’بندوق اٹھائی تو مارے جاﺅ گے‘

0
0

پلوامہ حملے کے 100 گھنٹے اندر ہی ‘جیش محمد’ کی لیڈر شپ کا خاتمہ کردیا: لیفٹیننٹ جنرل ڈھلون
کہا سرکار ایک موثر سرینڈر و بازآبادکاری پالیسی بنانے میں مصروف عمل
لازوال ڈیسک

سری نگرسری نگر میں قائم فوج کی 15 ویں کور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ یعنی جی او سی لیفٹیننٹ جنرل کنول جیت سنگھ ڈھلون نے کہا کہ وادی کشمیر میں بندوق اٹھانے والے ہر نوجوان کو مارا جائے گا۔ انہوں نے کشمیری جنگجوﺅں کو ہتھیار چھوڑ کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ سرکار ایک موثر سرینڈر و بازآبادکاری پالیسی بنانے میں مصروف عمل ہے۔ جنرل کنول جیت سنگھ ڈھلون نے کہا کہ ہلاکت خیز پلوامہ خودکش حملے کے محض 100 گھنٹوں کے اندر ہی وادی میں اس حملے کے ماسٹر مائنڈ اور جیش محمد کی لیڈر شپ کا خاتمہ کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پلوامہ خودکش حملے کی منصوبہ بندی میں جیش محمد کی پاکستانی قیادت، پاکستانی خفیہ ادارہ ‘آئی ایس آئی’ اور پاکستانی فوج ملوث ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ڈھلون نے یہ باتیں منگل کو یہاں سی آر پی ایف کے آئی جی آپریشنز ذوالفقار حسن اور آئی جی کشمیر سویم پرکاش پانی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ انہوں نے مقامی جنگجوﺅں کے والدین بالخصوص ماﺅں سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں سے ہتھیار چھوڑ کر قومی دھارے میں شامل ہونے کی اپیل کریں۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ جانتا ہوں کہ کشمیری سماج میں مائیں ایک اہم رول کردار کررہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا ‘میں آپ کے ذریعے کشمیر کی تمام ماﺅں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں جنہوں نے ہتھیار اٹھائے ہیں، سے ہتھیار چھوڑ کر قومی دھارے میں شامل ہونے کے لئے کہیں۔ میں یہ جانتا ہوں کہ کشمیری سماج میں مائیں ایک اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ کشمیر میں جس کسی نے بندوق اٹھائی ہے، اس کو ہلاک کیا جائے گا۔ جو خودسپردگی اختیار کرے گا وہ بچ جائے گا’۔ انہوں نے کہا ‘مہربانی کرکے آپ اپنے بچوں سے کہیں کہ وہ خودسپردگی اختیار کریں۔ حکومت کی جانب سے ایک بہت اچھی سرینڈر و بازآبادکاری پالیسی بنائی جارہی ہے۔ اس کا مقصد ہے کہ بھٹکے ہوئے نوجوان خودسپردگی اختیار کرکے اپنی زندگی آرام سے گذاریں۔ جس کسی نے بندوق اٹھائی ہے اس کو مارا جائے گا۔ خودسپردگی اختیار کرنے والے نوجوان بچ جائیں گے’۔ چنار کور کے جی او سی نے دعوی کیا کہ وادی کشمیر میں گذشتہ چند ماہ کے دوران جنگجوﺅں کی صفوں میں شمولیت کے رجحان میں کمی آئی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ‘آپ نے بندوق اٹھائی تو مارے جاﺅ گے’۔ ان کا کہنا تھا ‘گذشتہ چند ماہ کے دوران جنگجوﺅں کی صفوں میں شمولیت کے رجحان میں نمایاں کمی آئی ہے۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس کے لئے کشمیری عوام اور نوجوانوں شاباشی کے مستحق ہیں۔ میں نے پہلے ہی کہا کہ آپ نے بندوق اٹھائی تو مارے جاﺅ گے’۔ لیفٹیننٹ جنرل ڈھلون نے کہا کہ دشمن طاقتیں کشمیری نوجوانوں کو ریڈکلائز کررہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا ‘دشمن طاقتیں کشمیری نوجوانوں کو ریڈکلائز کرنے میں ملوث ہیں۔ مختلف ایجنسیوں بشمول انتظامیہ اور سول سوسائٹی کے اقدامات کی وجہ سے نوجوانوں کے ریڈکلائز ہونے میں کمی آئی ہے۔ ریڈکلائزیشن پر مکمل طور پر بریک لگانے کے اقدامات جاری ہیں’۔ چنار کور کے سربراہ نے سری نگر جموں قومی شاہراہ پر سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں کشمیریوں کی ہراسانی کی اطلاعات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ محض پروپیگنڈا ہے۔ انہوں نے کہا ‘جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ حملے کے لئے استعمال کی گئی کار ہائی وے تک کیسے پہنچی، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حملہ پیش آنے سے پہلے کانوائے اور سویلین ٹریفک ایک ساتھ چلتا تھا۔ کسی گاڑی کی تلاشی نہیں لی جاتی تھی۔ کسی سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی تھی’۔ انہوں نے کہا ‘میں پٹائی کے واقعات سے اتفاق نہیں کرتا۔ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آتا۔ میں بھی چیزیں دیکھتا ہوں۔ ہم کانوائے کی نقل وحرکت کے دوران یہ کوشش کرتے ہیں کہ شہریوں کو ہراسانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور انہیں کم از کم تاخیر کا سامنا ہو۔ یہ باتیں کہ ہم ہراسانی کرتے ہیں، محض پروپیگنڈا ہے۔ کوئی بھی کسی ثبوت کے بغیر کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ میں کشمیری عوام سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اس پروپیگنڈا کا شکار نہ ہوں’۔ لیفٹیننٹ جنرل ڈھلون نے کہا کہ بڑے پیمانے پر جنگجوﺅں کی ہلاکت کے نتیجے میں کشمیر میں سرگرم جنگجوﺅں کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ ان کا کہنا تھا ‘ایل او سی پر بھاری برف باری کی وجہ سے بین الاقوامی سرحد سے دراندازی کی کوششیں شروع ہونے لگی ہیں۔ دراندازی ہوتی ہے۔ پاکستان دراندازوں کی مدد کرتا ہے۔ میدانی علاقوں میں بڑے پیمانے پر جنگجوﺅں کی ہلاکت اور دراندازی کے واقعات میں کمی کے باعث جنگجوﺅں کی تعداد کم ہوگئی ہے’۔ جنرل کنول جیت سنگھ ڈھلون نے کہا کہ ہلاکت خیز پلوامہ خودکش حملے کے محض 100 گھنٹوں کے اندر ہی وادی میں اس حملے کے ماسٹر مائنڈ اور جیش محمد کی لیڈر شپ کا خاتمہ کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پلوامہ خودکش حملے کی منصوبہ بندی میں جیش محمد کی پاکستانی قیادت، پاکستانی خفیہ ادارہ ‘آئی ایس آئی’ اور پاکستانی فوج ملوث ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ڈھلون نے کہا کہ پنگلن مسلح تصادم میں مارے گئے تین جنگجوﺅں میں سے کامران عرف عبدالرشید غازی لیتہ پورہ خودکش حملے کا ماسٹر مائنڈ اور کشمیر میں جیش محمد کا چیف آپریشنل کمانڈر تھا۔ انہوں نے کہا کہ کامران نے لیتہ پورہ میں سی آر پی ایف کے قافلے پر حملہ جیش محمد کی پاکستانی قیادت، آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج کی ہدایت پر انجام دیا۔ فوج کی چنار کور کے سربراہ منگل کے روز یہاں سی آر پی ایف کے آئی جی آپریشنز ذوالفقار حسن اور آئی جی کشمیر سویم پرکاش پانی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے اس موقع پر ضلع پلوامہ کے پنگلن میں ہوئے مسلح تصادم کی تفصیلات میڈیا کو فراہم کیں اور وادی کشمیر میں جیش محمد کی لیڈرشپ کے خاتمے کا دعوی کیا۔ انہوں نے جیش محمد کو پاکستانی فوج کا بچہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس تنظیم کو پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی براہ راست کنٹرول کرتی ہے۔ واضح رہے کہ لیتہ پورہ پلوامہ میں 14 فروری کو ایک ہلاکت خیز خودکش آئی ای ڈی دھماکے میں قریب 50 سی آر پی ایف اہلکار ہلاک جبکہ قریب ایک درجن دیگر زخمی ہوگئے۔ یہ وادی میں 1990 کی دہائی میں شروع ہوئی مسلح شورش کے دوران اپنی نوعیت کا سب سے بڑاخودکش حملہ ہے۔ جیش محمد نے اس ہلاکت خیز حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ڈھلون نے اس بات کا عتراف کیا کہ لیتہ حملہ وادی میں اب تک کا سب سے بڑا حملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس نوعیت کے حملے دوسرے ممالک جیسے افغانستان، شام اور پاکستان میں ہوتے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ مستقبل میں ایسے حملوں کو ٹالنے کے لئے اقدامات شروع کئے گئے ہیں۔ فوجی کمانڈر نے کہا کہ کشمیر میں بہت غازی آئے اور چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی غازی سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں اور دراندازہ کرنے والا کوئی پاکستانی جنگجو زندہ واپس نہیں جائے گا۔ لیفٹیننٹ جنرل ڈھلون نے کہا کہ 14 فروری کے حملے میں زخمی ہوئے سبھی اہلکاروں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ انہوں نے کہا ‘ان سب کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ سبھی زخمیوں نے اپنے گھر والوں سے بات کی ہے۔ اسی طرح پنگلن آپریشن کے دوران زخمی ہوئے سبھی سیکورٹی فورس افسران و اہلکاروں بشمول بریگیڈیئر ہربیر سنگھ، ڈی آئی جی امیت کمار کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ ماہر ڈاکٹر ان کا علاج کررہے ہیں’۔ فوجی کمانڈر نے کہا کہ لیتہ پورہ حملے میں ملوث جنگجوﺅں کی تلاش 14 فروری کو ہی شروع ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا ’14 فروری کو سی آر پی ایف کے کانوائے پر ہوئے حملے کے بعد سے ہم کشمیر میں جیش محمد کی ٹاپ لیڈر شپ پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ آپ جانتے ہیں کہ کانوائے پر حملہ پاکستانی تنظیم جیش محمد نے انجام دیا۔ حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی، یہ حملہ آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج کی فعال حمایت سے انجام دیا گیا’۔ انہوں نے کہا ‘چونکہ جیش محمد کی ٹاپ لیڈرشپ پر نظر رکھی جارہی تھی۔ اتوار اور پیر کی درمیانی شب کو ہم نے ایک مصدقہ اطلاع ملنے پر جیش محمد کے اس ماڈیول کا پتہ لگایا۔ مجھے قوم کو یہ بتاتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ حملے کے 100 گھنٹوں کے اندر ہی ہم نے جیش محمد کی لیڈرشپ کو اپنے انجام تک پہنچا دیا۔ اس ماڈیول کا ریموٹ کنٹرول پاکستان میں تھا۔ مسلح تصادم کے دوران دو پاکستانی اور ایک مقامی جنگجو کو مارا گیا’۔ لیفٹیننٹ جنرل ڈھلون نے کہا کہ پنگلن مسلح تصادم میں جیش محمد کی لیڈر شپ کا خاتمہ مختلف سیکورٹی ایجنسیوں کے درمیان بہتر تامل میل کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا ‘میں آپ سے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ یہ بڑی کامیابی تمام سیکورٹی ایجنسیوں کے درمیان بہتر تال میل کا نتیجہ ہے’۔ انہوں نے مزید کہا ‘میں 14 فروری کے کانوائے حملے میں شہید ہوئے سبھی اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ میں ان جوانوں کو بھی خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جو پلوامہ مسلح تصادم کے دوران جاں بحق ہوئے’۔ پنگلن پلوامہ میں پیر کے روز سیکورٹی فورسز اور جنگجوﺅں کے درمیان قریب 18 گھنٹوں تک جاری رہنے والا مسلح تصادم ایک میجر اور جموں وکشمیر پولیس کے ہیڈکانسٹیبل سمیت 5 سیکورٹی فورس اہلکاروں، جیش محمد کے تین جنگجوﺅں اور ایک عام شہری کی ہلاکت پر ختم ہوا۔ مسلح تصادم کے دوران ڈی آئی جی جنوبی کشمیر، ایک آرمی بریگیڈیئر، ایک لیفٹیننٹ کرنل، ایک میجر اور ایک کیپٹن سمیت 12 سیکورٹی فورس اہلکار زخمی ہوگئے۔ مہلوک فوجیوں کی شناخت میجر وبھوتی شنکر ڈونڈیال، حوالدار شیورام، سپاہی ہری سنگھ، سپاہی اجے کمار اور پولیس ہیڈ کانسٹیبل عبدالرشید کے طور پر ہوئی تھی۔ لیفٹیننٹ جنرل ڈھلون نے پریس کانفرنس کے دوران کشمیری عوام سے اپیل کی کہ وہ مسلح تصادم کے مقامات سے دور رہیں۔ ان کا کہنا تھا ‘میں عوام سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ وہ مسلح تصادم کے مقامات سے دور رہیں۔ مسلح تصادم کے دوران کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ مسلح تصادم ختم ہونے کے بعد پھٹنے سے رہ جانے والا بارودی مواد نقصان پہنچا سکتا ہے۔ میری سب سے مودبانہ اپیل ہے کہ وہ مسلح تصادم کے مقامات سے دور رہیں’۔ فوجی عہدیدار نے کہا کہ ‘لیتہ پورہ حملے کی منصوبہ بندی پاکستانی فوج، آئی ایس آئی اور جیش محمد نے کی۔ اس میں مقامی لوگ بھی ملوث ہیں۔ لیکن میں تفصیلات شیئر نہیں کرسکتا’۔ انہوں نے کہا ‘جیش محمد پاکستان آرمی کا ہی ایک بچہ ہے۔ جیش محمد کو پاکستانی آرمی اور آئی ایس آئی ہی کنٹرول کررہی ہے۔ جیش محمد نے خود قبول کیا ہے کہ ان کا چیف آپریشنل کمانڈر مارا گیا ہے۔ حملے میں پاکستان آرمی کا صد فیصد ہاتھ ہے، اس میں ہمیں کوئی شک نہیں ہے’۔ لیفٹیننٹ جنرل ڈھلون نے کہا کہ تین مہلوک جنگجوﺅں میں سے کامران عرف عبدالرشید غازی لیتہ پورہ خودکش حملے کا ماسٹر مائنڈ اور کشمیر میں جیش محمد کا چیف آپریشنل کمانڈر تھا۔ انہوں نے کہا ‘کامران کشمیر جیش محمد کا چیف آپریشنل کمانڈر تھا۔ وہ ایک پاکستانی تھا۔ ان کو پاکستان میں جیش محمد، آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج سے ہدایات ملتی تھیں۔ اسی نے 14 فروری کا کانوائے حملہ انجام دیا۔ ہم نے کانوائے حملہ انجام دینے والے جیش محمد کمانڈر کو ہلاک کردیا ہے۔ حملے میں اور کون لوگ ملوث تھے، حملے میں کس کا کیا کردار تھا اس کی تحقیقات جاری ہے۔ میں یہاں حملے کی آپریشنل تفصیلات منکشف نہیں کرسکتا’۔ انہوں نے کہا ‘میں اس نام نہاد غازی کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کشمیر میں مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ کتنے غازی آئے اور کتنے چلے گئے۔ کوئی بھی غازی آئے ہم نمٹنے کے لئے تیار ہیں۔ جو کوئی وادی کشمیر میں داخل ہوگا وہ زندہ واپس نہیں جائے گا’۔ لیفٹیننٹ جنرل ڈھلون نے اس بات کا عتراف کیا کہ لیتہ حملہ وادی میں اب تک کا سب سے بڑا حملہ ہے۔ انہوں نے کہا ‘اس نوعیت کا حملہ ایک طویل مدت کے بعد ہوا ہے۔ اس شدت کا حملہ اس سے پہلا نہیں ہوا تھا۔ اس نوعیت کے حملے دوسرے ممالک جیسے افغانستان، شام اور پاکستان میں ہوتے ہیں۔ چونکہ جنگجوﺅں نے یہ طریقہ استعمال کرنا شروع کردیا ہے، ہم نے ایسے حملوں سے نمٹنے کے لئے تمام متبادل کھلے رکھے ہیں’۔ یہ پوچھے جانے پر کہ بارود سے لدی ایک کار قومی شاہراہ پر کیسے آئی، اس پر فوجی کمانڈر کا کہنا تھا ‘یہ معاملہ زیر تحقیقات ہے۔ تحقیقات ایم مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ اگرچہ ہم بہت کچھ جان چکے ہیں، لیکن میں اس وقت اور اس مرحلے پر تحقیقات سے متعلق تفصیلات آپ کے ساتھ شیئر نہیں کرسکتا۔ مجھے امید ہے کہ آپ ہماری مجبوری کو سمجھیں گے’۔پنگلن مسلح تصادم کے دوران سیکورٹی فورسز کو ہوئے بھاری نقصان پر لیفٹیننٹ جنرل ڈھلون نے کہا ‘شہادتوں اور زخمی ہونے کی دو تین وجوہات ہیں۔ پہلا ہم نہیں چاہتے تھے کہ آپریشن کے دوران کوئی عام شہری مرے۔ جو ایک شہری کی موت واقع ہوئی ہے وہ ابتدائی فائرنگ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ قریب 17 گھنٹوں تک جاری رہنے والے اس آپریشن کے دوران کوئی عام شہری جاں بحق ہوا نہ کوئی زخمی’۔ انہوں نے کہا ‘بریگیڈیئر ہربیر سنگھ جو اس آپریشن کے دوران زخمی ہوئے ہیں، وہ لیو پر اپنے گھر گئے ہوئے تھے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ آپریشن شروع ہوگیا ہے، وہ لیو پر چلے جانے کے باوجود واپس آگئے اور آپریشن میں حصہ لیا۔ وہ آپریشن میں شامل سیکورٹی فورس اہلکاروں کی قیادت کررہے تھے۔ ڈی آئی جی امیت کمار بھی فورسز کی قیادت کررہے تھے۔ سینئر افسران کے زخمی ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آپریشن کی قیادت کررہے تھے۔ وہ یہ یقینی بنانا چاہتے تھے کہ کسی شہری کی جان نہ جائے’۔ دریں اثنا جموں وکشمیر پولیس کا کہنا ہے کہ پلوامہ کے پنگلن میں مارے گئے جیش محمد کے تین جنگجوﺅں کی حالیہ لیتہ پورہ پلوامہ میں سی آر پی ایف قافلے پر خودکش حملے میں ملوث ہونے کی جانچ پڑتال ہورہی ہے۔ ریاستی پولیس کے ایک ترجمان نے یہ اطلاع دیتے ہوئے کہا ‘پنگلن میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں کل ملا کر 3 جنگجو ہلاک ہوئے جن میں سے ایک کی شناخت ہلال احمد ساکنہ پنگلن پلوامہ کے بطور ہوئی ہے جبکہ جھڑپ کے دوران مارے گئے مزید دو جنگجو پاکستان کے رہائشی ہیں جن کی شناخت کامران عرف فہد اور راشد عرف غازی عرف لقمان کے بطور ہوئی ہے’۔ انہوں نے کہا ‘تصادم کی جگہ اسلحہ وگولہ باورد اور قابل اعتراض مواد برآمد کرکے ضبط کیا گیا۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق جنگجو کالعدم تنظیم جیش کے ساتھ وابستہ تھے اور وہ سیکورٹی فورسز پر حملوں، عام شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی کارروائیوں اور دیگر تخریبی سرگرمیوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کو مطلوب تھے۔ حال ہی میں لیتہ پورہ پلوامہ میں سی آر پی ایف قافلے پر کئے گئے حملے میں مہلوک جنگجوﺅں کے ملوث ہونے کی بھی جانچ پڑتال ہو رہی ہے’۔ پولیس ترجمان کے مطابق جھڑپ کی جگہ اسلحہ وگولہ بارود اور رائفلیں برآمد کرکے ضبط کی گئیں۔ مہلوک جنگجوﺅں کی دیگر تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے ضمن میں بھی تحقیقات شروع کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تصادم کے دوران سینئر آفیسران جن میں ڈی آئی جی جنوبی کشمیر امیت کمار اور کمانڈر 12سیکٹر زخمی ہوئے تاہم اُن کی حالت اسپتال میں مستحکم بتائی جارہی ہے۔ پولیس ترجمان نے مسلح تصادم کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ حفاظتی عملے کو یہ اطلاع موصو ل ہوئی کہ جنگجو ضلع پلوامہ کے پنگلن گاﺅں میں چھپے بیٹھے ہیں تو پولیس اور سیکورٹی فورسز نے 17اور 18فروری کی درمیانی رات کو مشترکہ طورپر فوراً اس علاقے کو محاصرے میں لے لیا اور انہیں ڈھونڈ نکالنے کے لئے کارروائی شروع کی، فرار ہونے کے تمام راستے مسدود پا کر رہائشی مکان میں موجود جنگجوﺅں نے حفاظتی عملے پر اندھا دھند فائرنگ شروع کی جس کے نتیجے میں چار فورسز اہلکار اور ایک عام شہری شدید طورپر زخمی ہوئے جنہیں فوری طورپر علاج ومعالجہ کی خاطر نزدیکی اسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہاں چار فوجی جوان شہید ہوئے جبکہ عام شہری بھی زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا۔ انہوں نے کہا کہ سلامتی عملے نے بھی پوزیشن سنبھال کر جوابی کارروائی کا آغاز کیا جس دوران تین جنگجو ہلاک ہوئے۔ دریں اثنا پولیس نے عوام سے پُر زور اپیل کی ہے کہ وہ جائے تصادم پر جانے سے تب تک گریز کیا کریں جب تک اُسے پوری طرح سے صاف قرار نہ دیا جائے کیونکہ پولیس اور دیگر سلامتی ادارے لوگوں کے جان و مال کی محافظ ہیں لہذا لوگوں کی قیمتی جانوں کو بچانے کے لئے پولیس ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ چنانچہ ممکن طور جھڑپ کی جگہ بارودی مواد اگر پھٹنے سے رہ گیا ہو تو اُس کی زد میں آکر کسی کی جان بھی جاسکتی ہے۔ اسی لئے لوگوں سے بار بار اپیل کی جاتی ہے کہ وہ جھڑپ کی جگہ کا رخ کرنے سے اجتناب کریں۔ لوگوں سے التجا کی جاتی ہے کہ وہ حفاظتی عملے کو اپنا کام بہ احسن خوبی انجام دینے میں بھر پور تعاون فراہم کریں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقع پیش نہ آسکے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا