معاشرے کی ہمہ جہت ترقی کےلئے لڑکیوں کی شرح خواندگی میں اضافہ ناگزیر، عازمین حج کےلئے بہترسہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی
گوجری کوآئین ہندکے آٹھویں شیڈیول میں شامل کراناممکن
ممبران پارلیمان کوبل متعارف کرانے کےلئے قائل کیاجائے گا:طالب چوہدری ،طارق ابرارآفیشل کلب کی کاوشوں کوبھی سراہا
لازوال ڈیسک
جموں معاشرہ اُس وقت ہمہ جہت ترقی سے ہمکنارنہیں ہوسکتاہے جب تک کہ لڑکیوں کی شرح خواندگی 70 فیصدسے زیادہ نہ ہوجائے ۔صرف تعلیم سے ہی ترقی ممکن نہیں ہے صحت کے شعبے میں بہتری لاناوقت کی اشدضرورت ہے۔حج کمیٹی کے رُکن کے طورپرعائدہوئی ذمہ داری کوتندہی سے انجام دے کرعازمین حج کی بہبودکےلئے اقدامات کرنے کےلئے حتی المقدورکوششیں کروں گا۔گوجری کوآئین ہندکے آٹھویں شیڈیول میں شامل کرانے کےلئے جدوجہددرکارہے اورمناسب دباﺅبنایاجائے تومرکزی حکومت یہ مانگ پوری کرنے کےلئے رضامندہوجائے گی۔ فوج میں علیحدہ گوجرریجمنٹ کے قیام کے آثار دھندلے نظرآتے ہیں۔ان خیالات کااظہارسابق ممبراسمبلی، سابق کابینہ وزیر،سابق ممبرپارلیمنٹ اورحج کمیٹی جموں وکشمیرکے ممبرطالب حسین چوہدری نے سوشل میڈیا(آڈیو)پلیٹ فارم ”کلب ہاﺅس “پر طارق ابرارآفیشل کلب ہاﺅس چینل کے زیراہتمام ”سوچ وچار“گوجری پروگرام کی نشریات کی 59 ویں قسط میں ایک خصوصی گفت وشنیدکے دوران کیا۔تفصیلات کے مطابق پروگرام کاآغازنامورادیبہ وبراڈکاسٹر نکہت چوہدری کے استقبالیہ کلمات سے ہوا۔اس دوران نظامت کے فرائض مشتاق خالدچوہدری نے انجام دیئے۔بعدازاں طارق ابرارآفیشل کلب ہاﺅس کے ٹیم ممبران نکہت چوہدری،طارق ابرار ،نسیم اختر، الطاف نظامی ،مختارچوہدری،مشتاق خالد،شازیہ چوہدری اور عامرچوہدری نے طالب حسین چوہدری سے مختلف نوعیت کے سوالات پوچھے جن کے انہوں نے تسلی بخش جوابات دیئے۔طالب حسین چوہدری نے کہاکہ سماج کی ہمہ جہت ترقی کےلئے ضروری ہے کہ بچیاں تعلیم حاصل کریں اورمعاشرے میں بچیوں کی تعلیمی شرح خواندگی 70 فیصدسے زائدہو۔والدین کوا س طرف خصوصی توجہ دینی چاہیئے ۔جب تک لڑکیاں خواندہ نہیں ہوں گی تب تک سماج حقیقی معنوں میں ترقی کے زینوں کوعبورنہیں کرسکتاہے۔ انہوں نے مزیدکہاکہ صحت مندمعاشرے کےلئے ضروری ہے کہ صحت کانظام ،صحت سہولیات بہترہوں اورشہریوں کوہرطرح کی میڈیکل سہولت دستیاب ہو۔صرف تعلیم سے ہی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتاہے بلکہ شہریوں کی صحت کی طرف بھی حکومت کوبھرپورتوجہ دینے کی اشدضرورت ہے ۔گوجری زبان کوآئین ہندکے آٹھویں شیڈیول میں شامل کرنے کی مانگ پرخیالات کااظہارکرتے ہوئے طالب حسین چوہدری نے کہاکہ جب میں شیخ محمدعبداللہ کی کابینہ میں وزیرتھااُس وقت میں نے اسمبلی میں گوجری کوآئین ہندکے چھٹے شیڈیول میں لانے کےلئے بِل لایاتھاجودوتہائی اکثریت سے پاس ہواتھا۔اس کے بعد حکومت ہندنے گوجری کوآئین کے چھٹے شیڈیول میں شامل کردیا۔اسی کی بدولت کلچراکیڈیمی میں گوجری کےلئے علیحدہ شعبوں کاقیام اوردوسرے سلسلے شروع ہوئے اورگوجری ترقی کی راہ پرگامزن ہوئی ۔اب گوجری کوآئین ہندکے آٹھویں شیڈیول میں تبھی لایاجاسکتاہے جب آئینی ترمیم ہوگی۔یہ ترمیم ممبران پارلیمنٹ ،بل پارلیمنٹ میںلاکرکرواسکتے ہیں جس کےلئے پوری گوجرقوم کے لوگوں کوممبران پارلیمان سے ملاقات کرنی چاہیئے اورمیں بھی انہیں اس بات کےلئے قائل کروں گا،اوران پردباﺅبناناچاہیئے تاکہ گوجروں کی دیرینہ اورجائزمانگ کوپوراکروایاجاسکے اوریہ خواب شرمندہ تعبیرہوسکے۔حج کمیٹی کے رُکن کے طورپرنامزدگی کےلئے طالب حسین چوہدری نے حکومت کاشکریہ اداکیااورکہاکہ خطہ پیرپنچال اورگوجربکروال برادری سے پہلی مرتبہ اس اہم کمیٹی میں مجھے نامزدکیاجوخوش آئندبات ہے۔انہوں نے کہاکہ عازمین حج کے مسائل کانپٹارہ اوران کے مطالبات پرہمدردانہ غورکرنا،ان کےلئے آسانیاں پیداکرنامیری ترجیحات رہیں گی۔ ممبراسمبلی، ممبرپارلیمنٹ اوروزارت کے دوران ترجیحات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے طالب حسین چوہدری نے کہاکہ 2001 میں جموں ۔پونچھ پارلیمانی نشست سے مجھے ممبرپارلیمنٹ اُمیدوارکے طورپرالیکشن لڑنے کاموقعہ ملاجس میں لوگوں نے مجھے فتح دلوائی ۔میری کامیابی کاسہراعوام اورپارٹی کے سرجاتاتھا۔میں نے ہمیشہ انفرادی ترقی کے بجائے ہمہ جہت ترقی کوترجیح دی ہے۔تعلیم اورصحت دوایسے شعبے ہیں جن کےلئے میں نے بہت زیادہ کام کیا۔انہوں نے کہاکہ زیادہ سے زیاد ہ سکول قائم کروائے، زیادہ سے زیادہ روزگارکے مواقعے فراہم کئے ۔اس کے علاوہ صحت سہولیات کی بہتری کےلئے بھی کام کیا۔ شیڈیولڈٹرائب درجہ کی مانگ کے حوالے سے طالب حسین چوہدری نے کہاکہ میں نے غالباً 1977-78 میںزنانہ پارک جموں میں ایک جلسہ کروایاجس میں اُس وقت کی وزیراعظم شریمتی اندراگاندھی مہمان خصوصی تھیں۔ گوجرقوم کے نمائندوں نے شیڈیولڈٹرائب کی مانگ کوزوردارطریقے سے رکھاجس کے گواہ اُس وقت کے روزنامہ انگریزی اوراُردواخبارات ہیں اوربالآخر 12 فروری 1990 کوحکومت ہندنے اس مانگ کوپوراکیا۔علاوہ ازیں گوجربکروال طبقہ کی طرف سے فوج میں گوجرریجمنٹ کے قیام کے دیرینہ مطالبہ کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے طالب حسین چوہدری نے کہاکہ بحیثیت ممبرپارلیمنٹ اس مانگ کے سلسلے میں دومرتبہ اُس وقت کے وزیردفاع جارج فرنانڈینس سے ہوئی تھی ۔اُن کومیں نے رضامندبھی کرلیاتھا لیکن جب انہوں نے متعلقہ حکام سے مشورہ کرنے کے بعدمجھے کہاکہ یہ مانگ پوری کرناممکن نہیں ہے ۔انھوں نے جو جوازیت بتائی وہ گوجربکروال قبیلہ کے لوگو ں کےلئے اہمیت رکھتی ہے۔جارج فرنانٹیڈس نے کہاکہ برطانوی حکومت کے وقت میں جب ہندوستان آزادنہیں ہواتھااُس وقت کچھ طبقوں کے نام پرفوج میں کچھ ٹکڑیاں،بٹالین ،ریجمنٹس وغیرہ تھیں ۔ان میں سے 1947 کے بعددوتین دہائیوں تک چندریجمنٹس بدستورقائم رہیں جن میں راجپوت ریجمنٹ بھی تھی۔بنیادی طورپرراجپوت ریجمنٹ ہی گوجرریجمنٹ ہے کیونکہ ا س میں گوجرنوجوانو ں کی کثیرتعدادہے اوراس کے علاوہ جاٹ بٹالین میں بھی گوجرہیں ۔ 1980 کی دہائی تک کچھ طبقوں کی طرف سے یہ مانگ مختلف حلقوں کی طرف سے اُٹھائی جاتی رہی لیکن حکومت ہندنے فیصلہ لیاہے کہ ہندوستان ایک سیکولرملک ہے اورطبقوں کے نام پرریجمنٹس کاقیام مناسب نہیں ہے البتہ پرانی ریجمنٹس کوبھی آہستہ آہستہ دوسری ریجمنٹس میں ضم کرلیاجائے گا۔ اورمزیدکہاکہ اگرآئندہ کسی طبقہ کے نام پرہندوستانی فوج میں ریجمنٹ قائم ہوئی توہم گوجرطبقہ کی اس جائزمانگ کوبھی پوراکریں گے۔طالب حسین چوہدری نے مزیدکہاکہ 1971 میں نے کانگریس پارٹی کی طرف سے ممبراسمبلی کاالیکشن لڑا اورلوگوں نے بھرپورتعاون دے کرجیت سے ہمکنارکیااورممبراسمبلی بنادیا۔ اس سے پہلے میں وکالت اورصحافت کے پیشوں سے وابستہ تھا۔میں نے چھ ماہ تک وکالت جاری رکھی اورایک سال تک صحافت ۔پھرمجھے لگاکہ وکالت اورصحافت کوایک ساتھ چلاناممکن نہیں ہے لہذا میں نے چندہمدردساتھیوں سے مشورہ کرکے صرف سیاستدان کے طورپرخدمت خلق کافریضہ انجام دینے کافیصلہ لیا۔میری پیدائش فتح پورراجوری میں ہوئی ہے ۔ابتدائی تعلیم گاﺅں کے ہی اسکول سے حاصل کی۔چھٹی سے بارہویں تک ہائرسکینڈری سکول راجوری میں پڑھا۔گریجویشن سے پہلے میں سوشل ویلفیئرافسرتعینات ہوگیاتھااورگریجویشن پرائیویٹ طورپرمکمل کی ۔گریجویشن کے بعدمیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلاگیا،وہاں سے ایل ایل بی (وکالت) اورپبلک ایڈمنسٹریشن میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔وہیں پرمجھے اُردواورانگریزی اخبارات کےلئے کالمز لکھنے کاشوق ہوااورمیرارجحان صحافت کی طرف ہوگیا۔ویدبھسین صاحب کی نظروں سے جب میری دِل برداشتہ قلم سے نکلی ہوئی تحریریں گذریں توانھوں نے مجھے مزیدلکھنے کی ترغیب دی ۔اس سے میری حوصلہ افزائی ہوئی۔واپس آکر1969 میں ،میں نے خطہ پیرپنچال سے پہلااُردواخبار ہفت روزہ ”دہقان “شروع کیاجوتین سال تک جاری رہا۔اس میں عوامی مسائل اورخاص طورپرگوجربکروال خانہ بدوشوں کے مسائل کوجگہ دی جاتی رہی۔اس موقعہ پرمعروف اسکالرڈاکٹرجاویدراہی نے بھی خیالات کااظہارکیااورطالب حسین چوہدری کی خدمات کوسراہا۔انہوں نے پوری قوم کی طرف سے طالب حسین چوہدری کوحج کمیٹی کاممبرنامزدہونے پرمبارکبادپیش کی اورتوقع کی کہ و ہ عازمین حج کےلئے بہترانتظامات کریں گے ۔انہوں نے مزیدکہاکہ طالب چوہدری کی خدمات تاریخ کے سنہرے حروف میں درج کرنے کے قابل ہیں۔انہوں نے طارق ابراراوران کی ٹیم کوبھی اس اہم پروگرام کومنعقدکرنے کےلئے مبارکبادپیش کی۔معروف وکیل ایڈوکیٹ خالدمصطفےٰ بھٹی نے کہاکہ طالب حسین چوہدری نے بلالحاظ مذہب وملت عوام کی خدمت کی ہے تاہم برادری کی طرف سے جوسپورٹ اپنی بات منوانے کےلئے درکارہوتی ہے اس میں کہیں نہ کہیں کمی رہی۔لیکن طالب صاحب نے ہرمشکل وقت کاڈٹ کرسامناکیااوراس میں سرخروہوئے۔طالب حسین چوہدری نے طارق ابراراوران کی ٹیم کی طرف سے گوجری اورگوجرقوم کی ترقی کےلئے سوشل میڈیاکاموثراستعمال کرنے کےلئے مبارکبادپیش کی اوران کی کاوشوں کوسراہا۔آخرپرشکریہ کی تحریک پیش کرتے ہوئے مختارچوہدری نے طارق ابرارآفیشل کلب کی پوری ٹیم کی طرف سے مہمان شخصیت اورتمام معززسامعین وناظرین کااپناقیمتی وقت دینے کےلئے شکریہ اداکیا۔ اس موقعہ پرطارق ابرار نے محمدیعقوب کاخصوصی طورپرشکریہ ادا کیا جنہوں نے مہمان شخصیت کوتکنیکی تعاون دیاجن کی بدولت یہ پروگرام کامیاب ہوسکا۔اس دوران صف سامعین میں کثیرتعدادمیں معزز شخصیات شامل تھیں۔پروگرام کے دوران سامعین نے فیڈبیک وتاثرات بکس میں پروگرام سے متعلق حوصلہ افزاخیالات کااظہارکیااوراس پروگرام کوانتہائی کامیاب قراردیا۔