کیا ہندوستانی میڈیا اعتباریت کے شد ید بحران سے باہر نکل پائے گا ؟

0
0

عبدالباری مسعود

ہندوستان کا میڈیا (بعض استثنا ءکے ) آج اعتباریت کے شدید بحران سے دوچار ہے ۔یہاں تک عالمی سطح کی درجہ بندی انڈیکس میںہندوستان کا مقام سال 2018مزید دو مقام نیچے گر کر افغانستان سے نیچے 138 مقام پر پہنچ گیا ہے ۔ ایمرجنسی کے دور میں بھی اس کی ی ایسی افسوسناک حالت نہیں تھی جس کے بارے میں بی جے پی کے بزرگ ترین لیڈر ایل کے ایڈوانی (جنہیں اب پارٹی میں حاشیہ پر کردیا گیا ہے ) کے تبصرہ کی باز گشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ ایڈوانی نے کہا تھا کہ ” میڈیا کو جھکنے کے لئے کہا گیا تھا مگر وہ رینگنے لگا۔“ لیکن آج تو بیشتر اخبارات اور نیوز چینل حکومت وقت کے عملاً ترجمان بن گئے معلوم ہوتے ہیں۔ ٓج ہر ایک کو یہ شکایت ہے کہ میڈیا صحافتی تقاضوں اور اصولوں کا خیال نہیں رکھ رہا ہے۔ اس کے متعدد عوامل ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں اور کلیدی وجہ ، ملک کے دیگر اداروں کی طرح میڈیا کا نمائندہ نہ ہونا ہے جس پر چند مخصوص طبقات جو اقلیت میں ہیں مگر پیدائشی طور پر مراعات یافتہ ہیں، کا تصرف اور تسلط ہے اور ملک کی اکثریتی آبادی کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے ۔ بلا شبہ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے مگر پریس آزادی کی جو تشویشناک صورت حال ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ہندی ہو یا انگریزی یا علاقائی زبانوں کا میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا سے عموما یہ شکایت رہتی ہے کہ وہ مسلمانوں اور کمزور طبقات کو نظر انداز کرتا ہے یا ان سے متعلق امور میں معروضیت ، غیر جانبداری ، اور صحافتی اخلاق و ضوابط کا کوئی خاص خیال نہیں رکھتا ۔ جمہوری نظام کی عمارت میں ذرارئع ابلاغ یا صحافت کو چوتھے ستون کی حیثیت حاصل ہے جس کا کام حکومت وقت کا معروضی محاسبہ کرکے عوامی مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے ۔ تاہم جب سے یہ حکومت بر سر اقتدار آئی ہے تب وہ حکمراں جماعت کا ایک ترجمان سا بن گیا ۔اس کے بیانہ میں جارحانہ اور اعصابی قوم پرستی کا عنصر بہت نمایاں ہوگیا ہے۔ اختلاف رائے اور مختلف نقطہ نظر کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں رہ گی ہے ۔حکومت کی نکتہ چینی اور اسکی پالیسیوں سے اختلاف رائے کو ملک دشمن پر محمول کیا جانے لگا جس کا واضح ثبوت یہ ہے سال 2016 میں بغاوت اور ملک سے غداری کے 40 مقدمے قائم کئے گئے۔ ایک فلم جس میں ایک ہندو افسانوی رانی کو دکھایا گیا ہے۔ اس فلم کے خلاف ملک میں ایک طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا فلم کے اداکاروں کو جان سے مارنے کی دھمکیاںدی گئیں۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو میڈیا کے سخت نکتہ چیں ہیں جو پریس کونسل آف انڈیا کے چیئر مین بھی رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میڈیا کا 90 فی صد کوریج فروعی اور بے اصل مسائل کی طرف ہوتا ہے جبکہ اصل مسائل کی طرف توجہ دس فی صد ہوتی ہے ۔ اب صورت حال یہ کہ حکومت کی ناکامیوں کی طرف سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے وہ نئے نئے اشیو تلاش کرتا ہے ۔ خاص طور ٹی وی چینلوں کا یہ محبوب مشغلہ ہے کہ وہ فروعی موضوعات پر بحث کراتے ہیں اور یہ ٹی وی اسکرینوں پربحث کی محفلیں مچھلی بازار کا منظر پیش کرتی ہیں۔ میڈیاسنگین مسائل جیسے بڑے کے گوشت پابندی، ماب لنچنگ ، یونیورسٹیوں میں بے چینی اور طلبا کا احتجاج ، عوامی بے چینی ، دلتوں اور کمزور طبقات پر مظالم ، مہنگائی ، بے روزگاری ، کرپشن کے بڑے بڑے اسکنڈل کو نظر انداز کرنا جن میں مبینہ طور حکمراںجماعت سے وابستہ حکومتی اہلکار اور افراد ملوث ہیں، وغیرہ کا سر ی سری طور پر تذکرہ ہوتا ہے یا بعض چینل اور اخبارات کو بڑی دھٹائی سے حکمرانوں کو دفاع کرنے لگتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال آکسفام نامی ایک بین الاقوامی چیرٹی تنظیم کی سالانہ رپورٹ ہے۔ اس میں یہ انکشاف کیا کہ انڈیا کے امیر ترین 9 افراد کی دولت نیچے سے 50 فی صد آبادی کے مساوی ہے۔ آکسفام کی سربراہ Winnie Byanyima کے بقول ” یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ انڈیا کے بعض امیر ترین افراد دولت کا انبار لگا رہے ہیں وہیں دوسری طرف غریب آبادی کو دوسرے وقت کے کھانے یا اپنی بچوں کی دوا خریدنے کےلئے جد وجہد کرنی پڑ رہی ہے ۔“ رپورٹ کے مطابق غریب ترین 13.6 کروڑ ہندوستانی جو آبادی کا دس فی صد ہیں سال 2004 سے غربت و افلاس کا شکار ہیں۔ اسی طرح رپورٹ کے مطابق ملک کی 10 فی صد آبادی کے تصرف میں ملک کی مجموعی دولت کا 77.4 فی صد حصہ ہے۔ اور گزشتہ سال 18 نئے ارب پتیوں کا اضافہ ہوا ہے جنکی تعداد ا ب 119 ہوگئی ہے اور ان سب کی مجموعی دولت کی مالیت 28 لاکھ کروڑ سے زیادہ ہے۔ یہ رپورٹ ٹی وی ٹاک شو کا موضوع بن نہیں سکی۔ اسی طرح کھوجی صحافت کے لئے مشہور کوبر اپوسٹ نے گزشتہ سال مئی میں بھی ایک اسٹنگ آپریشن کرکے متعدد میڈیا اداروں کو بے نقاب کیا تھا کہ وہ پیسہ کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں اور حکمراں جماعت کے ایجنڈے کی ترویج اپنا فریضہ سمجھ کرانجام دینے کے لئے تیار ہیں۔ کوبرا پوسٹ نے اس اسٹنگ آپریشن کا نام عالمی پریس انڈیکس ،2017 World Press Freedom Indexمیں ہندوستان کے 136 ویں مقام کی مناسبت سے "Operation 136” رکھا تھا ۔ جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ میڈیا اداروں کے ذمہ داران اور سینئر صحافی حکمران جماعت سے ہمدردی رکھتے ہیں اور پیسہ کے عوض اسکی تشہیر ی مہم چلانے کے لئے تیار ہیں۔مگر اس کو میڈیا نے بڑی حد تک نظر انداز کردیا تھا ۔ کچھ دن پہلے بھی کوبرا پوسٹ ایک کمپنی کی ذریعہ31ہزا کروڑ روپیئے غبن کرنے کا انکشاف کیاتھا مگر اسے بھی دبا دیا گیا۔ مبصرین کے بقول ہندوستانی صحافت کا معیار بہت خراب اور کمزور ہے ۔ میڈیا کی ایک عالمی تنظیم Reporters Without Borders, نے صحافت کے معیار کے لحاظ سے دنیا کے ملکوں کی درجہ بندی کی ہے اس کے تحت 180 کی فہرست یا درجہ بندی میں ہندوستان کا مقام در حقیقت 136 واں ہے ۔ جہاں تک پریس کی آزادی کا معاملہ ہے ہندوستان کی حالت افغانستان اور متحدہ عرب امارت سے بھی خراب ہے۔ حال ہی منی پور کے ایک صحافی کو قومی سلامتی قانون NSAکے تحت گرفتار کیا گیا۔ ایسی درجنوں مثالیں ہیں۔ نوبل انعام یافتہ اور مشہور معاشیات داں پروفیسر امریتہ سین انڈیا میڈیا کے بڑے ناقد ہیں ۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں اس کا بڑا محاکمہ کیا تھا کہ انڈیا میڈیا میں ذات پات کی عصبیت پائی جاتی ہے ۔میڈیا کے تجزیہ کاروں کی یہ رائے ہے کہ دنیا کے بڑے میڈیا اداروں میں طبقاتی عصبیت پائی جاتی ہے مگرانڈیا کامعاملہ مختلف ہے۔ بقول پروفیسر سین ایک ایسا ملک جس کی ایک تہائی آبادی انتہائی غربت کا شکارہے جہاں معاشی عدم مساوات اور تفاوت کا بول بالا ہے جو ملک کی نشوونما کے لئے سنگین مضمرات کے حامل ہیں لیکن اس پر میڈیا وہ توجہ دیتا ہی نہیں جس کی سخت اور فوری ضرورت ہے۔ ملک میں اسوقت 70,000 زائد اخبارات اور 892سٹلائیٹ ٹی وی چینل جن میں سے تقریباً403چینل حالات حاضرہ اور خبروں کے لئے مخصوص ہیں۔ اطلاعات و نشریات کی مرکزی وزارت نے پہلے 1031چینل شروع کرنے کی جازات دی تھی مگر گزشتہ سال 139چینلوں کے لائنسنس منسوخ کردیئے گئے۔ آج ڈیجیٹل جرنلزم ( برقی صحافت ) کے عروج کے باوجود انڈیا پوری دنیا میں اخبارات کا سب سے بڑا مارکیٹ بھی ہے جہاں یومیہ دس کروڑ اخبارات کی کاپیاں فروخت ہوتی ہیں۔اسی طرح ٹی وی چینلوں کی بھی اتنی بہتات ہوگئی ہے کہ ان کے نام بھی یاد رکھنا مشکل ہوگیا ہے جبکہ دو دہائیوں پہلے صرف ایک چینل ہوا کرتا تھا وہ تھا سرکاری دور درشن چینل جسکے اب خود درجنوں چینل ہیں۔ دہلی کے ایک تحقیقی ادارہ Centre for the Study of Developing Societies نے سال 2006 میں ہندی اور انگریزی کے 37 بڑے میڈیااداروں کے نیوز روم میں بر سرکار 315 اہم پالیسی سازوں (اعلی ادارتی عملہ )کاایک سروے کیا تھا جو اخبار میں کیا چھپے اورٹی وی چینل پر کیا نشر ہو اس کا فیصلہ کرتے ہیں۔ سروے میں یہ تلخ حقیقت سامنے آئی کہ ہندی اور انگریزی دونوں کے اخبارات اور نیوز چینلوں میں بالترتیب 90 اور 79 فی صد فیصلہ ساز ادارتی عملہ کا تعلق ” اعلی ذاتوں “ سے ہے۔ اس شعبہ میں دلتوں کی عملاًکوئی نمائندگی نہیں ہے۔جنکا آبادی میں تناسب 20 فی صد سے زیادہ ہے۔ یہاںتک کہ سرکاری ادارے پرساربھارتی ( دور درشن اور آکاشوانی) میں ریزرویشن کے باوجود دلتوں کی ادارتی عملہ میں نمائندگی عملاًصفر ہے۔ اس سلسلہ میں ایک واقعہ کوپیش کرنا بے محل نہیں ہوگا۔ سابق صدر جمہوریہ آنجہانی کے آر نارائنن کو کوئی باضابطہ دلت رپورٹر نہیں مل سکا تھا جب وہ نائب صدر تھے انہیں ایک غیرملکی دورہ درپیش تھا وہ اپنے ہمراہ ایک دلت رپورٹر کو لیجانا چاہتے تھے لیکن انہیں یہ نہیں مل سکا تھا ۔ نمائندگی کے اعتبار سے یہی صورت حال دیگر پسماندہ طبقات کی بھی ہے جن کا آبادی میں تناسب 52فی صد سے زیادہ ہے لیکن انکی نمائندگی برائے نام ہے ۔گو بعض مسلم نام بھی نظر آتے ہیں مگر ان میں سے چند ہی کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے ۔ پروفیسر سین کہتے ہیں کہ انڈین میڈیا کو امریکی اخباری اداروں سے سبق لینا چاہیئے۔ 1975 میں امریکی ادارتی عملے میں محض 4 فی صد سیاہ فام اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے افراد شامل تھے۔ تین سال مدیروں نے یہ عہد کیا کہ اقلیتوں کو انکے تناسب کے اعتبار سے اخبارات میں نمائندگی دی جائے گی ۔ انہوں نے اسکالرشپ کا سلسلہ شروع کیا اور عملہ کی بھرتی کے لئے میلے منعقد کئے۔ سال 2000, تک امریکہ کے 60 فی صد سے زیادہ یعنی 1,500 اخبارات نے اس عہد کی پاسداری کی۔ دہلی کے میڈیا اسٹڈیز گروپ نے بھی ہندی میڈیا میں رجحانات ہیں کا احاطہ کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ اس پر ” پیدائشی مراعات یافتہ طبقات کا غلبہ ہے جنہیں عرف عا م ’ اعلی ذاتیں “ کہا جاتا ہے جنہیں اس کے لئے انہیں مذہبی جواز بھی حاصل ہے ۔ میڈیا اسٹڈیز گروپ نے ہندی میڈیا میں طبقاتی نمائندگی کا بھی ایک سروے کیا تھا جس میں یہ معلوم ہوا کہ اس میں برہمن ، بنیوں ، کائستھوں دیگر اعلی ذاتوں کا مکمل غلبہ ہے جنکی مجموعی آبادی 15فی صد بھی نہیں ہے ۔ اسی ادارہ ایک دوسری اسٹڈی میں ہندی اخبارت میں میجر گوگوئی کو انعام دینے کے حوالے سے کشمیر کے بارے میں خبر نگاری کا جائزہ لیا تھا اور اس میں جرمنی کے اس تاریخی واقعہ کا ذکر کیا تھا کہ نازی جرمنی میں 1930 کی دہائی میں یہودیوں کے خلاف نسل کی بنیاد پر نفرت کی مہم میڈیا کے ذریعہ چلائی گئی تھی ، بتایاگیا کہ ہندی صحافت میں نسل کی جگہ پر فرقہ پرستی اور ذات پرستی کو ہوا دینے کی مہم چلتی ہے ۔ یہ مہم دراصل ملٹریرائزیشن کا مہم کا ایک حصہ ہوتی ہے جو زبان کی سطح سے کی جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے عالمی پریس فریڈم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ” ہندو قوم پرست ( ہندتو) عناصر قومی بحث سے ان تمام افکار و نظریات کو ختم کرنا چاہتے ہیں جنہیں وہ ©©” ملک دشمن “ تصور کرتے ہیں اور مین اسٹریم میڈیا میں ازخود سنسر شپ self-censorship کا رجحان تیزی بڑ ھ رہا ہے ۔ سال 2018 کے انڈیکس میںہندوستان کا مقام مزید دو مقام نیچے آگیا وہ افغانستان کے بعد 138 مقام پر گرگیا۔ میڈیا اپنا کھویا ہوا مقام اسی صورت میں حاصل کرسکتا ہے جب اسے تمام فرقوں اور طبقات کا نمائندہ بنایاجائے گا۔ نوٹ :صاحب مضمون انگریزی نیوز پورٹل مسلم مرر کے ایڈیٹر ہیں .

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا