افضل گورو اور مقبول بٹ کی برسیوں پر سوپور میں اے آئی پی کی طرف سے سمینار کا اہتمام

0
0

مقبول بٹ کی پھانسی نہ کہ1987کے انتخابات عسکری تحریک کی فوری وجہ :انجینئر رشید
لازوال ڈیسک
سوپور//اے آئی پی کی طرف سے افضل گورو اور مقبول بٹ کی برسیوں کے حوالے سے سوپور میں منعقد کئے گئے ایک روزہ سمینار میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی ۔ اس موقعہ پر جن لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ان میں مفتی نثار احمد، شیبان عشائی، ملک طارق رشید، پرنس پرویز، ایڈوکیٹ سجاد ، ایڈوکیٹ نور الشہباز اور کئی دیگر لوگ شامل ہیں ۔ مقررین نے یک زبان ہو کر دونوں پھانسیوں کو حراستی قتل قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کیلئے انصاف کے دروازے بند کر دئے گئے ہیں ۔ اپنی تقریر میں انجینئر رشید نے کہا کہ وہ لوگ جو 1987کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کو موجودہ عسکری تحریک کیلئے ذمہ دار مانتے ہیں حقائق کو مسخ کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ انجینئر رشید نے کہا ”ہر زاویہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کشمیری قوم 1947سے مسلسل نئی دلی کی وعدہ خلافیوں سے مایوس ہو چکی تھی اور جب محمد مقبول بٹ کو تہاڑ جیل میں لٹکا دیا گیا تو کشمیریوں کو لگا کہ نئی دلی اُن کی آواز کو دبانا چاہتی ہے اور مقبول بٹ کی پھانسی پوری کشمیری قوم کو ڈرانے کیلئے ایک حربے کے طور انجام دی گئی ہے ۔ لہذا کشمیری قوم نے مقبول بٹ کی پھانسی کو اپنی غیرت کو للکارنے سے تعبیر کرتے ہوئے عسکری جد و جہد کا راستہ اختیار کیا۔ ہندوستانی لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں سے پوچھ لیں کہ کیا مقبول بٹ کی پھانسی کے پیچھے مقاصد حاصل ہوئے ہیں ۔ جواب بالکل واضح ہے کہ نہ صرف مقبول بٹ کی پھانسی عسکری جد و جہد کے آغاز کی وجہ بنی بلکہ تب سے لیکر آج تک ایک لاکھ سے اوپر لوگوں کا خون بہنے اور تمام تر تباہی کا بھی موجب بنی ۔ 1989سے لیکر اب تک کشمیر میں گرنے والے خون کے ایک ایک قطرے کی اخلاقی ذمہ داری نئی دلی پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اس کی احمقانہ ، فرقہ پرستانہ اور فریبانہ پالیسیوں کی وجہ سے ہی کشمیریوں نے بندوق اٹھائی ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ مقبول بٹ کی پھانسی سے سبق سیکھنے کے بجائے نئی دلی نے کچھ دہائیوں بعد افضل گورو کو بھی تختہ دار پر چڑھایا جس کی وجہ سے موجودہ عسکری تحریک کو اور جوازیت اور تقویت مل گئی“۔ انجینئر رشید نے کہا کہ جہاں ان دونوں کشمیریوں کو انصاف کے بجائے پھانسی ملی وہا ں اہنسا کے پجاریوں نے ان کی لاشیں بھی تہاڑ جیل میں دفنا کر ثابت کر دیا کہ ہندوستان میں گاندھی کے اہنسا کے فلسفے کا کوئی خریدار نہیں ۔ انجینئر رشید نے مزاحمتی قیادت سے اپیل کی کہ وہ قوم کے اندر وسیع تر اتفاق رائے کی کوشش کرے کیونکہ کشمیر کا مسئلہ نہ تو بھانت بھانت کی بولیوں سے حل ہونے والا ہے اور اس مسئلہ کو ہر لحاظ سے ذاتی انا اور سیاست سے بالا تر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ انجینئر رشید نے افضل گورو اور مقبول بٹ کے باقیات کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ جب تک ان دونوں کشمیری سپوتوں کی باقیات تہاڑ جیل میں موجود ہیں تب تک ہر ہندوستانی کے ضمیر کو اس سوال کا جواب ڈھونڈنا چاہئے کہ آخر کشمیریوں کی لاشوں سے بھی نئی دلی کو خوف کیوں محسوس ہو رہا ہے ۔ انجینئر رشید نے کہا کہ اگر نئی دلی واقعی قانون کی حکمرانی میں یقین رکھتی ہے تو پوچھا جا سکتا ہے کہ ایک لاکھ کشمیریوں کے قاتلوں میں سے کیا ایک وردی پوش بھی پھانسی کا مستحق نہیں تھا اور آخر افضل گورو اور مقبول بٹ کو ہی کیوں تختہ دار پر لٹکا کر انصاف کو عملانے کے دعوے کئے جا رہے ہیں ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا