جموں و کشمیر میں پانچ اگست سے لیکر آج تک یہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کا جو تعلیمی نُقصان ہوا ہے یقینا ناقابل تلافی ہے ۔جس کی بھرپائی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔ اب جبکہ تمام اسکول بورڈوں نے کرونا کی تیسری لہر کے تیور کسی حد تک کم ہوتے دیکھ کر آف لائین امتحانات کا اعلان کردیا ہے۔ جبکہ ہائی اسکول سے نیچے کی کلاسوں کے امتحانات آ ن لائین ہی چل رہے ہیں اس سلسلے میں جموں ینورسٹی نے بھی آف لائین امتحانات کااعلان کیا اس کو لیکر گزشتہ روز جموں کے کٹھوعہ میں طلبہ نے اپنا احتجاج درج کرواتے ہوئے کہا کہ اگر تعلیم آن لائین ہوئی ہے امتحانات بھی آن لائین ہونے چاہئے طلبہ نے کہا کہ ینورسٹی کی ہٹ درمی کوئی نئی چیز نہیں ہے ماضی قریب میں بھی اس طرح کے فیصلے لئے گئے ہیں کہ جس میں طلبہ کے مستقبل کو زک پہنچانے کی سمت اقدامات ہیں ۔ آف لائین امتحانات کو لیکر ہائر اسکینڈری بورڈ کے طلبہ اور خصوصا این ائی او یو ایس بور ڈ کے طلبہ نے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی بھی داخل کی ہے حالانکہ مذکورہ بورڈ نے ٍڈیٹ شیٹ بھی اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کی ہے ۔ جموں وکشمیر کے اکثر طلبہ این ائی او یو ایس کے تحت امتحانات دے رہے ہیں اس بورڈ کے طلبہ کا کہنا ہے کہ ہمیں بورڈ کی جانب سے کرونا وائر س کی وجہ سے کتابیں نہیں ملی ہیںاس لئے امتحانات کی تیار ی نہیں ہوپائی اب امتحانات بھی آن لائین لئے جائیں یا پھر ماس پرموٹ کیا جائے ۔ اسی طرح ملک کے سی بی ایس ای بورڈ کے طلبہ نے بھی ملک کے اکثر حصوںمیںا پنا احتجاج درج کروایا ہے اور امتحانات میں طلبہ کورعایت دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔ ینورسٹی سے لیکر اسکول تک طلبہ کے یہ مطالبات تعلیمی معیار پر کس قدر اثر انداز ہونگے یہ ایک لمبی اور الگ بحث ہے ۔ لیکن تمام بورڈوں بشمول ہائیر ایجوکیشن نے تعلیمی معیار کو لیکر کس قدر کام کیا ہے ماضی کا یہ تجربہ کچھ تلخ ہے ۔ بہت صحیح بات یہ ہے کہ نمبروں کی اس دوڑمیں جموں و کشمیرکا تعلیمی معیار جوکہ ملک سے مختلف ہوتا تھا کوپانچ اگست اور اس کے بعد کرونا وائر س کی تینوں لہروں نے ناقابل تلافی نُقصان پہنچایا ہے، جس کی بھرپائی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے ۔ طلبہ کے پورے ملک میںمجموعی اعتبار سے اور خصوصا جمو ں و کشمیر میں احتجاجوں کی سے انکی مشکلات کے حل کرنے کا بورڈو ں کا یا پھر ہائر ایجوکیشن کا کچھ بہتر تجربہ نہیں رہا ہے لیکن طلبہ ان احتجاجوں اور آ ن امتحانات کی تحریکوںکو کس حد تک کامیابی ملتی ہے یہ دیکھنے کی بات ہے طلبہ کو چاہئے کہ اپنے حقوق کی لڑائی ضرور لڑیں لیکن اپنی تعلیم کا بھی مکمل خیال رکھیں