درس کے لئے درس گاہ کی ضرورت ہوتی ہے

0
0

محمد ریاض ملک

جموں وکشمیر میں کروناوائیرس کے حساس دوسال بعد تعلیمی اداروں تعلیمی نظام کا آغاز ہوا۔تو دیہی جموں وکشمیر میں بھی دو تین سال سے تعلیم سے دور طلباء نے ا سکولوں کا رُخ کیاتووہاں نظارا کچھ اور ہی نظر آیا۔ کہیں عمارتیں خستہ،تو کہیں منہدم، کہیں زمین مالکان کا قبضہ، توکہیں راستے بند، کہیں استاد نہیں، تو کہیں طلباء ہی نہیں ہیں۔ غرض ایسا لگتا ہے کہ نظام تعلیم اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہاہے۔ اس کشمکش نے نونہالان جموں وکشمیر کے مستقبل کو تاریک کررہا ہے۔ کرونا وائرس کا دور ہو یا موجودہ حالات،اس خستہ حال تعلیمی نظام سے دیہی علاقوں کے غریب اور پسماندہ عوام کے بچے ہی سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ جن کے پاس کوئی اسباب نہیں ہے۔ملازمین اور امیر طبقہ وسائیل اور اسباب کو دیکھتے ہوے شہروں میں منتقل ہوچکے ہیں۔بڑے بڑے پرائیویٹ اعلی تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلواتے ہیں۔جبکہ غریبوں کے بچے ہیں کہ وہ ان تباہ حال سرکاری اسکولوں کی زینت بنے ہوے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جموں وکشمیر کے دیہی علاقوں کے غریبوں کے بچے پسماندگی کی طرف جارہے ہیں۔ سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی جو جموں ہیڈ کواٹر سے 234کلومیٹر پر واقع ہے۔جہاں سے قریب ایک کلومیٹر منڈی ساوجیاں روڈ پر آعظم آباد محلہ مغل ڈاب کے مقام پرایک پرائیمری ا سکول قائم ہے۔ جو تعلیمی زون ساتھرہ کے زیر اہتمام ہے۔دوسالوں سے اس اسکول کی عمارت زمیں بوس ہوچکی ہے۔ زیر تعلیم بچے اور بچیاں کھنڈرات میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔اس عمارت کی بدحالی پر مقامی سماجی کارکن پیر زادہ بلال احمد مخدومی جن کی عمر قریب 35سال ہے،نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوے کہاکہ یہ ا سکول ایک ایسی جگہ پر بناہے جہاں پر محکمہ سیاحت کی جانب سے ایک خوبصورت پارک بنی ہوئی ہے۔جہاں روزانہ سینکڑوں لوگ تفریح کرنے آتے ہیں۔ضرور وہ اس خستہ حال سکول کی عمارت کے عجوبہ کو دیکھتے ہونگے۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چار سال سے اس اسکول کی خستہ حالی کو لیکر محکمہ تعلیم سے استدعا کی جارہی ہے۔اب حالت یہ ہے کہ یہ عمارت منہدم کوچکی ہے۔ یہاں پہلے کے مقابلہ میں بچوں کی تعداد کم ہوکر پچیس یا چھبیس تک پہونچ چکی ہے۔یہ بچے جب دھوپ ہوتی ہے تو باہر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر لیتے ہیں۔جب بارش ہوتی ہے تو والدین بچوں کو سکول بھیجتے ہی نہیں ہیں۔
دوسری جماعت میں زیر تعلیم ایک بچی جس نے اپنا نام صداقت فاروق بتایا،کہتی ہے کہ جب بارش ہوتی ہے توہماری یاتو چُھٹی ہوجاتی ہے یاپھر اس دن ہم اسکول ہی نہیں آتے ہیں۔کلاس روم نہیں ہونے کی وجہ سے یہاں ہم برامدے میں ہی بیٹھتے ہیں اورصبح کی دعابھی کرتے ہیں۔ راہیل نظیر جو تیسری جماعت کا بچہ ہے، بڑے دلیرانہ انداز میں جواب دیتے ہوے کہتا ہے کہ یہاں جب زردار بارش ہوتی ہے تو ہم بھیگ جاتے ہیں۔باہر سے بارش اندر برامدے میں بھی آجاتی ہے۔ ہمارے بستے وردی بوٹ سب گیلے ہو جاتے ہیں۔اساتذہ ہمیں کسی طرح اندر بیٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ بارش سے بچ سکیں۔لیکن ایک کمرہ میں کیسے گزر ہوسکے، اس میں ہم کیسے بیٹھیں؟ بچوں کی اس طرح مصیبت اور عمارت کے حوالے سے یہاں خاتون ٹیچر شریفہ بیگم نے کہاکہ یہاں میں جب اسکول آتی ہوں تو لوگ مجھے کہتے ہیں آپ اسکول میں مت ایاکریں،یہ عمارت کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔ بہت سے والدین اپنے بچے کو صرف اس لئے اسکول سے نکال کر لے گئے ہیں کیو نکہ یہاں عمارت گرنے کا اندیشہ تھا۔اب عمارت جب زمیں بوس ہوچکی ہے۔ یہاں خستہ حال ایک کمرہ میں کیسے تعلیم ممکن ہے؟لوگوں کا سوال بھی واجب ہے۔ یہاں ایک کمرہ وہ بھی خستہ حال، بارش میں اندر پانی پانی ہوجاتاہے۔برامدے سے باہر پانی نکلتا ہے۔ لیکن پھر بھی میں اپنی ذمہ داری پر ان بچوں کوا سکول تک لاتی ہوں اور انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتی ہوں کیوں کہ یہ بچے اور بچیاں ہمارا مستقبل ہیں۔
یہی پر تعینات ماسٹر اختر حسین نے کہاکہ یہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچے غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ عمارت نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت سرکاری کی جانب سے چلائی جانے والی سرگرمیاں بھی نہیں کروائی جاسکتی ہیں اور نہ ہی بہترین انداز میں تعلیم کا بندوبست ہوسکتاہے۔اسکول انتظامیہ کی جانب سے یہاں کی زمیں بوس عمارت وخستہ حالی کے ساتھ ساتھ رسوئی کی عدم دستیابی کے سلسلہ میں انتظامیہ کو لکھا گیا ہے۔تاہم کب تک تعمیر کے لئے کوئی فنڈ فراہم ہوگی اس کی کوئی خبر نہیں ہے۔یہاں پر موجود باورچی سائیرہ خاتون جو ایک کمرے میں میڈے میل بنارہی تھی۔ ان کا کہناتھاکہ مجھے یہاں کھانا بناتے وقت ڈر لگتارہتاہے کہ یہاں کسی وقت گیس کا اخراج ہواور سب کچھ جل نہ جائے۔دوسری جانب عمارت گرنے کا خطرہ بھی بنارہتاہے۔کیونکہ جس کمرے میں وہ کھانا بناتی ہیں اسی میں ا سکول کے بچوں کی کتابیں، کاپیاں اور رجسٹر و دیگر ریکاڑس بھی موجود ہوتے ہیں۔جس کے جل جانے کا خطرہ بنارہتا ہے۔
اسکول کی اس بدحالی کو لیکر پنچائیت اعظم آباد کے وارڈ نمبر دس کے 25سال کے نوجوان پنچ خواجہ محمد یونس نے کہاکہ ایک طرف تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔دوسری جانب منڈی تحصیل ہیڈکوارٹر سے قریب ایک کلومیٹر دوری پر واقہ اسکول کی یہ عمارت بلکل زمین بوس ہوچکی ہے۔ بچے باہر بیٹھنے پر مجبور ہیں اور بارشوں کے دوران تو والدین گھر سے ہی بچوں کو نہیں بھیجتے ہیں۔بارہاانتظامیہ کے ساتھ اس معاملہ کو اُٹھایا گیا۔لیکن اب تک اس عمارت کی طرف کسی نے بھی کوئی توجہ نہیں دی۔ انتظامیہ اور مرکزی حکومت کے جو دعوے اور نعرے ہیں۔زمینی حقائق بلکل اس کے برخلاف ہیں۔ جہاں چالیس سے زائد طلباء زیر تعلیم تھے۔اب یہاں صرف بیس سے پچیس تک یہ تعداد پہونچ چکی ہے۔ چار ماہ قبل اسکول انتظامیہ کی طرف سے ’آو سکول چلو‘نام سے ایک مہم چلائی گئی تھی۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اس طرح کی عمارتوں میں بچے کس طرح آسکتے ہیں؟غریبوں کے بچوں کے لئے بنے یہ سرکاری اسکول بدحال کیوں ہیں؟جہاں نہ بیٹھنے کے لئے کمرہ،نہ سرچھپانے کے لئے چھت، نہ کھڑا ہونے کی جگہ، نہ کھیلنے کے لئے میدان اورنہ ہی پڑھانے کے لئے وہاں اساتذہ کی مکمل تعداد ہے۔ ایسے میں وہاں کس طرح تابناک مستقبل کی باتوں کو سچ ماناجاسکتاہے؟
اس سلسلے میں جب ساتھرہ، منڈی کے زونل ایجوکشن افیسر درشن کمار سے بات کی گئی تو ان کا کہناتھاکہ ہم نے تمام ایسے تمام خستہ حال اسکولی عمارتوں کی فہرست انتظامیہ کو سونپ دی ہے۔ جس میں اعظم آباد مغل ڈاب کے اس اسکول کی عمارت کا بھی ذکر کرتے ہوئے اپنے اعلی افسران کو ارسال کردی ہے۔اب فنڈ مہیاء کرناانتظامیہ کا کام ہے۔انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ جوں ہی اس عمارت کے لئے کوئی فنڈ ریلیز کیا جائے گا اس کی تعمیر شروع کر دی جائے گی۔بہرحال یہ حال صرف مغل ڈاب پرائیمری سکول کا ہی نہیں ہے بلکہ متعدد پرائیمری ومڈل اسکول اسی قسم پرسی کی حالت میں ہیں۔جہاں دنیاکو جہالت سے نکال کر روشنی کی طرف لانے والے شعبہ کا یہ حال ہوگا تو دیگر نظام کس قدر بدحال ہونگے؟ اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ محکمہ اور انتظامہ کو اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ آخر یہ اسکولی عمارتیں اب تک اتنی خستہ حال کیوں ہے؟کیا اس بات کا کسی کے پاس جواب ہے کہ ان ننھی ننھی بچیوں اور بچوں کی تعلیم اس تباہ حال عمارت میں کس طرح ممکن ہوسکتی ہے؟ درس گاہ کے بغیر معیاری تعلیم کا تصور کیسے کی جا سکتی ہے؟(چرخہ فیچر س)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا