ضلع کرگل میں مکمل ہڑتال، جموں میں بڑے پیمانے کا احتجاج
یواین آئی
جموں؍؍خطہ لداخ کے مسلم اکثریتی ضلع کرگل میں پیر کے روز ریاستی گورنر ستیہ پال ملک کے مبینہ یکطرفہ فیصلے جس کے تحت نوتشکیل شدہ صوبہ لداخ کے تمام مرکزی دفاتر ضلع لیہہ میں کھولیں جائیں گے، کے خلاف مکمل ہڑتال کی گئی۔ ہڑتال کے دوران قصبہ کرگل اور تمام مضافاتی علاقوں میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہی۔ سرکاری دفاتر اور بینکوں میں بھی معمول کا کام کاج بری طرح متاثر رہا۔ ہڑتال کی کال ضلع میں سرگرم تمام سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں کی طرف سے تشکیل دی گئی ’مشترکہ مزاحمتی تحریک کرگل‘ نے دی تھی۔ ادھر جموں میں پیر کی صبح کرگل سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد اور ان کے لیڈران نے گورنر موصوف کے حالیہ فیصلے کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی۔ وزارت روڑ پر واقع کربلا کمپلیکس سے برآمد ہوکر پریس کلب کے سامنے اختتام پزیر ہونے والی اس ریلی کے شرکاء نے نو تشکیل شدہ صوبے کے تمام دفاتر کرگل اور لیہہ میں ففٹی ففٹی کی بنیادوں پر قائم کرنے کا زوردار مطالبہ کیا۔ ریلی کے دوران یہ نعرے لگائے گئے : ’کرگل کے ساتھ ناانصافی نہیں چلے گی نہیں چلے گی، چھین کر لیں گے اپنا حق، گورنر انتظامیہ ہوش میں آئو ہوش میں آئو‘۔ شرکاء نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینرس اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا ’کرگل پلس لیہہ از اکول ٹو لداخ‘۔ احتجاجی ریلی کے شرکاء سے کرگل کے سیاسی لیڈران بشمول سابق ممبر اسمبلی اصغر علی کربلائی، چیئرمین قانون ساز کونسل حاجی عنایت علی، سابق ممبر اسمبلی قمر علی آخون، لداخ پہاڑی ترقیاتی کونسل (کرگل) کے چیف ایگزیکٹو کونسلر فیروز احمد خان، سابق وزیر ناصر علی اور سابق ممبر پارلیمنٹ حسن خان نے خطاب کیا۔ اصغر علی کربلائی نے مرکزی اور ریاستی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ’ریاستی اور مرکزی حکومت کان کھول کر سن لیں۔ اپنا حق حاصل کرنے کے لئے ہم کسی بھی قربانی سے گریز نہیں کریں گے۔ انڈین گورنمنٹ اور ریاستی گورنمنٹ یہ جان لیں۔ کرگل کی اسٹریٹجک اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ایک طرف چین کھڑا ہے تو دوسری طرف پاکستان۔ کرگل کے لوگوں کے جذبات اور احساسات کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں۔ کرگل کے لوگوں نے کبھی ریاست کو توڑنے کی بات نہیں کی ہے‘۔ قمر علی آخون نے کہا کہ کرگل کے ساتھ ناانصافی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا ’کرگل کے ساتھ ناانصافی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لداخ کے لئے سینٹرل یونیورسٹی کی مانگ کرگل واسیوں کی تھی لیکن گورنر انتظامیہ نے کلسٹر یونیورسٹی دی اور اس کا ہیدکوارٹر لیہہ میں قائم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اب گورنر صاحب نے حکم نامہ جاری کرکے لداخ کو صوبے کا درجہ دیا ہے، لیکن بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ صوبے کے سبھی مرکزی دفاتر لیہہ میں کھولے جائیں گے‘۔ انہوں نے کہا ’ اس میں مجھے ایک گہری سازش نظر آتی ہے۔ خطہ لداخ امن کا گہوارہ رہا ہے۔ وہاں کے لوگ سیدھے سادھے مانے جاتے ہیں۔ یہ حکم نامہ خطے کے امن کو خراب کرنے کی ایک سازش ہے۔ ہم متحد ہیں۔ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اب ہم سری نگر میں احتجاج کریں گے۔ دلی میں بھی احتجاج ہوں گے۔ اس کے بعد ہم سول نافرمانی تحریک شروع کریں گے۔ ہم نے بہت ظلم سہا ، اب ہم مزید ظلم سہنے کے لئے تیار نہیں ہیں‘۔ قانون ساز کونسل کے چیئرمین حاجی عنایت علی نے کہا ’ہم انصاف چاہتے ہیں۔ ہم حکومت سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ ہمیں کس غلطی کی سزا دی جارہی ہے۔ انڈیا ہم سے اتنا خفا کیوں ہے۔ وہاں (کرگل میں) لوگ پیار و محبت سے رہتے ہیں۔ قصبہ کرگل میں صد فیصد مسلمان رہتے ہیں، وہیں وہاں پر ایک ہندو گھر اور دو سکھ گھر بھی ہیں۔ ان کو ہم نے اپنے سر کا تاج بناکر رکھا ہے۔ کرگل کے ساتھ ناانصافی کوئی نہیں بات نہیں ہے۔ انہونی کو ٹالنے کے لئے ہمارے حقوق فوری طور پر واگزار کئے جانے چاہیں‘۔ واضح رہے کہ گورنر ستیہ پال ملک نے 8 فروری کو خطہ لداخ کو جموں وکشمیر کا تیسرا صوبہ بنانے کے احکامات جاری کردیے ۔اس حوالے سے جاری احکامات میں کہا گیا کہ صوبہ لداخ لیہہ اور کرگل اضلاع پر مشتمل ہوگا اور اس کا ہیڈکوارٹر لیہہ میں ہوگا۔ اس صوبے کے لئے ڈویژنل کمشنر (لداخ) اور انسپکٹر جنرل آف پولیس (لداخ) کی اسامیاں وجود میں لائی جائیں گی۔ دونوں(اعلیٰ سرکاری عہدیداروں) کے دفاتر لیہہ میں ہی ہوں گے۔ قابل ذکر ہے کہ ضلع کرگل مسلم اکثریتی اور ضلع لیہہ بودھ اکثریتی ہے۔ جہاں 2012 کی مردم شماری کے مطابق کرگل کی آبادی ایک لاکھ 41 ہزار ہے، وہیں لیہہ کی آبادی اس سے کم یعنی ایک لاکھ 33 ہزار ہے۔ جہاں ضلع کرگل 129 دیہات پر مشتمل ہے، وہیں ضلع لیہہ 113 دیہات پر مشتمل ہے۔ گورنر موصوف کے مبینہ یکطرفہ فیصلے کے خلاف ضلع کرگل میں اتوار کے روز بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے جن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ضلع میں سرگرم تمام سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں کی طرف سے تشکیل دی گئی ’مشترکہ مزاحمتی تحریک کرگل‘ کے بینر تلے اسلامیہ سکول چوک( مین بازار کرگل) سے بارو تک ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی اور جلسہ منعقد کیا گیا۔ مقررین نے احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے گورنر انتظامیہ کو خبردار کیا تھا کہ اگر صوبے کے تمام دفاتر کرگل اور لیہہ میں ففٹی ففٹی کی بنیادوں پر قائم کرنے کا فوری اعلان نہ کیا گیا تو ہم ضلع مجسٹریٹ کرگل اور ایس ایس پی کرگل کی چھٹی کرنے کے علاوہ کرگل زوجیلا روڑ کو بھی بند کردیں گے۔ ضلع کرگل کے تمام بڑے سیاسی لیڈران نے ہفتہ کے روز سرمائی دارالحکومت جموں میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران گورنر کے صوبہ لداخ کے تمام مرکزی دفاتر لیہہ میں کھولنے کے فیصلے کو کرگل کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی قرار دیتے ہوئے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے اور ہڑتال کرنے کا اعلان کردیا تھا ۔ انہوں نے صوبے کے تمام دفاتر کرگل اور لیہہ میں ففٹی ففٹی کی بنیادوں پر قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں سے بات نہیں بنی تو جمہوری اداروں کے عہدوں پر فائر سبھی لوگ بشمول لداخ پہاڑی ترقیاتی کونسل (کرگل ) کے تمام کونسلرس، بلدیہ کے کونسلرس، پنچ اور سرپنچ احتجاجاً اجتماعی طور پر مستعفی ہوجائیں گے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ صوبے کے تمام دفاتر ففٹی ففٹی کی بنیادوں پر کرگل اور لیہہ میں قائم کئے جائیں اور روٹیشنل بنیادوں پر صوبائی کمشنر اور آئی جی پی کے دفاتر چھ ماہ کرگل اور چھ ماہ لیہہ میں کام کرنے چاہیں۔ کرگل کے لیڈران نے یہ بھی کہا کہ فیصلے پر نظرثانی تک انہیں کشمیر کے ساتھ ہی رہنے دیا جائے کیونکہ بقول ان کے لیہہ کی نسبت کرگل سے سری نگر نزدیک پڑتا ہے۔