قیصر محمود عراقی
کریگ اسٹریٹ ،کمرہٹی ، کولکاتا، ۵۸
موبائل : 8820551001 / 6291697668
جب الیکشن کا موسم آتا ہے تو دفاتر کھُل جا تے ہیں ، پر انے مراکز کو چمکایا جا تا ہے ، ووٹر کے پاس جا کر پھر سے اسے سبز باغ دکھا نے کا سلسلہ جا ری ہو جا تا ہے ، جو وعدے پچھلے الیکشن میں کئے گئے تھے انھیں دہرا نے اور ڈھٹا ئی سے تا ویلات گٹھر نے کا سلسلہ بھی جا ری ہو جا تا ہے ۔ مختلف قسم کے نعرے ، دعوے اور الزامات لگا کر مخالف امیدوار وںکو چاروں شا نے چت کر نے کی کوشش جا ری ہو جا تی ہے ، ہر ہندوستانی اپنی اپنی پسند کی جماعت اور امیدوار کی حمایت کر رہا ہو تا ہے ۔ گویا ہر پانچ سال بعد اکھاڑ پچھاڑ ہو تی ہے اور اد لا بد لی کی صورت میں کچھ تبدیلیاں وقوع پذیر ہو تی ہیں ۔ جیتنے والے امیدواروں کی لا ٹری نکل آتی ہے اور آنے والے الیکشن تک عیش ہی عیش ہو تی ہے ، ان کی دولت میں سوفیصد سے اوپر کا اضافہ ہو نا شروع ہو جا تا ہے ، ڈھڑا دھڑ جا ئیدادیں بنتی ہیں ، کاروبار پھیلتے پھولتے ہیں اور ملک کا دیوالیہ نکل جاتا ہے ۔ لازمی نہیں کہ سارے ہی ایسے ہو ں ، بعض لیڈران یقینا اچھے کا م بھی کر تے ہیں ، جس کا نتیجہ انھیں عزت کی شکل میں ملتا ہے۔ادھر پھر الیکشن کی گہما گہمی ہے ،ملک کی پانچ ریاستوں میں الیکشن ہے ۔ کچھ شہروں میں الیکشن ہو چکا ہے اور کچھ جگہوں پر ووٹ ہونا باقی ہے ۔ مغربی بنگال میں بھی بلدیاتی الیکشن آئندہ کل ہو نے جا رہا ہے ۔ آج ایک ایک ووٹر کو ہر کوئی اپنی طرف کھینچ رہا ہے تو ایسے میں لا زمی ہے کہ ہم بحیثیت ہندوستانی اپنے ووٹ کی قدر و قیمت کا احساس کریں، اپنے دائرہ کا ر پر حلقے کے امیدواران کو پرکھیں، پھر ووٹ دیں ۔ یہ بات لا زمی نہیں ہے کہ جہاں آپ کے آبائو اجداد نے ووٹ دیا ہے آپ بھی اسی جماعت یا امیدوار کو ووٹ دینا لا زم سمجھیں ۔ آپ کے آبائو اجداد کے دور میں حکومت کیا تھی اورکیا حالات تھے ، ان کو ایک طرف رکھئیے اور اپنے حال کے مطابق فیصلہ کیجئے تاکہ آپ کا مستقبل بہتر ہو سکے ۔ قارئین حضرات !میرے ایک دوست نے ہندوستانی سیاست دانوں کی مثا ل آلو سے اور عوام کو اُلو سے تشبیہ دیتے ہوئے خوب تنقید کی کہ آلو کی خاصیت ہے ہر سبزی کے ساتھ ایڈ جسٹ ہو جا تا ہے بالکل ہندوستانی سیاست دانوں کی طرح جو ہر سیزن میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے پارٹی بدل لیتے ہیں اور شر مشار بھی نہیں ہو تے ۔ کوئی مانے نہ ما نے ، تسلیم کر ے نہ کرے ، ہمارا تو یہ ماننا ہے کہ سر کار اور عوام کا رشتہ زن و شوہر جیسا ہی ہو تا ہے ، اب یہ بتا نا تو مشکل ہے کہ ان میں شوہر کون ہے اور بیوی کون ہے؟ ویسے بھی یہ بات آج کل آداب کے منافی ہے کہ اس رشتے میں کوئی فرق ملحوظ رکھا جا ئے ، اپنی اپنی صلاحیت کی بات ہے ، بہت سے گھروں میں ہم نے بیویوں کو شوہر اور شوہر کو زوجہ نا مدار بنتے دیکھا ہے بلکہ اکثر گھروں میں تو با قاعدہ باریاں ہو تی ہیں ۔ مہینے کے پہلے پندروہ دنوں میں شوہر کو با قاعدہ و ی ۔آئی ۔ پی سمجھا جا تا ہے لیکن چاند ڈھلتے ہی چاند میاں کی پندرہ دن کی چاندنی غائب ہو جا تی ہے اور زلف گرہ گیر کا راج ہو جا تا ہے ۔ کسی بیا لوجی کی کتاب میں پڑھاتھا کہ مچھلیوں کی ایک ایسی قسم بھی ہے جو چھ مہینے مذکر رہتی ہے اور چھ مہینے کے بعد مونث ہو جا تی ہے اور کچھ مچھلیاں تو ایسی ہو تی ہیں کہ جوانی میں نر ہو تی ہیں اور بڑھا پے میں مادہ ہو جا تی ہیں ۔ سر کار اور عوام کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔ انتخابات کے موسم میں اچانک عوام شوہر بن جا تے ہیں اور بیوی بنی سرکار اُٹھتے بیٹھتے سر تاج سر تاج کہتی رہتی ہے ، لیکن انتخابات ہو جا نے کے بعد سر تاج کے سر پر تاج کے بجائے چپل کا نزول ہو تا ہے ، یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہندوستان کے عوام لیٹرے اور ظالم سیاست دانوں کے جا ل میں اس حد تک پھنس چکے ہیں کہ ان ہی امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں جن کے بارے میں ان کا ضمیر بھی گواہی دیتا ہے کہ وہ کرپٹ ، بد دیانت ، جھوٹے اور نا اہل ہیں ، ایسے لوگوں کو ووٹ دیکر عوام خود اپنے ہاتھوں سے اپنا مقدر خراب کر لیتی ہے ۔ موجودہ حکومت میں لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر اسپتال جا تے ہیں تو ان کو علاج کی مناسب سہولیتیں فراہم نہیں ہو تیں ۔ شرح تعلیم سو فیصد ہو نی چاہئے تھی مگر سر مایہ دارانہ اور جا گیر دارانہ تسلط کی وجہ سے حکومت تعلیم کی جا نب توجہ نہیں دے رہی ہے ۔ سیاسی جماعتیں عوام کو ان پڑھ رکھنا چاہتی ہیں تاکہ وہ ان کی غلامی کر تے رہیں ، بے روز گاری میں ہر روز اضافہ ہو تا جا رہا ہے ، بے روزگاروں کو نوکریاں دینے کی بات تو اب لطیفہ بن چکی ہے ۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے اس طرف سے بالکل منہ موڑ رکھا ہے ۔ گویا یہ مسئلہ اس کے نزدیک کوئی مسئلہ ہی نہیں، حالانکہ آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہی بے روزگاری ہے ۔ سیاسی لڑائیاںہو ں یا ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی دوڑ اس میں سب بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیتے ہیںمگر مسائل میں گھرے ہو ئے معاشرہ کا اب سنگین ترین مسئلہ بے روز گاری ہے اس کی طرف کسی کا دھیان نہیںہو تا ۔ سب سے زیادہ بے روز گار وہ طبقہ ہے جو یونیورسیٹی کی سطح سے اعلیٰ تعلیم حاصل تو کر چکا ہے مگر گھروں میں بیٹھا ہے ۔ جبکہ ان کی شادیوں کے مسائل ہیں ، بوڑھے والدین کو سہارا دینے کا وقت ہے ۔ یہ کسی ایک شہر اور کسی ایک گھر کا مسئلہ نہیں بلکہ ہر شہر اور ہر گھر کا مسئلہ ہے ۔ ۱۶ سے ۱۸ سال تک تعلیم کے حصول میں گزار کر ہمارا یہ نوجوان طبقہ عملی زندگی میں کچھ کردار ادا کر نا چاہتا ہے تو اسے کوئی جگہ نہیں ملتی ، کوئی روزگار کا در اس کے لئے کھُلا نہیں ہو تا ۔ تعلیم کے نت نئے ادارے تو کھُل رہے ہیں مگر روزگارکے دروازے نہیں کھولے جا سکے ۔ ہزاروں نہیں بلکہ لا کھوں نوجوان اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں لے کر میدان میں آگئے لیکن پرائیوٹ نوکریوں کے سوا ان کی تعلیم اور صلاحیت کے مطابق ان کو کہیں کوئی جاب نہیں ملتی ۔ جب تعلیم یافتہ نوجوان روز گار سے محروم رکھے جا رہے ہیں تو عام لوگ جو کہ پڑھے لکھے نہیں ہیں ان کے بارے میں آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ جب بے روز گاری بڑھ جا تی ہے تو استحصالی طبقہ بھی جنم لیتا ہے ، جو ان اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی مجبوریاں خرید تا ہے انجینئیر اور ایم بی بی ایس کر نے والے نجی اداروں میں معمولی تنخواہ پر کام کر تے عام مل جا تے ہیں ، ایم اے ،ایس ، سی اور ایم فل کی ڈگری والوں کا تو کوئی پُر سان حال نہیں ۔آج سوشل میڈیا پر ایسی بے شمار پوسٹیں مل جا تی ہیں جس میں بتایا گیا ہو تا ہے کہ ایک ایم ، بی بی ، ایس پکوڑوں یا نان چھولے کی دکان لگا کر اپنے گھر کا گذارا کر رہا ہے یا کوئی جگہ محنت مزدوری کر رہاہے۔ سب سے بری حالت لڑکیوں کی ہے ، جو اعلیٰ تعلیم حاصل کر نے میں سب سے آگے ہیں ان کی ذہانت او ر قابلیت پر بھی کسی کو شک نہیں مگر ان کے لئے روزگار کے مواقع نہ ہو نے کے برا بر ہے ، ملک کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی کا ایٹم بم ہے ، یہ تمام مسائل کی جڑ ہے ۔ اسے کنٹرول نہ کیا گیا تو لاکھ کوششوں کے با وجود بہتری نہیں آسکے گی ۔ ان حالات میں ہم ووٹ کس کو دیں ؟ اس کے لئے آپ جس جماعت کو ووٹ دیں اس جماعت کے نظر یات پر لازمی نظر پھیر لیں ۔ امیدواروں کی پالیسی کو سمجھیں ، آپ اچھی طرح چیک کریں کہ کہیں یہ جماعت اور اس کا نمائندہ کوئی غلط تو نہیں ہے ۔ فرقہ واریت ، لسانیت اور مندر مسجد کے نام پر سیاست کر نے والی جماعت اور امیدوار کو یکسر بھلا دیں کیوں کہ وہ آپ کے ملک کا دشمن ہیں۔ مذہبی ہم آہنگی پر کام کر نے والوں کو آگے لے کر آئیں ، خدمت انسانیت پر کام کر نے والوں کو اپنا نمائندہ چنیں ۔ اپنا مضبوط موقف رکھنے والے امیدوار ان کو اپنی نمائندگی سے عزت بخشیں تاکہ وہ ہندوستان کا مضبوط موقف دنیا کے سامنے رکھے ۔ نالی ،پکی گلی ، تھا نے کچہری اور اس طرح کے دیگر لا لچ دینے والوں کو قطعاََ ووٹ نہ دیں ۔ کیونکہ یہ آپ کے ، ملک کے اور آنے والی نسل کے دشمن ہیں جنھیں آپ تھوڑے سے مفاد کے لئے چن لیتے ہیں ۔ یہ بات یاد رکھیں کہ ٓپ کے ہاتھ میں اصل طاقت ہے ، اس پر کئی طرح کے شکوک و شبہات لا ئے جا سکتے ہیں لیکن آپ ہی اصل ہندوستان ہیں اور ہندوستا ن کی تصویر آپ کو ہی بہتر کر نی ہے ۔