سیدہ تبسّم منظور ناڑکر
ممبئی
9870971871
- ۰۰۰۰۰۰۰۰ کچھ رشتے رب العزت بناتا ہے اور یہ رشتے اللہ تعالٰی کی عطا کردہ نعت کی طرح ہیں ۔اور کچھ رشتے لوگ بناتے ہیں ۔ان میں سے کئی رشتے اتنے مضبوط ہوتے ہیں جو زندگی بھر ساتھ چلتے ہیں اور کئی ایسے رشتے ہیں جو بچھڑ جاتے ہیں ۔ رشتےنہ دور رہنے سے ٹوٹ جاتے ہیں نہ پاس رہنے سے جڑ جاتے ہیں ۔ یہ تو احساس کے پکے دھاگے سے بندھے ہوتے ہیں ۔ یہ رشتوں کی ڈور اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ ہر آنے والے نئے رشتے کو اپنے اندر پرو لیتی ہے ۔اور نازک بھی اتنی ہی ہوتی ہے ۔ اگر ٹوٹ جائے تو سارے رشتے ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں ۔ انسان کی زندگی ایک تناور درخت کی طرح ہے ۔جس سے جڑے سارے رشتے ہری بھری ٹہنیوں کی طرح ہوتے ہیں ۔ اگر ٹہنیاں سوکھ جائیں تو پورا درخت سوکھ جائے گا ۔ زندگی کے اس درخت کو ہرا بھرا رکھنے کے لئے ٹہنیوں کا ہرا بھرا رہنا ضروری ہے ۔ اگر اس میں ذرا سی بھی غلط فہمیاں جنم لینے لگے تو یہ ٹہنیاں آہستہ آہستہ سوکھ کر ٹوٹ کر بکھرنے لگتی ہیں ۔ان کو بکھرنے سے بچانے کے لئے جھکتا وہی ہے جس کو رشتوں کی قدر ہو ، رشتوں کو نبھانے کا شعور ہو۔ اور یہ رشتے نبھانا کوئی آسان بات نہیں ہوتی ۔ کئی بار اپنا دل بھی دکھانا پڑتا ہے ، اپنوں کی خوشی کے لئے ظرف کا پیمانہ بلند کرنا پڑتا ہے ، غلطیوں کو معاف کرنا پڑتا ہے ، دلوں کو صاف کرنا پڑتا ہے۔ عاجزی ، انکساری اور خلوص سے ہی سامنے والے کا دل جیتا جا سکتا ہے ۔ کبھی کسی رشتے میں مقابلہ نہ کریں بلکہ برابری کا درجہ دیں ۔ اپنے رشتوں میں کبھی بھی جھوٹ کو جگہ نہ دیں ۔ایک بار اعتبار کا پرندہ اڑ جائے تو وہ کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتا ۔ اپنے لہجے کو بھی درست رکھیں ۔بعض اوقات لفظوں سے زیادہ لہجے اثر انداز ہوتے ہیں ۔رشتوں کو نبھانا جتنا ضروری ہے اس میں توازن برقرار رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے ۔ پوری زندگی گزار جاتی ہے کسی کا اعتماد اور بھروسہ جیتنے میں ، ذرا سا غرور ، ذرا سی غلط فہمی نظروں سے گرا دیتی ہے ۔دراصل رشتے احساسات سے جڑے ہوتے ہیں ۔اگر احساس ہی مر جائے تو ان ٹوٹے بکھرے رشتوں کی چبھن ایسے زخم دے جاتے ہیں جو ساری زندگی رستے رہتے ہیں اور ان کا کوئی علاج بھی نہیں ہوتا ۔ رشتے ضرورت کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ عزت ، اہمیت اور توجہ کے محتاج ہوتے ہیں ۔ غلط رویوں سے رشتوں کی موت ہوجاتی ہے ۔ سامنے والوں کے غلط رویوں کو دل میں دفن کر کے رشتوں کو قائم رکھنے کے لئے ملنا پڑتا ہے ۔ تب کہیں جا کر رشتوں کی ڈور مضبوط ہوسکتی ہے ۔ اعتماد کا پودا خلوص اور پیار کے پانی سے اور چاہت کی مٹی سے سینچا جائے تو ہی ایک مضبوط ہرا بھرا تناور درخت بن سکتا ہے ۔ یہ رشتے خونی ہو یا ہمارے بنائے ہوئے ۔رشتوں کی خوبصورتی تو صرف ایک دوسرے کی بات برداشت کرنے اور سمجھنے میں ہے ۔مگر افسوس صد افسوس ! برداشت، احساس اور سمجھ کی برکت شاید ختم ہو چکی ہے ۔ ہمیں اپنوں کے لئے جینا ہے ۔ جن کے بنا ہم زندگی گزار نہیں سکتے ۔اور ان رشتوں کے بغیر ہر کسی کی بھی زندگی ادھوری ہی ہے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں رشتوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔۰۰۰۰