بی جے پی لوک سبھا انتخابات جیتنے کے لئے تمام حربے استعمال کررہی ہے: فاروق عبداللہ
یواین آئی
سرینگرنیشنل کانفرنس کے صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بی جے پی پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی لوک سبھا انتخابات جیتنے کے لئے ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان دراڑ پیدا کرکے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے لئے تمام حربے استعمال کررہی ہے۔ پلوامہ خود کش دھماکے کے بعد جموں میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے مبینہ طور پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوششوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا ‘مجھے لگتا ہے کہ اس طرح کے حالات بنائے جا رہے ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں۔ بی جے پی کسی بھی قیمت پر لوک سبھا انتخابات جیتنا چاہتی ہے۔ اس کے لئے وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے لئے تمام حربے استعمال کر رہی ہے۔ یہ لوگ کئی معاملات پرہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ فرقہ وارانہ ہم آہنگی نہیں چاہتے’۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار ‘قومی آواز’ نامی ایک اردو نیوز پورٹل کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کیا ہے۔ پلوامہ خود کش دھماکے کے بعد ملک میں پیدا شدہ حالات کے حوالے سے انہوں نے کہا ‘مجھے امید ہے کہ ان حالات سے ہندوستان کے دانشمند شہری اور قیادت نمٹ لے گی، ورنہ ملک کو زبردست خطرہ لاحق ہو جائے گا، مجھے لگتا ہے کہ ملک کو باہر سے نہیں بلکہ اندر سے زیادہ خطرہ ہے’۔ ڈاکٹر فاروق نے مسئلہ کشمیر کا سیاسی حل بات چیت میں مضمر قرار دیتے ہوئے کہا ‘کسی بھی مسئلہ کا سیاسی حل اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم بات نہیں کریں گے۔ ہم تمام معاملات پر آپس میں بات کریں، تبھی حل نکل سکتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مناسب حل ہے باقی غلط۔ مسئلہ کا حل تبھی نکلے گا جب دل سے بات ہوگی۔ لیکن اگر مرکز بات ہی نہیں کرنا چاہے اور صرف چناو? جیتنا ہی اس کا مقصد ہو تو کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا’۔وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے سیکورٹی فورسز کو کھلی چھوٹ دینے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ‘وہ (وزیر اعظم مودی) ایسی باتیں اس لئے کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ خود کچھ نہیں کر سکتے۔ اس لئے وہ سیکورٹی فورسز کو کھلی چھوٹ دینے کی باتیں کر رہے ہیں’۔ وادی میں فوج کی طرف سے جاری ‘آپریشن آل اوٹ’ سے ملی ٹنسی کے خاتمے کو غلط فہمی سے تعبیر کرتے ہوئے انہوں نے کہا ‘جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ملی ٹنسی ختم ہو سکتی ہے وہ مغالطہ میں ہیں۔ میں نے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی طرف سے بلائی گئی پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ میں بھی یہ بات کہی تھی۔ میں نے کہا تھا کہ ایسا سوچنا بے وقوفی ہے کہ ملی ٹنسی ختم ہو گئی اور اب کبھی سر نہیں اٹھائے گی۔ کشمیر میں ملی ٹنسی تبھی ختم ہو سکتی ہے جب مسئلہ کا سیاسی حل نکالا جائے’۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے حریت لیڈروں کے ساتھ بار چیت کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا ‘میں نے کبھی نہیں کہا کہ صرف حریت کے رہنماو?ں سے بات کی جائے۔ سبھی سے بات ہونا ضروری ہے۔ میرا سیدھا سوال ہے کہ جموں و کشمیر کے تمام حلقوں کو کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے، ان کے مشوروں کو کیوں نہیں دیکھتے؟ وہ کشمیر کو خود مختاری کیوں نہیں دیتے؟ ہماری خود مختاری آئین سے باہر نہیں ہے’۔ دفعہ 35 اے ختم ہونے سے کشمیریوں پر مرتسم ہونے ولے اثرات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ‘میرا خیال ہے کہ کشمیر کے لوگ کن سانحوں سے دو چار ہیں اس کی سمجھ سپریم کورٹ کو ہے۔ مجھے امید ہے کہ سمجھداری بھرا فیصلہ ہوگا، میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں۔ سپریم کورٹ کی اپنی حدود ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ عزت مآب عدالت عظمیٰ اس بات کو سمجھتی ہے کہ دفعہ 35 اے کو ہٹانے سے کیا اثر پڑے گا’۔