ایم ۔ یونس ؔ، کمرہٹی (کولکاتا)
موبائل : 6289007721
واٹس اپ : 9903651585
Email : [email protected]
وہ چھبیس سال کا نوجوان تھا ۔ ماں باپ کا کلیجہ پھٹا جا رہا تھا ۔کتنی مشکلوں سے انھوں نے اپنی اولاد کی پر ورش کی تھی ۔ آج ان کی محنتوں کا سارا خواب کر چیوں کی طرح ٹوٹ کر بکھر چکا تھا ۔ وہ گائوں کا رہنے والا تھا ۔ یہ وہی گائوں ہے جہاں دور دور تک کھیتوں میں اناج کی بالیاں نظر آتی ہیں ۔ جہاں کی فضا میں خوش گواری اور تازگی ہو تی ہے ۔ جہاں کے کچے راستوں اور پگڈنڈیوں پر کسان صبح صبح اپنے ہل بیل لئے چلتے جا تے ہیں ۔جہاں گائوں کے کنواں پر رہٹ سے بھاری بھاری مٹکے میں پانی بھر کر سر پر لئے دیہاتی لڑکیاں دھیرے دھیرے کا نپتے قدموں سے اپنے گھروں کو جا تی نظر آتی ہیں ۔ گائوں کے بچے اپنے میلے کچیلے تھیلے میں کتابیں لئے کا ندھے پر لٹکا ئے اسکول جا تے ہو ئے مل جا تے ہیں ۔ جہاں صبح اندھیرے ان خاموش فضائوں میں چڑیوں کی چچاہٹ سے کسان اپنی نیند سے اٹھ بیٹھتے ہیں جیسے یہ چڑیاں ان کے لئے جگا نے والی گھڑی کی طرح الا رم بجا رہی ہو ں ۔ یہاں موسم سہانا ہو جا ئے تو گائوں کا حسن بھی تکھر جا تا ہے ۔ شبنم کے قطروں کا ہرے ہر ے پتوں اور پھولوں پر رات کو گرنا اور صبح کو آنکھ پسارے سورج کی کر نوں سے مو تیاں بن کر چمکنا ، ہر کسی کے دل کو موہ لیتا ہے ۔ دوسری طرف گائوں کے ان دلکش اور پُر فریب نظاروں میں باد سموم کی بھی لہریں پیوست ہیں۔جو جبرو ہلاکت خیز طنایوں سے بھری پڑی ہیں ۔ گائوں کی اس مدھُر زندگی کو غیر منصفانہ طاقتیں اپنی بے مروتی کے چنگل میں غیر مدتی پا بجولاںبنائی ہو ئی ہے ۔ ایک طرف اگر گائوں خوش الحانیوں کی جنّت ہے تو دوسری طرف بے رحم اور قاتل زمینداروں اور ساہوکاروں کی میراثی روایت کا ایک بد نام نظام بھی ہے ۔ آج دو روٹیوں کے ٹکڑوں کے لئے غریب کسان گائوں کے زمینداروں کے یہاں معمولی اُجرت پر یا بندھو ا مزدور بن کر کام کر تے ہوئے نظر آتا ہے ۔ گائوں میں مکھیا، پر دھان، پنچایتی نظام ، زمیندارانہ حکمرانی ، اونچ نیچ او ر ذات پات کا بھید بھائو کی مطلق العنانی سر عام ہے ۔ چھوٹی ذات پر بڑی برادری کی در ندگی ، ان کا ظالمانہ رویہ ، خود سر ی کی بالا دستی اسی طرح مسلط و معظّم ہے ۔ گائوں کے اسکول سے کوئی کسان یا دلت کا بچہ اگر علم والا بن جا ئے تو ظلم و غرور کی طاقتیں اسے متحّیر بھری نظروں سے دیکھا کر تی ہیں جیسے ایک خونحوار بھیڑ یا اپنے ما ند کے سامنے کسی نیچ جا نور کے بچے کو اپنے بچوں کے ساتھ بے فکری ولا پروائی سے کھیلتا ہوا دیکھ کر غیظ و غضب کے عالم میں سوچتا ہے کہ اسے ہمارے بچوں کے ساتھ برابری میں کھیلنے کا حق کس نے دیا ہے !؟ ۔ ایک دلت کا بچہ جتنا علم حاصل کرلے او ر جتنی کتابیں پڑھ لے ۔ وہ گائوں میں اب بھی ذاتوں کے سامنے حقارت بھری نگاہ سے ہی دیکھاجا تا ہے ۔ یہ اونچے لوگ اسے اس کی ذات کے نام سے اسے کمتر کر نے کے لئے پکا رتے ہیں ۔ یہ اونچ نیچ ذات کی تفاوت کا سلسلہ قریہ قریہ پھیل کر اس ملک میں نا سور بن چکا ہے ۔ سماج میں بھید بھائو کے فرق مٹا نے والی سماجی تنظمیں ہر ممکنہ کو ششوں کے با وجود اپنے مقصد میں نا کام رہی ہیں ۔ گائوں میں سر کا ری بیراداری کے چوکیاں بھی اس ہی بڑی ذاتوں اور عہدہ داروں کا پاٹھ پڑھا کر تی ہیں ۔ ظلم جتنا ہو جا ئے مظلوم کو کوئی قانونی سہارا نہیں مل پا تا ہے ۔ کلہاڑی کی تیز دھار ہمیشہ نرم شاخوں پر ہی گِرا کر تی ہے ۔ اس نوجوان کا محر مانہ قصور یہی تھا کہ وہ گائوں کے ایک عام کسان کا بیٹا تھا ۔ اس نے گائوں کی بنیا دی تعلیم اپنے تیز فہم ذہانت کی وجہ سے اوّل کامیاب ہو نے والے بچوں میں اپنا نام شامل کر لیا تھا ۔ سکنڈری تعلیم کے بعد وہ شہر کے یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم سے جڑا ہوا تھا ۔ بچپن سے گائوں کی سیدھی سادی رہائشی زندگی میں طاقتو روں کا ظلم و جور دیکھ کر اس کا دل حق گوئی کا تصرف بنتا گیا ۔ گائوں میں مکھیا اور پر دھا نوں کا بے گناہ لوگوں پر بے محابا ظلم اور ان کی اجارہ داری کی تلخیوں سے وہ بہت دکھی تھا ۔ وہ جب بھی گائوں آتا تو اسے اس ماحول میں گھٹن ہو تی تھی ۔ وہ ان تحقیر آمیز و نفرتوں کی دنیا سے اوُب سا گیا تھا ۔ وہ ایک سیاسی تحریک کی راہ پر چل پڑا ۔ وہ اس دنیا میں مزدوروں کی آواز بننا چاہتا تھا ۔ وہ بہت جلد ہی ایک ایسی پارٹی کے بینر تلے آچکا تھا ۔ جہاں انسان کو انسانوں سے جوڑنے کا درس دیا جا تا تھا ۔ وہ اسی تحریک کا ایک ادنیٰ سا کیڈر تھا ۔ ظلم و بر بریت اور کشت و خون کی جبلتی نظام کی زنجیروں کو پا ئے استحکام کی تحریکوں سے ریزہ ریزہ کر نے پر مُصر تھا ۔ اس کی آنکھوں نے گائوں کے معصوم کنواری بچیوں کو عزّت و ناموس کو بے رحمی سے تا ر تار ہو تے ہو ئے دیکھا تھا ۔ اسے ہا ترس کا سانحہ اچھی طرح یاد تھا جو سیاسی اور زمیندارانہ سامراجیت کی ایک زندہ مثال تھی ۔ اس کی آنکھوں نے یہ بھی دیکھا تھا کہ گائوں کی اس بے گناہ عصمت زدہ کی لاش کو وردی والوں نے اپنے قانون کی بالا دستی کے عوض ماں باپ کو بتائے بغیر خود ہی چتا جلا دیا تھا ۔ وہ ایک خوفناک منظر تھا ۔ مظلوم والدین کو اپنی بیٹی کا آخری دیدار بھی نصیب نہ ہوا ۔ آج ان ہی بے انصافیوں کے خلاف اس کی آواز تیز تر ہو گئی تھی ۔ یہی انقلابی کر دار تھے جس کے خلاف جبر و بر بریت کی طاقتیں اس کا جا نی دشمن بنی ہوئی تھیں ۔ گھا تیوں نے اس سیکو لر کی بولی بولنے والی کی زبان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر نے کا فیصلہ کر لیا ۔ سازشیں رچی گئیں ۔ رات کے سنا ٹے میں قاتل اس نوجوان کے گھر کی جا نب بڑھنے لگے ۔ سارا گائوں سو رہا تھا ۔ انھوں نے اس نوجوان کے دروازہ پر بھاری آواز سے دستک دینا شروع کر دیا ۔ اس اندھیرے میں اچانک اس طرح کی کھٹکھٹا ہٹ سے گائوں کے رہنے والے اکثر کسی آنے والے خوف ناک آفت کا انتباہ کر تے ہیں ۔ اس نوجوان کے بوڑھے باپ کو بھی شک ہوا ۔ باپ کا دل خوف سے لرزنے لگا ۔ آخر اتنی رات کو کون لوگ ہیں جو اس طرح دروازہ پیٹے جا رہے ہیں ۔ وہ ضعیف باپ دالان میں اپنی چار پائی پر آنکھیں کھولے ،پڑے پڑے بار بار کواڑ پر اس طرح وحشیانہ دستک کا اندازہ کر نے لگا۔ جب کواڑ پر بے در پے بے محا با ضرب کی گونج یونہی لگاتارہو تی رہی ۔ بوڑھا باپ کو یقین ہو نے لگا کہ یہ کوئی چورلفنگے نہیں ہیں بلکہ تھاندار کے لوگ ہیں ۔ بوڑھے باپ نے ہمّت کر کے دروازہ کھو لا۔ وہ سامنے چار جوان کھڑے تھے ۔ا ن میں سے ایک پولیس وردی میں تھا ۔ تین عام لباس میں تھے ۔ انھوں نے اس بوڑھا باپ پر گرج کر کہا ’’تمہار بیٹا کہاں ہے !؟ اسے اسی وقت ہمارے ساتھ پولیس چوکی چلنا ہو گا ‘‘باپ کو کچھ شک ہوا ۔ اس نے اعتراض جتا تے ہو ئے کہا’’کیا آپ کے پاس میرے بیٹے کے خلاف کوئی کورٹ کا وارنٹ ہے !؟ جو اس وقت آپ اسے تھانہ لے جا نے کی بات کر رہے ہیں ‘‘۔ ’’اے بڈھے اتنی زیادہ زبان چلا نے کی ضرورت نہیں ہے ، میں سیدھے سادے انداز میں کہہ رہا ہوں ، اپنے بیٹے کو میرے حوالے کر دو، ورنہ اس کا انجام بہت بُرا ہو گا ۔‘‘وردی والا پولیس نے غصّے میںآگ بگولہ ہو کر کہا’’نہیں ۔۔۔۔۔نہیں ، میں آپ کو اپنا بیٹا ہر گز سُپرو نہیں کر دو ں گا ، میرا بیٹا کوئی چورا چّکا نہیں ہے ، وہ ایک پڑھا لکھا ہو نہار لڑکا ہے ، آخر آپ کو اچانک اتنی بڑی دشمنی کیسے ہو گئی کہ آپ اس کو اتنی رات میں گرفتار کر نا چاہتے ہیں !؟آپ ابھی واپس چلے جائیں، میں صبح کو اپنے بیٹے کو لیکر پولیس چوکی میں حاضر ہو جا ئوں گا ‘‘۔ اس نوجوان کے باپ نے پولیس والوں کو یقین دلا تے ہوئے کہا ۔’’سنو! میرے پاس وقت بہت کم ہے ، میں آخر ی بار کہہ رہا ہوں ، تم اپنے بیٹے کوہمیں سونپ دو ورنہ ہم مجبور ہو کر اسے زبر دستی پکڑ کر کے لے جا ئیں گے ۔‘‘اس بار وردی و بپھرے ہو ئے انداز میں کہا ۔ ساتھ ہی اس کی زبان پر مغلظات تھیں ۔ چاروںشیطان صفت اس بوڑھے باپ پر پاگل کتّوں کی طرح جھپٹ پڑے ۔ بوڑھا باپ بھی پوری قوت سے انھیں دھکے دے ڈالا۔ ان جلّا دو ں کی بُری نیتوں کا باپ کو اچھی طرح اندازہ ہو گیا تھا ۔ وردی والا بجلی کی طرح بوڑھے باپ کو اپنے بازوئوں میں کس لیا۔ اس جوان وردی والا کے ہاتھوں بوڑھا با پ پسپا کھا گیا ۔ سادے لباس میں ملبوس تینوں نوجوان گھر کے اندر زبردستی داخل ہو گئے ۔ بوڑھا باپ بار بار چلّا ئے جا رہا تھا۔ ’’میں بھی تمہارے ساتھ جائوں گا ، تم سب اکیلے گھر کے اندر نہیں جا سکتے ہو !؟‘‘۔ ظالم ور دی والا بوڑھے باپ کی ایک بھی بات نہیں سُنی ۔ اس نے اس عمر دراز کو اپنے شکنجے میں لئے رہا۔ اس نے ایک بار پھر بد تمیزی سے کہا ’’بڈھے ! چپ چاپ کھڑے رہو، ورنہ میں تمہیں یہیں ڈھیر کر دوں گا ۔‘‘ تھوڑی دیر میں وہ بغیر وردی والے تینوں نوجوان نیچے واپس آئے اور انھوں نے اپنے باس سے کہا ’’چلئے سر ! کام ہو گیا ‘‘۔ وہ چاروں تیزی سے باہر نکل گئے ۔ باپ نے اس درمیان دھڑا م سے آنگن میں کسی چیز کے گر نے کی آواز سنی ۔ بیچارہ بوڑھا باپ اس آواز کی طرف پاگلوں کی طرح بھاگا ۔ دیکھا تو اس کا نوجوان بیٹا سہ منزلہ عمارت سے گِرکر خوان میں لت پت چھٹپٹا رہا تھا ۔ چند لمحوں میں ماںباپ کی آنکھوں کے سامنے اس نے دم توڑ دیا ۔ یہ وردی والے کون تھے !؟۔ جنھوں نے ظلم و بر بریت کا ننگا کھیل نہایت ہی ڈھیٹائی و سفاکیت سے کھیلا ۔ آج بھی اس جمہوری نظام میں جبر یت کے سیاہ اور کریہہ چہرے اپنی انانیت ، بوالہوسی، استماریت کی خونحواری اور حیوانی کو تشدّد قائم کر نے پر شد و مد ہے ۔