رواداری پر تنگ نظری حاوی ہونے لگی ہے

0
0

محمداعظم شاہد

مذہب کے نام پر عامیانہ سیاست رچانے کا چلن پچھلے چند برسوں سے ہمارے عظیم ملک میں آئے دن زور پکڑتا جارہا ہے ۔فرقہ پرست بے لگام ہورہے ہیں ۔یہ روش آگ کی طرح ملک کے طول وعرض میں پھیل رہی ہے ۔بقائے باہمی ،آئین کا احترام ،نظم وضبط ،قانون کی پاسداری یہ سب مذہبی جنون میں فرقہ پرست بھول بیٹھے ہیں یا پھر بھولنے کا ناٹک کر رہے ہیں ۔یہ بات اس لئے بھی لکھنا ضروری ہے کہ چند نام نہاد مہنت جو خود کو دھرم ادھیکاری یا دھرم کے رکھشک کہتے ہیں ،ایسی ایک کھیپ ان مہنتوں (سنتوں یا سادھوؤں )کی سر اٹھائے کھلے عام ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلا ف بھڑکانے کا کام کر رہی ہے ۔ہندو دھرم پورے عالم کو ایک کنبہ قرار دیتا ہے ،مگر اِس طرز حیات سے نا آشنا زعفرانی چولے میں چھپے حیوان اپنی اشتعال انگیزی اور زہریلی باتوں سے ملک میں امن وامان کو درہم برہم کرنے پر تلے ہیں ۔جہاں’ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ ‘کے نعرے کو محض ایک نعرے Sloganکی طرح اپنے پروپیگنڈے میں استعمال کیا جاتا رہا ہو،وہاں آدرشوں اور مان مریاداؤں کا دھیان ہی کہا ں رہتا ہے ۔تبھی تو اترپردیش کے سیتا پور کے نام نہاد مہنت بجرنگ منی نے مسلمان کی بیٹیوں اور بہوؤں کے ’بلتکار‘(عصمت دری) کی آواز دی ہے اور اس شرپسند مہنت کی یاترا میں پولیس کے دستے بھی اس کے محافظ بنے ویڈیو ز میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔کئی بااثر سیاست دان ایسے شر پسندوں کے بھکت ہیں ۔واضح ہے ایسے میں ان پھاکنڈی مہنتوں پر قانونی کارروائی کیسے ہوسکتی ہے۔صدیوں سے ہم آہنگی سے رہتے آئے ہندوؤں اور مسلمانوں کو تقسیم کرنے بجرنگ منی کہتا ہے کہ مسلمانوں نے اس پر کئی بار جان لیوا حملے کئے ہیں اور مسلمانوں کی سیتا پور میں بڑھتی تعداد ہندو سماج کے لئے خطرہ ہے ۔ہمار ے ہاں چند ہی گنے چنے ٹیلی ویژن نیوز چینلس رہ گئے ہیں جو ایسی گھناؤنی سازشوں اور حرکتوں کو دکھاتے ہیں اور یہ چینلس سوال پوچھتے ہیں کہ شانتی بھنگ کرنے والے سنتوں اور مہنتوں کی سرپرستی سماج میں ماحول بگاڑ رہی ہے اور حکام اور حکومت آخر تماشائی بن کر اور خاموش رہ کر کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ۔مسلمانوں کے خلاف کوئی مہنت غیر ذمہ دارانہ رویہ رکھتے ہوئے کھلے عام گالیاں بکتا ہے ۔حکومت کے تحت کام کرنے والی پولیس بھی خاموش رہ جاتی ہے ۔ویسے مذہب کو قومیت سے جوڑ کر وطن پرستی یا نیشنلزم کی باتیں کرنے والے ہمارے ملک کی شاندار وراثت کو ہر اعتبار سے داغدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔در اصل مسلم دشمنی ملک دشمنی کے مترادف ہے ۔کیونکہ کوئی عقل کا اندھا مانے یا نہ مانے مسلمان بھی اس ملک کا اٹوٹ حصہ ہیں ۔جنہوں نے اس کی تعمیر وتشکیل میں سب کے ساتھ مل کر نمایاں کردار نبھایا ہے ،مسلمانوں کو ختم کرنے ،اس ملک میں ان کا صفایا کرنے انہیں قتل عام کرنے کی افسوس ناک باتیں ایک اور نام نہاد مہنت یتی نرسمہا نند نے حالیہ دنوں میں کی ہیں جو یوپی کے غازی آباد کے داسنا دیوی مندر کا پجاری ہے ۔ایسی شرمناک حرکتوں پر حکومت کی خاموشی واضح کرتی ہے کی نفرتوں کو عام کرکے مسلمانوں کو پریشان رکھا جائے،انہیں خوف وبے چینی میں مبتلا رکھا جائے ،ان کا دائرہ حیات تنگ کردیا جائے ۔گزشتہ چند مہینوں میں جو فرقہ واریت سے منسوب حالات ریاست کرناٹک میں نمو دار ہوئے ہیں اس کی مذمت ہر اس شخص نے کی ہے جو ہندوستان کو کثیر مذہبی اورکثیر لسانی ملک تسلیم کرتا ہے ،اور کثرت میں وحدت اس ملک کی روایت رہی ہے ۔چند ہندو تنظیمیں اپنے جارحانہ رویہ سے توڑ پھوڑ اور غارت گری کو اپنا ہتھیار بنا کر کرناٹک میں نہتے مسلم تاجروں کو نشانہ بنا رہی ہیں ۔ہندو راشٹرا واد کو بڑھاوا دینے والی ہندو تنظیمیں ان دنوں نئے نئے تنازعات ڈھونڈ نکال رہے ہیں ۔مسلمانوں کے خلاف ماحول تیار کرنے منصوبہ بند طورپر مذموم سازشیں رچی جارہی ہیں ،اس ماحول میں غنیمت کے طور پر پورے ملک میں کچھ ایسے فکر مند اور امن پسند ہمارے ہندو ساتھی ہیں جنہوں نے نہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہورہے محاذ آرائیوں کی مذمت کی ہے بلکہ حالات کو قابو میں لانے حکومتوں کی بروقت مداخلت کے لئے نمائندگی بھی کی ہے ۔مسلمانوں کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کے رجحان کو بڑھاو ادینے کی آڑ میں کئی کمپنیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔حلال گوشت پر تنازعہ کے زیر اثر فریش ٹو ہوم ،نندو،لیٹیسئس بگ باسکٹ جیسی کمپنیوں نے حلا ل کا لیبل اس لئے نکال دیا کہ غیر مسلم گاہکوں کو اپنے پراڈکٹس سے جوڑے رکھے ،حالانکہ یہ کمپنیاں حلال گوشت ہی فروخت کرتی ہیں ،مگر حلال کا لیبل نکلتے ہی مسلمان خریداروں میں عدم اعتماد نظر آنے لگا ،اب خریدار بھی حلال اور جھٹکا کٹ میں بٹ گئے ہیں اور حلال تجارت سے جڑی معیشت بھی متاثرہونے لگی ۔
وطن عزیز ہندوستان میں مذہب کے نام پر ہورہی سیاست کی کارستانیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف ٹی وی اینکر رویش کمار نے ایک نئی اصلاح’ کچھ لوگ‘ اور چُپ لوگ‘ کے ذریعہ مذہبی منافرت کے موجودہ منظر نامہ کا احاطہ کیا ہے جو فکر انگیز ہے ۔کچھ لو گ امن میں خلل ڈالنے کی حرکتیں کرتے ہیں اور’’ چپ لوگ ‘‘ وہ ہیںجو اِن اوچھی حرکتوں کو دیکھ کر تماشائی کی طرح خاموش رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں ۔’یہ چُپ لوگ ‘ ’کچھ لوگ ‘ کی حمایت کرتے ہیں ۔اِن دوطرح کے دولوگ سماج کا ایک بڑا طبقہ ہیں جونئی نسل میں فسادی ذہن اور حقوق کی پامالی کے چلن کو عام کرتے ہیں،حرکتیں کرنے والے بھڑکاتے ہیں نفرتوں کو اور چپ رہنے والے چپ رہ کر ان کی حمایت کرتے ہیں ۔یہ طرز فکر وعمل گویا ایک ہنر ایک تجارت بن گیا ہے ۔عدم رواداری کے گھناؤنے سائے بڑھتے ہی جارہے ہیں اور ایسی روش جہاں باہمی اعتماد زخمی ہورہا ہو وہاں چین وسکون خطرات کی نذر ہوتا رہتا ہے ۔ملک ان حالات میں کس سمت بڑھے گا ،یہ ہم سب پر واضح ہے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا