” چلو نہ ا بّو مِس نے بلایا ہے “”

0
0

چلو نہ ا بّو مِس نے بلایا ہے “ ایک چار پانچ سال کا لڑکا ایک تازہ قبر کے پاس بےٹھ کر دھےرے دھےرے اپنے ابّو کو قبر سے اُٹھنے کی منتےں کر رہا تھا۔اِ س معصوم کو اتنا پتہ نہیں تھا کہ یہاں جو چلے آتے ہیں اب قیامت کے دن ہی اُٹھائے جائےں گے۔لیکن یہ لڑکا اِن باتوں سے بے خبر اپنے ابّو کو آواز دئے جا رہا تھا۔ندیم اختر اپنی فیکٹری اسی راستے سے جاتے تھے۔اُن کی عادت تھی کہ جب کبھی قبرستان کے سامنے سے گذرتے مُردوں کے لئے دعائیں ضرور کرتے۔آج بھی جب قبرستان پر نظر پڑی تو خلاف معمول ایک معصوم لڑکے کو اپنے اسکول کے یونیفارم میں دےکھا جو اپنے اسکول کی ٹائی،بیلٹ اور بیگ کے ساتھ اپنا شناختی کارڈ گلے میں لٹکائے اور چمڑے کا سیاہ جوتا اور سفےد جرابیں پہنے ایک قبر کے کنارے بےٹھا ہوا ہے۔ندیم اختر اپنی گاڑی کو روک کر اندر چلے گئے۔انہوں نے اُس بچے سے پوچھا  ”کیا بات ہے بابو؟ تم اس طرح یہاں بےٹھ کر کیا کر رہے ہو تمہیں تو اسکول جانا چاہئے،کیونکہ تم تو پوری طرح اسکول جانے کے لئے تےار ہو۔“ اس لڑکے نے بتایا  ”میں اسکول ہی گےا تھا لیکن مِس نے کہا ہے اپنے ابّو کو بلا کر لے آﺅ۔میں بہت دےر سے اپنے ابّو کو بلا رہا ہوں لیکن وہ یہاں سورہے ہیں لیکن کوئی جواب ہی نہیں دےتے “اتنا سننا تھا کہ ندیم اختر کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔بچے کے گلے میں پڑے اس کے شناختی کارڈ میں درج تمام جانکاری کو ذہن نشیں کئے ہوئے وہ بچے کو لیکر اسکول پہنچ گئے ۔ کلاس ٹےچر سے بچے کو کلاس میں بےٹھنے کی اجازت دلواکر وہ اسکول کی پرنسپل کے چےمبر میں چلے گئے۔انہوں نے پرنسپل سے گذارش کی کہ اس بچے کی تعلیم کا سارا خرچ وہ ایک مشت جمع کر دیں گے لیکن اسے راز میں رکھا جائے۔نہ اس بات کی خبر اس لڑکے کو ہو نہ اس کے خاندان والوں کو۔یہ میرا کارڈ ہے ۔انہوں نے چک بک نکالا اور اسکول کے نام سے پندرہ ہزار روپئے دے دئے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بچے کی اچھی پڑھائی کی ذمہ داری آپ لوگوں کی ہے۔شام کو جب وہ گھر لوٹے تو اپنے علاقہ کے چند لوگوں سے رابطہ کیا اور اس بچے کے گھر پر کھانے پینے اور ضرورےات کے دوسرے سامان بھجوایا تاکہ اس گھر میں فاقہ کشی کی نوبت نہ آئے۔اس طرح دن گذرتے گئے اور ندیم اختر ہمیشہ وقت پر ایک مشت رقم اسکول میں جاکر جمع کر دےتے۔بچہ پڑھنے میں ذہین تھا اور ماں کی تربیت و نگہداشت نے اسے اور بھی نکھار ا۔بورڈ کے امتحان میں اسے رےاست بھر میں اول مقام حاصل ہوا ۔ اس طرح وہ کامیابےوں کی منزل کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ ایک دن پولیس کی گاڑی کا ایک قافلہ اسکول میں جب پہنچا تو سارے لوگ گھبرا گئے۔پرنسپل اپنے چیمبر سے نکل کرخود باہر آئیں لیکن وہ کچھ نہ سمجھ سکیں۔ایک نوجوان جس کے ساتھ کئی آفیسر پیچھے پیچھے چل رہے تھے پرنسپل صاحبہ کے قریب پہنچ کر کورنش بجا لایا اور بڑے ادب سے بولا  ” آپ نے نہیں پہچانا،میڈم،میں وہی طالب علم ہوں جس کے ابًو بچپن میں ہی انتقال کر گئے تھے اور کسی اللہ کے نیک بندے نے نہ صرف میری تعلیم پر خرچ کیا بلکہ میرے گھر کے اخراجات بھی اٹھائے۔لیکن میں ان کا نہ نام جانتا ہوں نہ ٹھکانا۔اگر آپ سبھوں نے محبت کے ساتھ نہ پڑھایا ہوتا اور صحیح نگہداشت نہ کی ہوتی تو میں بھی اوروں کی طرح آوارہ بن گیا ہوتا۔آج میں کلکٹر بن گےا ہوں۔برائے مہربانی مجھے اپنے محسن و کرم فرما کا نام بتائیں تاکہ ان کے قدموں میں گر کر ان کی تعرےف کروں۔ان کے ہاتھوں کو چوموں۔“  پرنسپل صاحبہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور اپنے چیمبر میں لے آئیں ۔ کہنے لگیں کہ اس محسن نے مجھے اس بات کو راز ہی میں رکھنے کو کہا تھا لیکن آج تمہیں دیکھ کر اور تمہارے جذبات و احساسات دیکھ کر میں ان کا نام بتاتی ہوں۔ اس لڑکے نے ایک خطےر رقم اپنے اس اسکول کو دیا اور ہمیشہ رقم کی فراہمی کا وعدہ کر کے چلا گیا۔کچھ ہی لمحے کے بعد وہ اپنے ماتحت آفیسران کے ساتھ شہر کی ایک بہت بڑی فےکٹری کے کیمپس میں داخل ہوا۔جب اس بات کی خبر ندیم اختر کو ہوئی تو وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ انکے کارخانے میں پولیس کیوں آئی ہے ۔وہ تو ہمیشہ ہی ٹےکس اور زکوٰة وقت پر ادا کرتے ہیں۔کلکٹر صاحب آگے بڑھے اور ندیم اختر کو بہت ہی ادب کے ساتھ سلام کیا اور ہاتھوں کو چومنے لگا۔ندیم اختر یہ سب دیکھ کر حےران و پرےشان،ان پر سکتہ طاری ہو گےا تھا۔ان کے منھ سے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔بولے کہ  ” سر ! آپ یہ سب کیوں کر رہے ہیں۔“ کلکٹر صاحب بولے کہ میں وہی لڑکا ہوں جسے آپ اس کے ابًو کی قبر پر سے اٹھا لائے تھے ۔ آپکی توجہ اور اسکول کی فیس جمع کرنے کی وجہ سے میں کلکٹر بن گیا ہوں۔خدا نہ خواستہ اگر آپ کی سر پرستی ہمیں نہیں ملتی تو میں بھی بہت برا انسان بن گےا ہوتا۔آپ جےسے لوگ اگر اٹھ کھڑے ہوں تو دنیا کی صورت بدل سکتی ہے۔لوگ کئی دفعہ حج کو چلے جاتے ہیں۔مہنگے ٹور اینڈ ٹریولس کے ذرےعہ عمرہ کو نکل جاتے ہیں جبکہ وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کا خیال کرےں اور مالی امداد د ے کر بچوں کی تعلیم کا بندوبست کر دیں تو سارا معاشرہ دھےرے دھےرے سنور جائے گا۔ہر علاقے میں ایسے حضرات موجود ہیں جو اپنے علاقے کو تعلیم سے مزین کر سکتے ہیں۔ندیم اختر کلکٹر صاحب کی باتوں کو سن کر بہت خوش ہوئے ا ور اسے تابناک مستقبل کی دعا ﺅں سے نوازا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا