غزل

0
0

 

 

 

حبیب ندیم
(مسقط،عمان)
+96895476137

  • میری باتوں کا ترے دل پہ اثر ہونے تک
    فاصلہ کم نہ ہوا ختم سفر ہونے تک
    خیریت سب سے مری پوچھ رہا ہے لیکن
    دور رہنا ہے مجھے اس کو خبر ہونے تک
    کتنی میٹھی ہے زباں اُردو سنبھالو اس کو
    میں تو چاہوں گا اسے عمر بسر ہونے تک
    یوں تو آندھی نے بہت زور لگا یا لیکن
    شمع جلتی ہی رہی نور سحر ہونے تک
    خون جلتا ہے سخن ور کا سلیقے سے بہت
    چند لفظوں کا تسلسل سے ہنر ہونے تک
    میں نے تنہائی میں ہر بار یہیں سوچا ہے
    کس نے دیکھا بھی ہے پتھر کو گہر ہونے تک
    تم حبیبؔ اس کی طرف دیکھ رہے ہو لیکن
    کتنے دنیا سے گئے اس کی نظر ہونے تک

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا