صفیہ خانم
ریسرچ اسکالر
مگدھ یونیورسٹی
بودھ گیا(بہار)
تانیثیت ایک ہمہ جہت تصور وتحریک ہے جس کاتعلق عصر حاضر کے تقریباً تمام ترشعبہ حیات وعلوم یعنی ادب ،تاریخ ،تنقید ،سائنس وتکنالوجی ،کلچر ، سیاست ،اقتصادیات ، سماجیات ،تعلیم ،نصابات اورتحقیقی وفکری اداروں سے ہے ۔ آج ہرشعبہ حیات تانیثی ڈسکو رس کاحصہ بن چکاہے ۔تانیث کاتصور عورتوں کے ذریعے خوداپنے تشخص کی تلاش ،اپنے وجودکے آزادانہ اظہار اورمرداساس معاشرے کے تمام تراقدارومعیارپرسوالیہ نشان لگانے کے ساتھ ساتھ نئے اقدارومعیار کی تشکیل وتعمیر کی جہتوں کوواکرنے سے عبارت ہے ۔
تانیثی ادب کی لفظی ترکیب اردوادب میں چند دہائیوںسے ہی سنائی دی گئی ہے ۔ نثر میںتو یہ ابھی لکھابھی کم گیاہے ۔ شاعری میںاس کی مقدارزیادہ ہے اور تانیثیت کا شعور بھی پروان چڑھ رہاہے یہ بڑی خوش آئندبات ہے کہ ہمارے یہاں کی اعلیٰ ذہنی سطح رکھنے والی خواتین نہایت سنجیدگی سے ادب میںعورت کے استحصال کے خلاف آوازاٹھارہی ہیں اوراردوادب کے سربراہوں یاکرتا دھرتا شخصیات کی توجہ تانیثی ادب کے معیاراوراہمیت کی طر ف مبذول کرارہی ہیں ۔
جب ہم اردو شاعری کی بات کرتے ہیں تونئی شاعری میںنئی عورت کی حسیت اقرار و اظہارکی بے باکی ،ذات کی خودآگہی وجود اورتشخص کاتصور مروجہ اقدار کے متبادل مثبت اورخوبصورت شعور زندگی خود کے ہونے پرمکمل ایمان اورخوداعتمادی کے مظاہرے سامنے آنے لگے لہٰذا تانیثی تحریک نے عورت اورمرد کے رشتے کونئے تناظر میں دیکھنے کی سعی کی ۔ جہاں معاشرہ میںمردوں کے تسلط ،دسترس اوربالادستی جیسی بے جا اقدار کی گرفت میں نہ ہو۔ وہاں ان چیزوں کے تئیںتبدیلی کی خواہش اوربغاوت کاجنم نیافطری عمل ہے ۔
اداجعفری اس شعور کے اظہار کی پیش روبن کراردوشاعری میں قدم رکھا۔ باغیانہ لہجہ کاتعارف اداجعفری اپنی ابتدائی شاعری سے ہی کراتی ہیں ۔ان کی پہلی نظم ’’احساس اولیں ‘ اس بات کی ترجمان ہے ۔ اداجعفری تانیثیت کے رجحان سے متاثر نہیں ہے ۔فکرواسلوب کے بدلتے ہوئے میلان نے عصر حاضر کے بیشتر حساس شاعرات کوبھی حیات وکائنات کے مسائل پرنئے زاویے سے غور وخوص پرآمادہ کیااس لیے اظہار خیال کے رویے میںتبدیلی آئی۔روایت سے انکاراورعورت ذات میںخود آگہی اورخود بینی کاشعور بیدارہوااور شاعری میںاس تصورنے بھی جگہ بنائی جوشجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتاتھا ۔ادا جعفری نے اس طرح بھی میل کی پیش روثابت ہوئیں ۔
کشور ناہید کی کلیات کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ اگرچہ موضوعات کے انتخاب میںانہوںنے وسعت نظرسے کام لیا اورکامیاب اظہار کے لیے ہیئت میں تنوع اوراسالیب میں تجربات کی سعی بھی کرتی رہی ہیں لیکن ان کی شاعری کامرکز و محور عورت ہی رہی ہے ۔جس طرح وہ اپنے کالموں میں عورت پرڈھائے گئے مظالم پر احتجاج کرتی ہیں اس طرح تخلیقی سطح پربھی وہ شعر کواحتجاج کے قالب میںڈھال دیتی ہیں ۔جیسے ’’بے نام مسافت ‘ کی یہ نظمیں ۔’’شکست رنگ ‘‘ آگہی ‘‘ ،عکس نما‘‘ ،عروسی ‘‘ ، خود اذیتی ‘‘ ،’’گلیاں دھوپ اوردروازے ‘‘ کی یہ نظمیں ’’گھاس تومجھ جیسی ہے ‘‘ ،’’نیلام گھر ‘‘ ،’’جاروب کش ‘‘، ’’کبیر‘‘ ، ’’میری مانو‘‘ نظم ’’سن ری سہیلی ‘‘ ،’’کلیرنس سیل‘‘ ، ’’چوب خشک اورآگ ‘‘ ،’’زخمی پرندے کی چیخ ‘‘ ،’’ہڈبیتی ‘‘ ،’’اے کاتب تقدیرلکھو ‘‘ ، ’’میں کون ہوں ‘‘ وغیرہ
فہمیدہ ریاض کی کتابیں ’’بدن دریدہ ‘‘ ،’’دھوپ ‘‘اور ’’اپناجرم ثابت ہے ‘‘ تانیثی ادب کی عمدہ مثال قراردی جاسکتی ہیں ۔ ’’بدن دردیدہ ‘‘ کی زیادہ ترنظمیں Arti Exist رویے کے عکاسی کرتی ہیںجوجنس کے نام پر عورتوں کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوںکے خلاف احتجاج سے تعبیرہیں ۔
جدیدنسائی شاعری کی جوروایت اداجعفری سے شروع ہوکر زہرہ نگاہ ،کشورناہید ، فہمیدہ ریاض سے ہوتی ہوئی پروین شاکرتک پہنچتی ہے ۔ پروین شاکرنے زندگی کے ہرمرحلے اورمعاشرے کے ہرپہلوکاسنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کیاہے اوریہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میںبھی زندگی کے تمام رنگ خواہ وہ سیاہ ہویاسفید یاپھر سرمئی دکھائی دیتے ہیں حالانکہ ان کی رومانی شاعری پرزیادہ زور دیاگیا لیکن اگرگہرائی سے مطالعہ کیاجائے تویک باشعور گہری بصیرت رکھنے والی اورکارگہہ ہستی میں سرگرم عورت کا کردار ان کی شاعری میںجابجا نظرآتاہے ۔
خاندان ،رسم ورواج ،روایت ناک اور عزت کے نام پر نہ جانے کتنی جوانیاں خاک میں ملادی گئیں ۔اس کاانداز ہ شاید لگانابھی مشکل ہو،۔آئے دن اخبارات میں ’’آنر کلنگ ‘‘ اورعورتوں کے خلاف دوسرے بہیمانہ جرائم کی خبریں چھپتی رہتی ہیں ۔اسی رویے پرسارا شگفتہ احتجاج کرتی ہیں ۔نظم ’’عورت اورنمک ‘‘ میںان کالہجہ کچھ اس طرح ہے :
عزت کی بہت سی قسمیں ہیں
گھونگھٹ ، مقبرہ ، گندم
عزت کے تابوت میں قیدکی میخیں ٹھونکی گئی ہیں
گھرسے لے کر فٹ پاٹھ تک ہمارا نہیں
عزت ہمارے گزارے کی بات ہے
عزت کے نیزے سے ہمیں داغا جاتاہے
عزت کی کنی ہماری زبان سے شروع ہوتی ہے
کوئی رات ہمارا نمک چکھ لے
توایک زندگی ہمیں بے ذائقہ روٹی کہاجاتاہے
نعیم سید کی نظموں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ حیات وکائنات سے متعلق ایک گہراشعور رکھتی ہیں اورساتھ ہی ہمارے عہد کے تقاضوں اورمسائل سے بھی واقفیت رکھتی ہیں ۔ عورت ان کے کلام میں اہم موضوع کی حیثیت رکھتی ہے ۔ وہ آج کی عورت کودرپیش مسائل اوراس کے احساسات وجذبات کی ترجمانی خوبصورت اورمؤ ثر اندازمیں کرتی ہیں ۔
بلقیس ظفیرالحسن کامجموعہ ’’گیلاایندھن ‘‘میں شامل نظمیں بہت ہی مؤثر ہیں ۔ ان کی شاعری کامرکزی موضوع ہمارے عہد کی عورت کی حالت اس کادکھ اوراس کے جذبات و احساسات کابیان ہے تاہم ہمارے عہد کے دیگر سماجی ، سیاسی اورنفسیاتی موضوعات کااحاطہ بھی ان کی شاعری کرتی ہے ۔
شبنم عشائی کی شاعری میںہندوستانی عورت کے جذبات کی پوری عکاسی نظرآتی ہے ان کے یہاں ایک ایسی عورت جلوہ فگن ہوتی ہے جو عشق سے بھراہوا دل بھی رکھتی ہے اورعشق میںناکام ہونے پر رنجیدہ بھی ہوتی ہے لیکن ہار نہیں مانتی اور نئے خوابوں اورنئی فکرکے ساتھ پھر اٹھ کھڑی ہوتی ہے ۔
شہناز نبی اپنے عہد کی زندہ حقیقتوں کی ترجمان کرتی ہیں ۔آج کے ترقی پذیر دور میں عورت کے روایتی کرادر کوتبدیل کے جانے یعنی اسے گھری چہار دیواری سے باہر نکال کرکھلی فضامیںسانس لینے دینے اوراپنی زندگی اورسماج کی تعمیراورتشکیل میںمردوں کے مساوی کردارادا کرنے کی ضرورت پرہمارے عہد کے ادیبوں نے بہت کچھ لکھاہے خصوصاً خواتین میںتو تقریباً سبھی نے اپنی اپنی طرح سے اس موضوع کوشعری اظہار کاحصہ بنایاہے لیکن اس سلسلے میںشہناز نبی کی نظم ’’فوٹو سنتھیسس ‘‘ بالکل نئی جہت رکھتی ہے ۔
رفیعہ شبنم عابدی کی نظمیں سماجی اورعصری واقعات کے زیر اثروسیع ترموضوعات کااحاطہ کرتی ہیں ۔تاہم نسائی حسیت کی کارفرمائی کاعمل بھی ان میں صاف طورپردیکھاجاسکتا ہے ۔ان کی نظموں میںحیات وکائنات سے متعلق مو ضو عا ت کابیان عموماً نسائی حسیت کے ساتھ ہواہے ۔
ساجدہ زیدی کی غزلیں حکایت غم سناتی ہیں۔ غم جوآفاقی ہے ۔ بے کراں ہے اورکائناتی صداقت ہے ۔ شاعرہ کاغم روایتی غم سے مختلف ہے ان کی شاعری میںنہ صرف ذات کی تنہائی کاالمیہ ہے بلکہ مجروح انسانیت کانوحہ بھی ہے اورکھنڈر بنتی صدیوں کی تہذیب کاماتم بھی ہے۔
وحیدہ تبسم کی غزلیں موضوعاتی ااعتبارسے زندگی کے کرب ،ماحول کی الجھن اورحالات کی ناسازگاری کوپیش کرتی ہیں ۔وہ ترقی پسندتحریک کے عروج کی شاعرہ ہیںاس لیے ان کے یہاں زمانے کادکھ سمٹا ہواہے ۔
زاہدہ زیدی کی شاعری کے موضوعات وجودی فلسفہ پرمشتمل ہیں لیکن ان کی حساس فکرنے اپنی ذات کے ساتھ زمانے سے بھی ایک ذمہ دارانہ سروکار استوار رکھا ۔ رشیدہ عیاں کی غزلوں کاافق حصار ذات کے ساتھ ساتھ زمانے کی وسعتوںپرمحیط ہے ۔ سید فرحت کی غزلیں کلاسیکی اور ہم عصررجحانات کے ساتھ ہی ان کی فکری بالیدگی کی آئینہ دارہیں ۔ جمیلہ بانو کی شاعری میںوہی رکھ رکھاؤ موجودہے جولکھنؤ کی اہم شناخت رہی ہے مریم غزالہ زندگی سے خلوص یقین ،سکون اورحسن کی طلب گارہیں ۔ وہ زندگی کی مسرتوں پراپنا حق سمجھتی ہیں اور اسے دوسروں میںبھی بانٹناچاہتی ہیں ۔
سیدہ شان معراج اپنے وقت کے نشیب وفراز سے آگہی کشید کرتی ہیں ۔ جذبہ فکرکی لہریں اس کے احساس وشعور کومرتقش کرتی ہیں۔ مسعودہ حیات اس طرح کی شاعری کرتی ہیں کہ نسوانی وقاربھی مجروح نہ ہوااورحیرت غزل بھی سلامت رہے ۔
عفت زریں کی غزلیں اپنے عہد کاائینہ دار ہیں۔ اجنبیت ناآسودگی ،بے حاصل اورتنہائی کے موضوعات فکر کی تازگی کے ساتھ ان کے اشعارمیں نمایاں ہیں ۔
شاعرات کے کلام کے مطالعہ سے آسانی کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ آج کی عورت کی فکر اوراس کی سوچ نے سماج ہویاگھر سبھی جگہ تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں ۔ ہمارے دورکی عورت اپنی دنیاخود بناناچاہتی ہے اور اپنی تخلیقوںاورتحریروں کے ذریعے ایک نئی دنیااورایک نئے سماج کوروشناس کراتی ہے ۔یہی وہ منزل ہے جہاں سے روایتی عورت جدیدعورت کی طرف مڑتی ہے اور یہیں سے اس کے اگلے قدم کی کوششوں کے نشانات بھی ملتے ہیں ۔
٭٭٭