مومن فیاض احمد غلام مصطفی
ایجوکیشنل و کرئیر کونسلر
صمد یہ ہائی اسکول و جونیر کالج بھیونڈی
[email protected]
’’ جب آپ کا پرچہ ممتحن کے سامنے جانچنے کے لیے جاتا ہے تو ا س وقت آپ وہاں موجود نہیں ہوتے ہیں۔آپ کی تصویر اس کے سامنے نہیں ہوتی ہے۔آپ کی محنت اس کے سامنے نہیں ہوتی ہے۔آپ کتنے ذہین ہیں اس کو معلوم نہیں ہوتا ہے۔ آپ کی جماعت میں کیا پوزیشن ہے اس کا علم اسے نہیں ہوتا ہے۔ آپ کی محنت کا ثبوت صرف یہی ہوتا ہے کہ آپ نے پرچے کو کتنے اچھے انداز میں پیش کیا ہے‘‘
’’سوال کی مناسبت سے ہی اس کے مراحل لکھے۔جہاں ضروی ہو اشکال بنائیے۔ اپنے جواب کو خط کشیدہ یا چوکون میں لکھیے۔ ہر نیا سوال نئے صفحے سے شروی کریں۔ضمنی سوالات کو تسلسل کے ساتھ لکھنے کی کوشش کریں اگرکسی سوال کا حل نہیں معلوم ہے تو اس کو بعد میں حل کرنے کے لیے اندازاً مناسب جگہ چھوڑ دیں۔صفائی کا بہت خیال رکھیں ۔ ضابطے وغیرہ صحیح لکھیے ۔ کیونکہ حساب میں ہر نکتہ پر مارکس ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی جواب یا حل پورا نہ آتا ہو تب بھی جتنا آتا ہے اتنا ضرور لکھیں ‘‘
(مومن فیاض احمد غلام مصطفی ایجوکیشنل و کرئیر کونسلر صمد یہ ہائی اسکول و جونیر کالج بھیونڈی)
کرونا وائرس کے بعد تقریباً دوسال کے بعد دہم اور بارہویں کے طلبہ آف لائن امتحان دینے کی تیاری میں مصروف ہیں۔پیپر انشاء اللہ بہت آسان ہوں گے۔ ہر مضامین کے نصاب کم کر دیا گیا ہے۔طلبہ میں امتحان کا خوف کم ہو جائے اس کے لیے ہوم سینٹر الاٹ کردیا گیا ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ وقت بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ طلبہ بالکل خود اعتمادی کے ساتھ امتحان دیں۔دسویں اور بارہویں کے طلبہ عنقریب بورڈ کے امتحان میں شریک ہونے والے ہیں۔ طلبہ اس امتحان کو بھی بہت سنجیدگی سے دیں اور خود اپنے آپ کو جانچے کہ وہ بورڈ کے لیے کس پوزیشن میں ہیں۔ پریلمنری امتحان کو نظر انداز نہ کریں۔ مختلف مضامین کے پرچے کے پیٹرن کا انہیں اندازہ ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ بورڈ کے ویب سائٹ پر کویشن بینک میں ہر مضامین کے سوالات اردو میڈیم میں بھی دستیا ب ہیں۔www.maa.ac.in اپنے اساتذہ سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ دہم اور بارہویں میں شریک ہونے والے طلبہ کے لیے ہماری نیک تمنائیں ہیں۔اللہ تعالی ان کو زندگی کے تمام امتحانات میں کامیا بی سے ہم کنار کرے۔ آج کا یہ مضمون ا متحان میں پرچہ کیسے حل کریں ؟ ۔اس کے ذریعے بتانے کی کوشش کریں گے کہ امتحان میں پرچہ کس طرح سے لکھا جائے۔ لاک ڈائون کی وجہ سے زیادہ تر اسکولوںمیں پڑھائی آن لائن ہوئی ہے۔اساتذہ کرام نے اس کے لیے کافی محنت سے پی پی ٹی تیار کریں ہے۔ اپنے طلبہ کی بہتری کے لیے انہوں نے اپنی تمام تر ممکنہ کوششیں کیں ہیں۔بہت سے طلبہ نے بھی ان کا ساتھ دیا ہے۔ ایک طالب علم کو اس کی تیاری میں سال بھر میں ۱۰ سے ۱۱ ماہ ملتے ہیں۔اتنی تیاری کے باوجود زیادہ تر طلبہ پرچہ صحیح طور پر لکھ نہیں پاتے یا صحیح طور پر لکھ نہیں سکتے ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر فرد میں ہر طلبہ میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ اپنی فنی صلاحتیوں کا، اپنے اندر موجود خوبیوں کا استعمال کرتے ہوئے پرچے کو کچھ اس طرح سے پیش کریں کہ آپ کا شمار زیادہ سے زیادہ نمبرات حاصل کرنے والوں میں ہو جائے۔ اس مہارت میں سب سے پہلے یہ چیز آتی ہے کہ آپ کو اپنے پرچہ کا خاکہ بنانے آنا چاہیے۔ آپ کا جوابیہ پرچہ اچھا دکھنا چاہیے۔تاکہ ممتحن جو آپ کے پرچے کی جانچ کرتا ہے تو آپ کو چاہیے کہ اپنے پرچے کو اس طرح سے پیش کریں کے وہ آپ کے پرچے سے متاثر ہوکر آپ کو زیادہ مارکس دینے پر مجبور ہو جائے کہ اس طالب علم نے کیا زبردست طریقے سے پرچہ حل کیا ہے۔جب آپ کا پرچہ ممتحن کے سامنے جانچنے کے لیے جاتا ہے تو ا س وقت آپ وہاں موجود نہیں ہوتے ہیں۔آپ کی تصویر اس کے سامنے نہیں ہوتی ہے۔آپ کی محنت اس کے سامنے نہیں ہوتی ہے۔آپ کتنے ذہین ہیں اس کو معلوم نہیں ہوتا ہے۔ آپ کی جماعت میں کیا پوزیشن ہے اس کا علم اسے نہیں ہوتا ہے۔ آپ کی محنت کا ثبوت صرف یہی ہوتا ہے کہ آپ نے پرچے کو کتنے اچھے انداز میں پیش کیا ہے۔آپ کے پرچے کی پیش کش دلکش ہو تاکہ ممتحن متاثر ہو کر اچھے مارکس دے اور یہ اچھے مارکس کے ساتھ ساتھ آپ کی تعلیمی کامیابی کا سلسلہ جاری رہے۔آپ کے اچھے مارکس کی بدولت آپ کو اچھے اور آپ کے من پسند کالج میں داخلہ ملے اور آپ اپنی محنت سے اچھی اور بڑی سے بڑی ڈگری حاصل کریں۔اپنے سماج کے لیے اپنی قوم کے لیے کارآمد بنیں۔
بہت سے طلبہ پرچہ اس طرح سے لکھتے ہیں کہ وہ خود ان کو ہی سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ وہ کیا لکھا ہے۔جب اس کو اپنا پرچہ خود سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو ممتحن کو کیسے سمجھ میں آئے گا ۔پرچہ اچھا اور صاف ستھرا ہو۔اب اس کا مطلب یہ نا سمجھیں کہ پرچے کو خالی واپس کردیا جائے۔صاف ستھرا لکھا ہوا ہو۔مناسب سرخی دیجیے۔ مناسب سرخیوں کے ساتھ ساتھ جہاں ضروری ہو ضمنی سرخی بھی لگایئے۔ بہت سے طلبہ ایسے ہوتے ہیں جو پرچے کا صرف درمیان کا حصہ ہی استعمال کرتے ہیں۔دائیں بائیں زیادہ خالی جگہ چھوڑ دیتے ہیں۔ممتحن بہت سی باتوں کا علم رہتا ہے کہ فلاں طلبہ نے زبردستی زائد صفحات (سپلیمنٹ) کا استعمال کیا ہے۔ یہ اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے کہ وہ بہت لائق ہے کیونکہ اس نے سپلیمنٹ کا زیادہ استعمال کیا ہے۔جن طلبہ کے پاس مواد زیادہ ہوتا ہے وہ پرچے کو ہمیشہ ایک بازو سے ہی حاشیہ وغیرہ بنا کر لکھتا ہے۔جو حاشیہ اس نے بنائی ہے اس کے بعد اب جتنا حصہ بچا ہے ا س کا وہ بھرپور استعمال کرتا ہے۔ ہر طلبہ کو چاہیے کہ مکمل طور سے صفحے کو پر کریں۔جو سوال پوچھا گیا ہے اس کا مناسب جوا ب دیں۔جب پرچہ ممتحن کے پا س جانچنے کے لیے جاتا ہے انہیں ایک نمونہ کا جوابی پرچہ بھی دیا جاتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ طلبہ نے اس کے مطابق پرچہ حل کیا ہے یا نہیں اور وہ اسی مناسبت سے مارکس دیتا ہے۔ سوال کی مناسبت سے ہی اس کے مراحل لکھے۔جہاں ضروی ہو اشکال بنائیے۔ اپنے جواب کو خط کشیدہ یا چوکون میں لکھیے۔ ہر نیا سوال نئے صفحے سے شروی کریں۔ضمنی سوالات کو تسلسل کے ساتھ لکھنے کی کوشش کریں اگرکسی سوال کا حل نہیں معلوم ہے تو اس کو بعد میں حل کرنے کے لیے اندازاً مناسب جگہ چھوڑ دیں۔صفائی کا بہت خیال رکھیں ۔ کانٹ چھانٹ سے پرہیز کریں۔ ضابطے وغیرہ صحیح لکھیے ۔ کیونکہ حساب میں ہر نکتہ پر مارکس ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی جواب یا حل پورا نہ آتا ہو تب بھی جتنا آتا ہے۔ اتنا ضرور لکھیں ۔ ہر سوالات کو لکھ کر حل کرنے کی کوشش کریں اس سے آپ کو وقت کا اندازہ ہوجائیگا ۔ یہ ایک طرح سے آپ کا ٹائم مینجمینٹ ہوگا۔ آپ کی اس عادت سے امتحان میں مقررہ وقت میں سوال حل کرنے میں بہت مدد ملے گی ۔
جب بھی مختصر یا طویل جواب مکمل ہو جائے تو ایک لائن ضرور کھینچ لیں تاکہ ممتحن کو یہ سمجھ میں آجائے کہ یہ سوال کا جواب یہاں پر مکمل ہو چکا ہے۔غیر ضروری خالی جگہ نہ چھوڑیں مشاہدے میں یہ بات آئی کہ جب جواب مکمل ہو جاتا ہے تو بہت سے طلبہ نیچے کا پورا خالی صفحہ ویسے ہی چھوڑ دیتے ہیں اور ضمنی سوالات کو بھی نئی صفحے سے لکھتے ہیں ممتحن اس بات کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ممتحن کے لیے آسانی پیدا کریں اگر کوئی چیز چھوٹ گئی ہے تو اور آپ کو اسے کہیں اور لکھنا ہے تو اس کے صحیح طرح سے نشان دہی کریں۔اگر کوئی جواب غلط ہو گیا ہے تو اس کو صرف ایک لائن کھینچ کر واضح کریں۔لکھنے میں غلطی ہو سکتی ہے۔عموماً غلطیاں ان طلبہ سے ہوتی ہے جنھوں نے وقت پر تیاری نہیں کی۔اسکول سے غیر حاضر
رہے۔ وقت پر ٹیسٹ نہیں دیا۔اسکولوں میں ہونے والے پریلمنری امتحان کو اہمیت نہیں دی۔پرچوں کی تیاری منصوبہ بند طریقے سے نہیں کرتے ہیں۔ بہت سے طلبہ تو ایسے ہوتے ہیں جو پڑھ تو بہت سارا لیتے ہیں لیکن لکھنے کی مشق نہیں کرتے۔جو طلبہ بار بار پریکٹس کرتے ہیں ۔وقت کی منصوبہ بندی کے ساتھ لکھ لکھ کر پرچے کو حل کرتے ہیں ایسے طلبہ کے لیے بورڈکا پرچہ بہت ہی آسان ہوتا ہے۔اس کے لیے حلوہ ہوتا ہے۔اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ہے۔وہ تو اپنے معلمین کو ایسا بتاتے ہیں کہ ہم تو سوچ کر گئے تھے کہ پرچہ بہت مشکل ہو گا یہ تو بہت آسان نکلا۔ اصل میں یہ ان کے لیے آسان نہیں تھا وہ اتنی مرتبہ اس کی مشق کر چکا تھا اتنی پریکٹس کر چکا تھا کہ اس کا پرچہ بہت آسان ہو گیا۔لہذا طلبہ کو چاہیے کہ نہ صرف بورڈ کے پرچے میں بلکہ ہمیشہ سے یہ عادت بنا لیں اور اپنا پرچہ حل کرنے بعد اسے دوبارہ پڑھا کریں کہ میں نے کیا کیا ہے؟ اس سوال میں کیا تھا اور میں نے کیسے حل کیا ہے؟ اس سے اپنی غلطی کا پتہ تو چلے گا ہی ساتھ ہی آپ کو خود احتسابی بھی کر سکیں گے اپنے آپ کو جانچ سکیں گے۔اپنی پوزیشن کا اندازہ بھی لگا سکیں گے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح بھی کر سکیں گے۔جب آپ اپنی غلطیاں خود سے درست کرنے لگے تو دوسرے بھی آپ کی غلطیاں کم ہی نکالیں گے۔ اس طرح سے آپ زیادہ مارکس حاصل کرنے والے طلبہ میں شامل ہو جائیںگے۔اسی طرح سے آپ جو بھی قلم امتحان میں استعمال کرنے والے ہے چاہے وہ آپ کی انک پین ہو، بال پین ہو یا کسی بھی قسم کی پین ہو جسے آپ سال بھر گھر کام کے لیے، کلاس ورک کے لیے استعمال کرتے ہیں اسی قلم کو امتحان کے دوران بھی استعمال کریں جس سے آپ کو اسی قلم کی عادت بنی رہے گی اور آپ بورڈ کے پرچے بڑے اچھے انداز سے پیش کر سکتے ہو۔امتحان میں جانے سے قبل اپنا پورا سامان اچھے سے چیک کر لیں۔ہال ٹکٹ،کمپاس بکس،قلم ،پنسل ،ربر وغیرہ پہلے سے ہی رکھ لیں۔پرچہ جب حل کریں اس کی پیش کش اچھے سے ہو۔ اپنے ممتحن کے لے ماڈریٹر کے لیے آسانی پیدا کریں۔فیل ہونے والے طلبہ کام ایسا کرتے ہیں کہ وہ فیل ہوجاتے ہیں۔پاس ہونے والے طلبہ کام ایسا کرتے ہیں کہ وہ پاس ہو جاتے ہیں ٹاپ کرنے والے طلبہ کام ایسا کرتے ہیں کہ وہ ٹاپ کی پوزیشن پر پہنچ جاتے ہیں۔اللہ تعالی آپ کی کاوشوں کو کامیاب کریں۔آپ کی کامیابی نہ صرف آپ کو بلکہ آپ کے والدین ،سرپرستوں ، آپ کے محلے ،آپ کہ شہر آپ کے اساتذہ اور سب سے اہم کے آپ کی اسکول کو بہت اونچے مقام پر لے جاتی ہے۔جو طلبہ محنت نہیں کیے ہیں ان کے لیے ابھی بھی وقت ہے اس وقت کا صحیح طور سے استعمال کریں ۔ایک خاص ٹائم مینیجمنیٹ کے ساتھ پرچہ کو لکھ کر حل کرنے کی کوشش کریں تاکہ نمایاں کامیابی انہیں بھی حاصل ہو جائے۔دھیان رہے کہ کوئی طلبہ کمزور نہیں ہوتا اگر وہ وقت کی مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی پڑھائی کرے گا تو وہ ضروری کامیاب ہوگا۔