے دلت پہلے جنتادل کی طرف جھکے بعد میں کانشی رام کے ساتھ ہو گئے۔ کانشی رام کے بعد مایاوتی دلتوں کی لیڈر بن گئیں۔ یہ الگ بات ہے کہ دلتوں پر اب ان کی پہلے جیسی پکڑ نہیں ہے۔ اس لئے انہیں خدشہ ہے کہ کہیں دلت ہاتھی کا ساتھ چھوڑ کر اتر پردیش میں ہاتھ کے ساتھ نہ چلے جائیں۔ 2014 میں انہوں نے کمل کو تھام لیا تھا جس کی وجہ سے بی ایس پی ایک بھی سیٹ حاصل نہیں کر سکی تھی۔ اس لئے وہ بی جے پی کے ساتھ کانگریس مخالف بیان بھی دیتی رہی ہیں۔
دوسری طرف اکھلیش یادو چاہتے ہیں کہ کانگریس گٹھ بندھن میں شامل ہو تاکہ بی جے پی کو بری طرح ہرایا جا سکے۔ اس کےلئے وہ قربانی دینے کو بھی تیار ہیں۔ اس وقت وہ 37 سیٹیں پا کر مطمئن ہیں جبکہ بی ایس پی 38 سیٹوں پر الیکشن لڑے گی۔ سچائی یہ ہے کہ مایاوتی کا وہ ایجنڈہ نہیں ہے جو اکھلیش یادو کا ہے۔ یعنی بی جے پی کو ناکام کرنا۔ مایاوتی کےلئے یہ معنی نہیں رکھتا کہ بھاجپا کی سرکار بنے یا کانگریس کی، ان کےلئے یہ معنی رکھتا ہے کہ جو سرکار بنے، اس میں ان کےلئے کیا ہوگا۔ ممتا بنرجی کا حالت بھی عجیب ہے۔ وہ اپوزیشن کا اتحاد تو چاہتی ہیں لیکن کانگریس کے بغیر۔ وہیں لیفٹ سے بھی وہ دوری بنا کر رکھنا چاہتی ہیں۔
ادھر کانگریس ہے جو آسام اور نارتھ ایسٹ میں بی جے پی مخالف جماعتوں کو ابھی تک گول بند نہیں کر پائی ہے۔ جبکہ وہاں کے عوام اور سیاسی جماعتیں این آر سی اور مقامی مسائل کو لے کر بی جے پی حکومت سے ناراض ہیں۔ کانگریس کو اس کا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبائی جماعتیں اپنے ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر، اپنی ضد کو پس پشت ڈال کر اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ ملک کے سامنے اپنا پروگرام اور پالیسی پیش کریں۔ ساتھ ہی عوام کو یہ بتائیں کہ کس طرح اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ موجودہ حکومت عوام کی امیدوں پر پوری نہیں اتر سکی ہے، لوگ اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا اور بہتر حکومت دینے کا یقین دلانا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ صوبائی پارٹیوں کی ضد کی وجہ سے ملک کا سیاسی نظام ہی بدل جائے۔ جمہوریت رہے گی تبھی تو سیاسی جماعتیں الیکشن لڑیں گی۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا