” آنکھوں کے اس پار“ کا تجزیاتی مطالعہ

0
0

پروفیسر احمد حسن دانش، پورنیہ
” آنکھوں کے اس پار“ اردو شاعری میں نو وارد لیکن پختہ آہنگ شاعرہ فوزیہ رباب کی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ہے جو ۷۱۰۲ئ کے ماہ ستمبر میں اشاعت پذیر ہو کر منصہ عام پر آیا ہے ۔ اس میں رباب کی ساٹھ غزلیں اور بائیس نظمیں شامل ہیں۔ سب سے پہلے ان کے انتساب کے شعر نے مجھے متاثر کیا©
اب محبت کی اور کیا حد ہو
میری بیٹی میں تو جھلکتا ہے
یہیں سے شاعرہ کی، فن پر دسترس اور پختگی جھلکنے لگی اور میںان کے کلام کو انہماک سے پڑھنے لگا ۔ غزلیں بھی اچھی ہیں اور نظمیں بھی متاثر کن ہےں۔ دونوں صنفوں میں یکساں طور پر کامیاب ہیں۔ نظمیں اور غزلیں دونوں قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔
فوزیہ رباب احساسات کی شاعرہ ہیں۔ خود بھی احساسات سے مغلوب ہوتی ہیںاور قاری کو بھی مغلوب کرتی ہیں۔ مجموعہ کے پیش لفظ میں یوں رقمطراز ہیں:
” میں کبھی لفظوں کا ہاتھ پکڑ کے دور کھیتوں کی طرف نکل جاتی ہوں جہاں سبزہ میرے پاﺅں چومتا ہے تو میرے احساسات شعروں میں ڈھلنے لگتے ہیں۔ کبھی رات گئے یہ لفظ مجھے چاند نگر لے جاتے ہیں۔ چاندنی بانہیں کھولے میری منتظر ہوتی ہے تو غزل تخلیق پاجاتی ہے اور کبھی یہ لفظ خوشبو بن کے مجھے مہکا جاتے ہیں تو نظم ہوتی ہے۔“
فوزیہ رباب کے یہاں الفاظ کی بڑی اہمیت ہے ۔ یہ الفاظ ہی ان غزلوںاور نظموں کے تانے بانے بنتے ہےں اور ان کی شاعری کا پیکر وجودپذیر ہوتا ہے۔ فوزیہ رباب کو مناظر فطرت اور کائنات کی خوبصورتی سے خاص وابستگی ہے جو ان کی شاعری کے لئے جواز پیش کرتی ہےں۔ وہ خود لکھتی ہیں کہ:
” مجھے کائنات کی خوبصورتی اپنی طرف کھینچتی ہے اور اس میں جو بھی مجھے محسوس ہوتا ہے اسے میں الفاظ میں انڈیل دیتی ہوں۔ شاید اسی کو شاعری کہتے ہیں۔“
کائنات کی خوبصورتی اور قدرت کے مناظر کی جھلک ان کی شاعری میں جگہ جگہ نمایاں ہے ۔ یہی ان کی شاعری کا حسن وجمال ہے۔ یہی ان کی شاعری کی اساس ہے۔
فوزیہ رباب کی غزلیہ شاعری کا مزاج جدا ہے اور منفرد ہے ۔ ان کو منفرد ردیفوں کی شاعرہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ شہزادے ، پاگل ، چپ خاموش، ناسائیں، ناجی بالکل نہیں ،ہے ناں،مرے سانولے جیسی ردیفیں انہوںنے استعمال کرکے اپنی انفرادیت قائم کی ہے۔ بعض نظموں کے عنوانات اور نئی ترکیبات سے بھی رباب کی انفرادیت جھلکتی ہے مثلاً تم جلدی لوٹ آﺅ گے ناں؟ ، مری نظمیں پڑھو گے ناں؟میرا مٹھرا سوہنا بالم اور من کا روپ سنہرا ، منڈیری پر کاگا بولے، چوری کوٹ کھلاﺅں دونیناں دو کملے نیناں روئیں ساری رین، کس کاری پھر نین نشیلے کس کاری سنگھار ، سوہنا مٹھرا سوہنا بالم اور سوہنا مٹھرا سا نول وغیرہ۔
فوزیہ رباب© کی غزلوں میں رومان اور جذبہ¿ عشق کا غلبہ ہے ۔ انہوںنے جس عمر میں شاعری شروع کی ہے، اس میں عشق و رومان کا ہونا لازمی ہے ۔ اس لئے انہوںنے اپنی غزلوں میںرومان و عشق کے جذبے کو بہتر طور پر نئے انداز میں پیش کیا ہے ۔ رباب کے آہنگ میں ایک نیاپن ہے اور شدید احساسات کی حسین کارفرمائی ہے۔ جب میں نے ان کی شاعری پر کچھ لکھنے کا ارادہ کیا اور ان کی غزلوں کا مطالعہ شروع کیا تو میںنے محسوس کیا کہ رباب کی غزلوں میں پروین شاکر کے انوکھے آہنگ اور منفرد تیور کا امتزاج ہے۔ وہ دانستہ نادانستہ پروین شاکر سے متاثر ہیں۔ اپنی ایک نظم ” لہو انسانیت کا ہے“ میںانہوںنے اعتراف بھی کیا ہے کہ آٹھ سال کی عمر سے ابن ِ صفی اور پروین شاکر کو پڑھتی رہتی تھی:
میں اک معصوم سی لڑکی
یہ دنیا جس کی نظروں میں
بہت ہی خوبصورت تھی
فقط جو زندگی کے آٹھویں ہی سال میں ہردن
بڑے ہی شوق سے ابنِ صفی ، پروین شاکر کی
کتابیں پڑھتی رہتی تھی۔
پروین شاکر نے پندرہ سال کی عمر میں شاعری شروع کی تھی اور فوزیہ رباب کا مجموعہ کلام انتیس سال کی عمر میں منصہ عام پر آچکا تھا ۔ غرض یہ کہ انہوںنے بھی کم عمر میں شاعری شروع کی ہوگی۔ دونوںشاعرات میں ایک یکسانیت اور ہے کہ پروین شاکر اپنے پہلے مجموعہ¿ کلام” خوشبو“ کے دیباچہ میں تحریر کرتی ہیں کہ : ” ایک لڑکی کھڑی ہے ۔ سناٹے میں اس نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ اس پر اس کے اندر کی لڑکی کو منکشف کردے۔ پر وہ اس کی بات مان گیا۔ چاند کی تمنا کرنے کی عمر میں ذات کے شہر ہزاردر کا اسم عطا کر دیا گیا ۔ پھولوں کی پنکھڑیاں چنتے چنتے، آئینہ در آئینہ خود کو کھوجتی یہ لڑکی شہر کی اس سنسان گلی تک آپہنچتی ہے کہ مڑکر دیکھتی ہے تو پیچھے دور دور تک جہاں تہاں کر چیاں بکھری پڑی ہیں۔“ فوزیہ رباب اپنی ایک نظم ” لہو انسانیت کا ہے“ میں لکھتی ہیں کہ :
میں اک معصوم سی لڑکی
یہ دنیا جس کی نظروں میں
بہت ہی خوبصورت تھی
وہ اک معصوم سی لڑکی
کہ جس کی گفتگو بھی اور
دعائیں بھی عجب سی تھیں
بطورِ خاص وہ لڑکی
تہجد میں کھڑی ہو کر
دعا اک مانگا کرتی تھی
خدایا تیرے بس میں کیا نہیں آخر
تو مالک دو جہانوں کا
مری بس اک خواہش ہے
کہ میری ذات کو مجھ پر
خدایا منکشف کردے
مجھے حسّاس تو کردے
کہ اس دنیا کے ہر غم کو
میں اپنی روح تک محسوس کر پاﺅں
دونوں کی خواہشات میں بلا کی یکسانیت ہے جس کی جھلک ان کی شاعری میں نمایاں ہیں۔ فوزیہ رباب ایک سریع الحس اور حساس شاعرہ ہیں۔ وہ اپنی غزلوں اور نظموں میں اپنے لطیف و نفیس احساسات کو انڈیل دیتی ہیں۔ احساسات میں ڈوبے ہوئے چند متاثر کن اشعار ملاحظہ ہوں:
اپنے ہوش گنوا بیٹھی ہوں پھر سے آج

سوچ رہی ہوں تجھ کو ہر دم شہزادے
میں بولی خواب کس کا دیکھتے ہو تم

وہ بولا آنکھ میں دیکھو کبھی میری
ہم جسے دیکھ لیں فقط اک بار

سب کے سب اس کو دیکھنے لگ جائیں
اس شعر کوپڑھنے کے بعد حافظ شیرازی کا مشہور شعر ذہن میں عود کر آتا ہے:
ہر کس کہ دید روئے توبوسید چشم من

کارے کہ کرددیدئہ من بے بصر نہ کرد
یہ آئینہ بھی تری ہی جھلک دکھاتا ہے

میں آئینے سے بڑی دیر تک حجاب کروں
تجھ میں ڈوبی تو مجھے اپنی خبر ہی کب تھی

میںنے یہ دوسرے لوگوں سے سنا ہے میں ہوں
ہر ایک چہرے سے ایسا دھواں نہیں اٹھتا

یہ خاص روشنی ہوتی ہے خاص آنکھوں میں
یہ شعر تو شاعرہ کی آنکھوں کا عکس پیش کرتا ہے ۔ ایک شعر سے ” زبان یار من ترکی“ کا لطف اٹھائیے اور رباب کے لطیف لہجے سے حظ اٹھائیے:
میرے الفاظ کیوں لگیں میٹھے

میرے منہ میں تری زبان ہے کیا
فارسی کا یہ ضرب المثل شعر دیکھئے:
زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم

چہ خوش بودے اگر بودے زبانش دردہان من
مندرجہ ذیل اشعار کے مزاج اور تیور دیکھئے کہ ایک کم عمر شاعرہ نے غزل میں کیا کیا گل بوٹے کھلائے ہیں۔ ان اشعار میں عشق کی کارفرمائی دیکھئے:
عشق کا اک عذاب تھوری ہے

زیست مثلِ گلاب تھوڑی ہے
عشق میں کوئی تو کشش ہوگی

ورنہ پاگل رباب تھوڑی ہے
رباب نے طویل غزلیں بھی کہی ہیں۔ایک غزل میں بیس اشعار ہیں اور سب میں روانی اور نغمگی برقرار ہے ۔ا سی غزل کی ردیف پر اس مجموعہ کا نام ” آنکھوں کے اس پار“ رکھا ہے ۔ چند اشعار میں شاعرہ کے لہجے اور آہنگ کی دلکشی دیکھئے:
سپنا کوئی بکھر چکا ہے آنکھوں کے اس پار

دریا جیسے ٹوٹ پڑا ہے آنکھوں کے اس پار
دن تعبیر مری چوکھٹ پر لاکر رکھ دے گا

رات نے تیرا خواب بنا ہے آنکھوں کے اس پار
ہم نے تیری آنکھوں میں رہ کر محسوس کیا

کتنا درد چھپا رکھا ہے آنکھوں کے اس پار
تجھ کو بھی سرشار نہ کردیں آنکھیں تو کہنا

ایک طلسمِ ہو ش ربا سے آنکھوں کے اس پار
پتھر ہو کر رہ جائیں گی آنکھیں موند رباب

اب بھی اس کا خواب پڑا ہے آنکھوں کے اس پار
اس مجموعہ میں کئی طویل غزلیں شامل ہیں جس سے رباب کی شاعری پر دست رس کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اخیر میں غزلوں کے چند اچھے اشعار پیش ہیں، جن سے رباب کی غزلیہ شاعری کے اوصاف ظاہر ہوتے ہیں اور ان کے اسلوب اور لہجے کی دلکشی ظاہر ہوتی ہے:
تم ہو میری زیست کا حاصل شہزادے

توڑ نہ دینا تم میرا دل شہزادے
شہزادی نے دل ہارا اور جیتی جنگ

مالِ غنیمت میں تم شامل شہزادے
اک جانب تو دوسری جانب تیری رباب

ایک زمانہ بیچ میں حائل شہزادے
جانے کیا رنگ رباب اب انہیں دے گی دنیا

کس قدر درد سے لبریز ہیں اشعار ترے
ایک مدت سے تری راہ میں آبیٹھی ہے

عشق میں تیرے ہوئی راجکماری پاگل
میںنے پوچھا کہ کوئی مجھ سے زیادہ ہے حسیں

آئینہ ہنس کے بولا اری جا ری پاگل
ہم نے تو بس پیار کیا تھا پاپ نہیں

لوگوںنے تو بات بڑھا دی شہزادے
جتنی عمر ہے باقی وہ بھی تیرے نام

جتنی تھی وہ تجھ پہ لٹادی شہزادے
آس لگائے ،نین بچھائے ہرلمحہ

رستہ دیکھے یہ برہن شہزادے کا
پریم کی گنگا جمنا من میں بہا دی ناں

تم نے اپنے خواب دکھاکر شہزادے
میری روح میں تیری یاد اترتی ہے

ہولے ہولے مدھم مدھم شہزادے
کب تک تنہا تنہا ٹوٹیں بکھریں گے

روح میں روح کو ہونے دے ضم شہزادے
شہزادے! کچھ اور نہ مانگے شہزادی

نکلے تیری بانہوں میں دم شہزادے
فوزیہ رباب کے مجموعہ میں کچھ نظمیں بھی شامل ہیں جن کی تعداد بیس ہے اور دو گیت ہیں۔ ان کی نظموں میں بھی غزلوں کی طرح جذبات و احساسات کی کارفرمائی ہے۔ سبھی نظمیں آزاد اور معریٰ ہیں۔ کوئی بھی نظم پابند اور روایتی نہیں۔ ان میں خیالات کی روانی ہے اور احساسات کی لہریں ہیں۔ ان غزلوں اور نظموں میں عصری حسن موجود ہے۔ عصری آگہی کے ساتھ عصری مسائل پر ان کا قلم اٹھتا ہے تو وہاں ترقی پسندی کی جھلک نمودار ہوتی ہے۔ان کی ایسی نظموں میں قلم اٹھاﺅ ، آنٹی مجھ کو ڈر لگتا ہے ، لہو انسانیت کا ہے، سنوبر می مسلمانو!اور بیٹیاں ہیں جو دل کے تار کو جھنجھنا دیتی ہیں۔ اخیر میں دو اچھے گیت” آنکھوں کے اس پار “ اور ” ہمارا ہندوستان“ ہیں ۔ پہلا گیت عشقیہ جذبے اور دوسرا دیش بھکتی کے جذبے سے لبریز ہے۔ دونوں گیتوں سے ایک ایک بند پیش کرتا ہوں، حظ اٹھائیں:
منڈیری پر کاگا بولے ، چوری کوٹ کھلاﺅں
مجھ سے پریتم آن ملیں یا ان سے ملنے جاﺅں
وہ بیری تو سب جگ بیری کیسے یہ سمجھاﺅں
اُن بِن اجڑا سونا سونا یہ گھر بار
پریتم رستہ بھول گئے ہیں آنکھوں کے اس پار
(آنکھوں کے اس پار)

اب تو رباب نے آنکھوں میں بھی سپنا ایک سجایا
دیس کی خاطر مرمٹنے کا دل میں عزم جگایا
ایک نہیں یہ لاکھوں جانیں ہوں اس پر قربان
نہ تیرا نہ میرا دیکھ ہمارا ہندوستان
(ہماراہندوستان)
ایک نظم ” میرا مٹھرا سوہنا بالم“ میں ہنوز میں ” مٹھرا “ کے معنی سے واقف نہیں ہو سکا ہوں، اس کے لئے گجرات کے ایک صاحب سے میںنے رابطہ بھی کیا لیکن انہوںنے ناواقفیت کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ کا وعدہ کیا۔ میںنے شاعرہ کے لہجے سے اس لفظ کا معنی بہت ہی پیارا سمجھا ہے اور نظم کی تھیم کو سمجھ لیا ہے:
میر ا مٹھرا سوہنا بالم
مجھ سے گیا ہے روٹھ
سوہنا مٹھرا سوہنا بالم
مجھ سے گیا ہے روٹھ
رباب کی شاعری میں گنگا جمنی رنگ و آہنگ بھی ہے۔ ان کو وطن سے پیار ہے ، وطن کی سوندھی مٹی کی سوندھی خوشبو سے پریم ہے ۔ پورے مجموعہ میں ہندی الفاظ کے موزوں استعمال سے ان کو ہندی سے محبت کا پتہ چلتا ہے ۔ ہندی کے خوبصورت اور سندر الفاظ نے رباب کی شاعری کوحسن و جمال بخشاہے ۔ الفاظ کا rhythmدیکھئے : سوہنا ، سانول ، سائیں ، بالم، کملے ، کاری ، نیناں، آس، پریتم ، منڈیری ، کاگا، ساون ، چوری، بیری، جھومر، پایل، جگ ، سنسار ، جیون ، دان، جھنکار، روپ، پیت ، سپھل، ساجن، پیا ، گجرے ، مول اور انمول وغیرہ کے خوبصورت اور برمحل استعمال سے شاعرہ کی ہنر مندی اور چابکدستی ظاہر ہوتی ہے۔
بہار اردو اکیڈمی ، پٹنہ کے ماہانہ مجلہ ” زبان و ادب“ کے شمارہ جولائی ۸۱۰۲ئ میں رباب کی تین نظمیں شائع ہوئی ہیں: (ا) میں شاعرہ ہوں (۲) سائیں اور (۳) جاودانی تینوں نظمیں جذبات و احساسات سے لبریز ہیں۔ تینوں نظموں سے چند سطریں پیش کرتا ہوں۔ تاکہ قاری مجموعہ سے الگ بھی ان کی شاعری کا لطف لیں:
(ا) حسین لفظوں کی شاعرہ ہوں
مرا تخیل فلک نما ہے
میں اپنے خواب و خیال
تحریر کرتی ہوں (میں شاعرہ ہوں)
(۲) ہاں اکثر یہی ہوتا ہے
کہ تم اپنی محبت سے
بہت مغلوب ہوتے ہو
تمہاری سانس کی شدت
اور ان الفاظ کی حدت
میں اپنی روح تک محسوس کرتی ہوں (سائیں)
(۳) چھو لیا تجھے
تو یہ لگا کہ جیسے دیوتا کا لمس پالیا
……………………
جو چھولیا تجھے تو یہ لگا
کہ میں جو مدتوں سے بے حیات تھی
مجھے حیات مل گئی (جاودانی)
اس مختصر سے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنی ابتدائی عمر میں ایسی پرکیف اور پر تاثیر شاعری کرنے والی فوزیہ رباب مستقبل میں اردو شاعری کے افق پر ایک درخشندہ ستارہ بن کر ابھریں گی۔
میری دعاءہے کہ ” زور قلم اور زیادہ“ رباب کے اس شعر کے ساتھ مقالہ ختم کرتا ہوں:
جانے کیا رنگ رباب اب انہیں دے گی دنیا
کس قدر درد سے لبریز ہیں اشعار ترے

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا