ذوالفقار نقوی کا "اجالوں کا سفر”

0
0
نذیر قریشی
(جون 2011)
ذوالفقار نقویؔ موضع گورسائی، تحصیل مینڈر، ضلع پونچھ کے سادات خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ آزادی کے بعد پروان چڑھنے والی ساداتِ گورسائی کی نئی نسل علمی، ادبی اور دینی اعتبار سے انفرادیت کی حامل ہے۔ دینی گھرانے میں آنکھ کھولنے کی وجہ سے قرآن، فقہِ اسلامی اور تاریخِ اسلام کے صحیح تناظر میں مطالعے نے جواں سال ذوالفقار نقویؔ کو فکرِ  فلک رس اور ذہنِ  رسا بخشا۔ شاعری سے نقویؔ صاحب کا شغف بھی ایک خاص پسِ منظر کا حامل ہے۔ مسلکی اعتبار سے نقوی مولائی ہیں اور اہلِ  بیتِ اطہار سے مودت کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہیں۔ ضلع پونچھ میں بالعموم اور گورسائی مینڈر میں بالخصوص نئی نسل دینی اور مسلکی مجالس کو اپنی تربیت گاہ کے طور سنجیدگی سے لیتی رہی ہے۔ اِن مجالس میں علمائے دین اور شعرائے اہل بیت تشریف لاتے رہے اور اپنے موعظات کے علاوہ معیاری شاعری میں آئمہ معصومین ؑ اور شہدائے کربلا کو خراج  پیش کرتے رہے۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ نقوی صاحب نے اِن شعراء کے کلام سے تحریک پائی اور یوں اِن کا شعری سفر شروع ہوا۔ چونکہ نقوی صاحب پیدائشی طور پر ایک ذہین اور فطین شخص ہیں۔ اِس لئے انہوں نے جلد اپنی شاعرانہ عظمت منوا لی۔
ان کا پہلا مجموعہ ’’زادِ  سفر ‘‘کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ اور اب یہ دوسرا مجموعۂ  کلام موسوم  ’’اُجالوں کا سفر‘‘ حاضر ہے۔  پہلے اور دوسرے مجموعے میں مقصدیت کی مماثلت عیاں ہے۔ زادِ  سفر اُجالوں سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے اور وہ بھی تب جب فرد سے سماج تک سبھی اندھیروں کے مسافر بنے ہوئے ہوں۔ اُجالوں کے سفر کی جانب مراجعت اور رغبت گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نجات کا موجب بن سکتی ہے۔ اس لئے نقوی  صاحب بجا فرماتے ہیں کہ
اُجالوں کی سودا گری کا چلن ہے
اندھیروں کو اپنے کہاں بیچ آئیں؟
اور پھر۔۔۔۔
اُجالے پھر اڑانیں بھر رہے ہیں
کوئی خورشید ٹوٹے گا کہیں پر
نقوی صاحب کا کلام سوزِ  جگر کا واضع  پہلو لئے ہوئے  ہے۔ وہ دعائیہ کلمات میں ہی اپنی  مرادوں کی منزل کی نشاندہی کر جاتے ہیں
کر عطا پاک سخن، پاک نظر، دل طاہر
میرے احساس کی دنیا کو مدینہ دے دے
غزل کا کینواس اب اتنا وسیع ہے کہ اس کی تنگنائی کے شکوے کے دن لد گئے ہیں۔ اب شاعر کوٹھے سے اترتا اور مے کے مٹکے سے نکلتا، بلکہ وہ محبت کے فطری جذبے سے بھی یہ کہہ کر بغاوت کرتا ہے کہ۔۔۔
اور  بھی  غم  ہیں  زمانے  میں  محبت  کے سوا
اور یوں وہ کوئے یارسے سوئے دار چل نکلتا ہے۔ لیکن اِس کے باوجود غزل میں نقویؔ صاحب کی یہ منظر کشی دل موہ لیتی ہے۔
دھنک کے ساتھ اک کالی گھٹا ہے
حنائی ہاتھ  زلفِ عنبریں  پر
یا جیسے یہی بات بقولِ  کسے
ترے  دو  شوخ  اور  گستاخ گیسو
رخِ  روشن کے بوسے لے رہے ہیں
اور
حنائی  ہاتھ  آنچل  سے  نکل کر
انہیں آدابِ  محفل دے رہے ہیں
لیکن نقویؔ صاحب کا شعر اپنے شعری اسلوب کے اعتبار سے زیادہ دلنشیں ہے۔
غزل کو نقویؔ کس پیرائے، کس رنگ، کس آہنگ اور جذبوں کے کس اخلاص کا جامہ پہناتے ہیں، ملاحظہ ہو۔
زیرِ بامِ  گنبدِ خضرا اَذاں
وہ بلالی صوت وہ سامع کہاں
بت  تراشی  چار  سو ہے جلوہ گر
دے گئی سب کی جبینوں کو نشاں
اِس طرح ’’ اُجالوں کا سفر ‘‘ کا ایک ایک شعر استعاراتی اور تشبیہاتی اصلاحوں میں معنوں کا  دفتر لئے ہوئے ہے۔
ذوالفقار نقویؔ حسنِ  دلربا اور حسنِ  توبہ شکن کو مہمان بنانے سے لاحول پڑھتے ہیں۔
کیسا ہے ترا حسنِ  پشیماں، لا حول
پھر کفر ہوا آج ہے مہماں، لا حول
تو محوِ طرب، رقص کناں، میں فریاد
سب حلقۂ احباب پریشاں، لاحول
پھر زندگی کو پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کا تاج مان کر بھی جئے جانے کی ہمت و حوصلہ، اللہ رے یہ استقلال و استقامت کہ۔۔
زندگی میں حزن و غم کے آئے کتنے کوہسار
میرے استقلال نے لیکن کبھی مانی نہ ہار
امتدادِ  زمانہ، پر آشوب دور کے صدمات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں۔
جبر و استبداد  کی  پوچھو  نہ  مجھ  سے  داستاں
پا بہ  جولاں ہوں، مرے ہاتھوں میں کڑیاں بے شمار
دور ِ  حاضر کے واعظ، مفتی و مُلّا کو حق بات کہہ کر یوں آئینہ دکھاتے ہیں۔
تقریر  میں  ماہر  ہے  تو  اے  حضرت ِ  واعظ
جذبات  پر ایمان  کا  قبضہ   نہیں ہوتا
مُلاّ  ہیں  تری  جیب  میں  اے  حاکمِ  دوراں
اِس   دور   میں   فتویٰ  کوئی  مہنگا  نہیں ہوتا
شاعر اپنے ماحول کا ترجمان ہے۔  اپنے گردو پیش پر حکیمانہ نگاہ رکھتا ہے۔ حادثات سے اثر لیتا ہے۔ اور پھر وہی تجربہ اپنے اشعار کے ذریعہ لوٹاتا ہے۔ ذوالفقار نقوی کی حساس طبیعت اور غائر نظر اپنے دور کی ترجمانی کرتے ہوئے آپ بیتی اور جگ بیتی دونوں کا حق ادا کرتی ہے۔
نقوی صاحب اپنی خود داری پر کوئی سمجھوتا کرنے کے حق میں نہیں اور اس سودے میں سود و زیاں سے یہ کہہ کر دامن جھاڑ لیتے ہیں کہ   ؎
آتا  ہو  جس  سے  حرف  تری  آن  بان  پر
بہتر  ہے خاک  ڈال تو  ایسی    اڑان  پر
نقوی صاحب نے غزل کو نئی جہت بخشی ہے۔ جس کی اثر آفرینی، جس کی کسک، دل میں اُترنے والے اور رگ و پے کو چھونے والے اثرات کا کام کر جاتی ہے۔
کو  بہ  کو  صحرا  بہ  صحرا  ہم  سفر تھا اضطراب
اک  نیا  محشر،  نیا  اک  حادثہ  ہونا  ہی  تھا
شاعر ی کے لئے علمِ  عروض کی بحروں کی غلامی لازمی ہے اور نقادانِ  فن اِس میں کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں۔ لیکن اگر شاعری الہام ہے اور اگر شاعری جذبوں کے اخلاص اور غنائیت کے آہنگ کا نام ہے اور اگر شاعری آمد ہے۔ تو پھر نقوی صاحب نے اِس مجموعے کی ساری غزلیں کسی جذبے کے تحت کہی ہیں۔ اس لئے ان کے اشعار دل سے نکلے ہوئے اور دل میں اُترتے ہوئے لگتے ہیں۔
اخلاص ہو جس میں جذبوں کا۔ آہنگ ہو جس میں نغموں کا
لفظوں سے  بنی وہ من موہت تصویریں زندہ رہتی ہیں
اقبال کی دلکش نظمیں ہوں یا  نثر غبارِ  خاطر کی
پس خونِ جگر سے لکھی یہ تحریریں زندہ رہتی ہیں
اِس کسوٹی پر نقویؔ صاحب کا یہ شعری مجموعہ زندۂ جاوید ہے،جاندار ہے اور ان کی غزلیں بے پر ہو کر بھی طاقتِ  پرواز رکھتی ہیں۔
دل  سے جو بات نکلتی  ہے اثر   رکھتی  ہے
پر  نہیں، طاقتِ   پرواز  مگر     رکھتی  ہے
میرا ماننا ہے کہ نقوی صاحب کے نئے شعری مجموعے کو پذیرائی ملے گی اور اصلاحی تنقید کو بہر حال قبول کرنا بھی نقوی صاحب کے لئے باعثِ سعادت ہونا چاہیے۔ ہاں تنقید اور نقطہ چینی میں فرق لازمی ہے۔ اس کا خیال رکھ کر تنقید کے اصلاحی اور اصولی نکات بر سرِ چشم تسلیم کرنا صاحبِ  تخلیق کے لئے اس کی شخصی اور فنی انفرادیت کی حامل ہوتی ہے۔
نذیر قریشی
(گورسائی،مینڈر)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا