کیف ِ بہاراں ۔ مہرِنگاراں۔ لطفِ جنوں

0
0

 

 

 

تحریر: انجینئر اسلم شہزادؔ
جنرل سکریٹری انجمن ترقی ادب ،کشتواڑ
9419154949

آئیے کچھ ایسی باتوں کاتذکرہ کریں۔ جن کا تعلق ہماری عملی زندگی سے کم ہے۔ یہ باتیں احساس کے نظریے سے اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ باتیں ہماری حس ِ نفاست کو متاثر کرتی ہیں اور ہماری مجموعی سوچ کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ انہی باتوں سے انسان کے باہری تشخص کا تعین بھی ہوتاہے ۔
جناب ذرا اپنی سوچ مادی تقاضوں سے اوپر اٹھا کر احساس کی سطح پر لے آئیں۔ پھران پنہاں انسانی جذبات پر غور کریں۔ پہلے ہم کیف بہاراں کاذکرکرتے ہیں۔ ہماراماننا ہے کہ قدرت نے جتنے بھی موسم بنائے ہیں۔وہ اپنے اندر بے پناہ حسن رکھتے ہیں ۔ مگر سارے موسموں میں شگفتگی اور تازگی کے حوالے سے موسم بہار کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہیں سے کیف بہاراں وجود میں آتا ہے۔
انسان کو جب پیداکیا گیا ۔ تو اسے صرف ایک پیٹ دے کرہی اس دنیامیں نہیںبھیجا گیا ۔ تاکہ وہ شب وروز اپنی ساری توانائیاں اس جدو جہد میں صرف کردے کہ اس کا پیٹ کیسے بھرا رہے ۔ لیکن موجودہ انسان کے طرز ِ حیات پر غور کرنے سے یہی بات ابھرکر سامنے آتی ہے کہ آج کل کے انسان کی ساری سرگرمیاں شکم پرُی کیلئے وقف ہیں۔ فطرت نے اس کے فہم میں جو زبر دست جمالیاتی عنصر رکھا تھا۔اس کواس نے یکسر فراموش کردیاہے ۔ ایسا لگتاہے کہ آج کے دور کے عام انسان کی حسِ نفاست جیسے مرچکی ہے ۔ سوائے ایک قلیل تعداد کے جن کا تعلق فنون ِلطیفہ سے ہے ۔ اب ہم میں سے کتنے لوگ ہیں۔ جواپنی ذاتی گفتگو میں موسم کے حوالے سے بات کرتے ہیں خود ہمارا حال بھی دوسروں سے جدا نہیں ۔
اس بار جب موسم بہارآیا ۔ ہم بالکل بے خبر رہے ۔ ہم اپنی زندگی کے مسائل میں اس قدر اُلجھے رہے کہ ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہواکہ بہاریں کب آئیں اور آکر چلی بھی گئیں۔ ہمیں احساس تب ہوا جب ایک چھٹی کے دن ہم گھر کے لان میں چہل قدمی کرنے لگے ۔ وہاں ایک کیاری میں گلاب کے پودے کی ٹہنیوں پر کچھ مرجھائے ہوئے پھول تھے ۔ پھر اچانک ہم پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوئی ۔ جیسے وہ مرجھائے ہوئے گلاب ہم سے باتیں کرنے لگے ان کی نظریں جھکی ہوئی تھیں ۔ وہ ہم سے سوال کررہے تھے کہ آپ نے ہمیں بڑے شوق سے ان کیاریوں میں لگایاتھا۔ لیکن جب ہم پر بہاریں آئیں ۔ جب کلیاں چٹخیں۔ جب ہم پھول بن کر کھِلے ۔ جب ہم نے اپنی خوشبوؤں سے سارے ماحول کو معطر کیا۔ تب آپ کہاں تھے ۔ نہ آپ ہمارے پاس آئے ۔ نہ ہمیں چھوا نہ ہماری خوشبو کو محسوس کیا۔ یہاں تک ہم مرجھاگے ۔
لمحہ بھر کے لئے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ واقعی ہم لوگ اپنی مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اتنے مصروف ہوچکے ہیں کہ ان سب خوبصورت چیزوں کو محسوس کرنے کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں۔ ہمارے اذہان میں حادثے ، جرائم، تشدد اورنفرت کے اتنے ذخیرے جمع ہوگئے ہیں کہ ایک پھول کی خوبصورتی وشادابی کو نہارنے کے لیء اس میں کوئی جگہ ہی نہیں بچی۔ اس طرح سے آج کا انسان کیف بہاراں سے محروم ہوگیاہے ۔ تو جناب ہماری گذارش یہ ہے کہ اپنی مصروف زندگی میں دم بھر کے لئے رک جائیں ۔ اپنے آس پاس کے فطری مناظر کو نظر بھردیکھ لیں ۔ آپ کی بے تاب روح کو تسکین ملے گی۔ قدرت نے آپ میں بالکل یہ گنجائش رکھی ہے ۔
اب کچھ باتیں مہرنگاراں کے حوالے سے کی جائیں۔ تو جناب معاملہ کچھ ایسا ہے کہ مہر نگاراں کا ہرشخص طلبگار نظر آتاہے ، لیکن اس میں موقعہ اور مقدر اپنا کھیل کھیلتا ہے ۔ وصل کی راحتیں سب کے نصیب میں نہیں ہوتیں۔ ویسے بھی اس لطیف جذبے کو حدِ تجاوز میں رکھنے کی ضرورت رہتی ہے۔ ورنہ رسوائی کے سِوا کچھ ہاتھ نہیں لگتا۔ دراصل روز اول سے ہی ابن ِآدم ایک کشمکش میں مبتلاہے ۔ طبیعت کی جولانیاں ایک طرف کھینچتی ہیں ۔ تو سماج کی بندشوں کا کچھ اورتقاضا ہوتاہے ۔ ایک مہذب سماج مہر نگاراں کی حوصلہ شکنی چاہتاہے ۔ جیکہ نفسی خواہشات اس کے برعکس آزادی کی خواہاں ہوتی ہیں۔ ادھر پنہاں اور زیر نقاب رموز انسانی فکر کو تسخیر کے لئے اُکساتے ہیں۔
بقول علامہ اقبالؔ
یہ دنیا دعوتِ دیار ہے فرزندِ آدم کو
کہ ہر مستور کو بخشا گیا ذوقِ عریانی
دراصل تعزین محشرت کے لئے ضروری ہے کہ صنف ِ نازک کا استحصال نہ کیاجائے ۔ جذباتی طورپر جلدی متاثر ہونے کی خامی کی وجہ سے یہ نصفِ انسانیت اکثر فریب آرزو کا شکار ہوجاتی ہے ۔ اس معاملے میں شعراء حضرات بھی اکثر مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں ، لیکن یاد رہے کہ شاعری میں جس مہر نگاراں کاذکر آتا ہے وہ محض ایک تصوراتی شگوفہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ اسی لئے ہم شعر کی حیثیت کو کسی بھی حد تک جائز ماننے کو تیار رہتے ہیں ۔اگرچہ کبھی کبھی اس میں کچھ عناصر ہماری محشرتی اقدار کے خلاف بھی ہوتے ہیں۔
علامہ اقبال نے فرمایا تھا
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
لیکن تصویرکا ئنات کایہ رنگ تب ہی خوبصورت رہ سکتاہے ۔ جب وجود زن کو وقار اورعظمت کی نظر سے دیکھاجائے گا۔ نہ کہ مہر نگاراں کی آرزو میں حدود سے تجاوز کرکے انسانیت کو شرمسار کیاجائے ۔
آخر میں کچھ باتیں لطف جنوں کی بھی ہوجائیں۔ مجھے لفظی سطح پراردو کے متعدد الفاظ بہت عزیزہیں۔ ان میں لطف ِ جنوں بھی شامل ہے۔ لطف جنوں کی بہترین تشریح خود میاں مجنوں نے فرمائی ہے ۔ کہتے ہیں ایک بار کسی نے مجنوں سے کہا۔ کہ دیکھوتمہاری حالت کیا ہوگئی ہے ۔ لیلہ تو تمہیں ملنے سے رہی ۔ اپنا حال دیکھو ۔ کپڑے پھٹے ہوئے۔ بال سوکھے پریشان ۔ پیروں میں چھالے ۔ صحرا کی خاک چھانتے پھرتے ہو۔ تو مجنوں نے جواب دیا کہ مجھ جیسا خوش نصیب بھی کوئی اس دنیا میں ہے کہ جس پر لیلیٰ فدا ہوگئی ۔ اب جو مزاہ اس دیوانگی اورصحرانوردی میں ہے وہ اورکہاں۔
لیجئے دنیا کا ہر انسان اپنی کامیابی ، کامرانی اور حصولیابیوں پر شادماں ہوتاہے ۔ اور ایک جناب مجنوں ہیں جو فریب آرزو کا شکار ہوکر اپنی بربادیوں پر نازاں ہے ۔ اسے ہی کہتے ہیں لطف جنوں۔
دراصل اس دنیا میں کسی بھی چیز کو حد سے زیادہ عزیزر کھنا اور پھراس کے کھو جانے یا نہ ملنے پر آپے میں نہ رہنا ہی جنوں کہلاتاہے ۔ دیوانگی کی حد تک وہی لوگ جاتے ہیں۔ جو حقیقت پسند نہیں ہوتے ۔ لیکن پرائی چیزوں کوعزیز رکھنا کچھ لوگوں کا چلن ہوتاہے ۔ کیا کیجئے ۔
بقول ڈاکٹر بشیر بدر
وہ چاندنی کا بدن خوشبوؤں کا سایہ ہے
بہت عزیز ہمیں ہے مگر پرایا ہے
تو جناب اپنی آرزؤں کا شیش محل ضرور تعمیر کیجئے، لیکن اپنی شخصیت کا جمالیاتی پہلو بھی روشن رکھیے۔ اور اپنی حسِ نفاست کو بھی زندہ رکھنے کی کوشش کیجئے۔ تاکہ آپ معتدل اور جاذب نظر بنے رہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا